قتلِ عام

حبیب شیخ

آج کل شہادت کا بہت چرچا ہے ۔ اس نیک کام میں کچھ سیاستدان، سرکار اور انتہا پسند سب شامل ہیں۔ بس طریقے الگ الگ ہیں۔ بعض دفعہ یہ آپس میں بھی لڑتے ہیں اور اس طرح یہ قتل کرنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں ۔ غرض کہ ہر طرف لوگ قتل ہو رہے ہیں یا کیے جا رہے ہیں ۔ بچے ، بوڑھے، بیمار بھی اس کی زد سے نہ بچ پائیں ہیں۔

ایک دلچسپ بات ضرور دیکھنے میں آئی ہے کہ جو انتہا پسند قاتلوں کو ان کی شہادت اور عوام النّاس کے قتل ِعام کے لئے بھیجتا ہے وہ شہادت کا جام خود نوش نہیں کرتا۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ مذہب کے نام پر اوروں کو قتل کیا اور اگر خود مارے گئے یا اتفاقاً پھانسی کی سزا ہو گئی تو ان کو شہادت کے اعلیٰ درجے پر فائز کر دیا گیا۔ ان کے مقبرے بنائے جاتے ہیں اور ان کو قوم کے ہیروؤں کی فہرست میں شامل کر لیا جاتا ہے ۔

اور دوسری طرف بعض دفعہ مقتول کی نمازہِ جنازہ پڑھنے اور پڑھانے کے لیے کوئی تیار نہیں ہوتا۔ پھر کچھ دوسرے مذاہب یا فرقوں کے لوگ ہیں جن کو نفرت اور کسی افواہ کی بنیاد پر انفرادی یا اجتماعی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ۔ رمضان کے مہینے میں روزہ کے اوقات کے درمیان پانی پلانے کو جرم قرار دے کر کئی بیماروں اور مزدوروں کو پیاسا ماردیا جاتاہے۔

پھر کچھ سرکاری لوگ ہیں جن کے ذمّہ یہ کام ہے کہ عوام کو اس زبر دستی کی شہادت سے بچایا جائے ۔ ان کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی کہ کتنے لوگ شہید یا قتل کیے جا رہے ہیں ۔ وہ ہر دفعہ ایسی واقعات کی سخت مذمّت کرتے ہیں اور انہیں روکنے کا وعدہ کرتے ہیں ۔ لیکن ان کی لوٹ کھسوٹ کی مصروفیت کی وجہ سے وہ کچھ اور کر نہیں پاتے ۔

دراصل یہ لوگ بھی عوام النّاس کا قتلِ عام کر رہے ہیں ۔ یہ جب اسپتالوں کا پیسہ کھا جاتے ہیں تو لوگ سسک سسک کر بغیر علاج کے مر جاتے ہیں ۔ ریل کی پٹریوں، پلوں اور سڑکوں کی مرمّت کے ذمّہ دار لوگ ان’ فضول‘ چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے کے بجائے حادثات کے ذریعے عوام النّاس کو قتل کر رہے ہیں ۔ کچھ بھلے مانسوں کا کام یہ ہے کہ زکوٰۃ کےپیسے اپنے نام یا اپنے دوستوں کے نام کروا لیتے ہیں ۔ نتیجتاً بے شمار بھوکے لوگوں کو موت اور بیماری نصیب ہو جاتی ہے ۔

پھر ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو غلام بنا لیتے ہیں کیونکہ ان کے باپ دادا نے قرض لیا تھا جو وہ ساری عمر بیگار کام کرنے کے باوجود اتار نہ پائے ۔ یہ لوگ بھی کام کرتے کرتے بھوک پیاس سے مر کر شہادت کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں ۔ پھر بعض دفعہ ایسی سرکار بھی آ تی ہے جو قوم کو ’سماج دشمن ‘ عناصر سے چھٹکارا دلانے کے لئے بہت لوگوں کو شہادت کی فضیلت سے بہرہ مند کر دیتی ہیں ۔

بےانتہا لوگ اشیاء خوردونوش میں ملاوٹ کر کے قتل کئے جاتے ہیں اور بہت بڑی تعداد کو گندے پانی کی دستیابی سے بیمار کر کے مار دیا جاتا ہے ۔ وقت کے ساتھ ساتھ شہید یا قتل کرنے کے نت نئے طریقے بھی نکالے جا رہے ہیں ۔ سعادت حسن منٹو کے افسانے ’شہید ساز‘ میں جان بوجھ کر ایک ناقص عمارت کی تعمیر کے زریعے سیکڑوں لوگوں کی شہادت کا زکر ہے۔

سنہ ۲۰۰۵ میں بڑا سیلاب آ یا تو سرکار نے کچھ بااثر زمینداروں کی فصلیں بچانے کے لئے ہزاروں لوگوں کو شہادت کے فیض سے نوازا اور لاکھوں کو بے گھر کر دیا۔

یہ سلسلہ کئی سالوں سے اسی طرح جاری ہے ۔ نتیجتاً عوام کے دو طبقے بن گئےہیں ۔ ایک شہید کرنے والا اور دوسرا شہید ہونے والا ۔

شہید کرنے والوں اور شہید ہونے والوں کی قسموں کی فہرست ابھی نامکمّل ہے۔ اس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ۔ عنقریب یہ فہرست اسکولوں کے نصاب میں شامل کر دی جاۓ گی کیوںکہ ہماری تاریخ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ انہی کے بارے میں لکھاجاتا ہے جو غازی تھے یا شہید ہو گئے تھے ۔ کسی ایسے شخص کے بارے میں جس نے عوام النّاس کی فلاح کے لئے اچھے کام کئے ہوں قلم کی روشنائی خشک ہو جاتی ہے ۔

آخر میں ان سائنس دانوں کا بھی ذکر ہو جاۓ جنہوں نے اپنی تحقیق کا زور اس پر لگا دیا ہے کہ کسی طرح سائنس کے ذریعہ جنوں کے وجود کو ثابت کر دیا جائے ۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اس کے بعد ان کی اگلی مشق تحقیق جنوں کی شہادت کے عنوان پر ہو گی ۔

4 Comments