مارکس کی شاعری 

لیاقت علی 

فلسفہ اور معاشیات کے شعبوں میں کارل مارکس کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے اوریہ کہنا کوئی مبالغہ آرائی بھی نہیں ہے کہ فلسفے اور اکنامکس کی کوئی تاریخ مارکس کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں سمجھی جاسکتی ۔مارکس کے سماجی اور معاشی نظریات کے گرد قائم دنیا میں سینکڑوں سیاسی ،ثقافتی اور تنظیمیں اور گروپس اپنے اپنے انداز اور حالات کے تحت مصروف جد وجہد ہیں ۔صرف دو دہائیاں قبل دنیا کے بہت سے ممالک ایسے تھے جو مارکس سے نظریاتی فیضان کا دعویٰ رکھتے تھے ۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا میں شاذ ہی کسی فلسفی نے دنیا کو اس قدر متاثر کیا ہو جتنا کہ مارکس اور اس کے نظریات نے کیا ہے ۔مارکس محض ’زاہد خشک ‘ ہی نہیں بلکہ شاعر بھی تھا یہ بات بہت کم لوگوں بالخصوص اس کے نظریاتی پیروکاروں کو معلوم ہے اور جن کو اس حقیقت سے آگاہی ہے وہ مارکس کے اس پہلو کو اہمیت دینے کی بجائے اسے ’بورژوا‘ خیال کرتے ہوئے نظر انداز کردیتے ہیں ۔

محمد علی صدیقی کا کہنا ہے کہ ’ مارکس نے یونانی ادب سے لے کر انیسویں صدی کے مغربی ادب کو بلا قید صنف سخن کھنگالا ہے اور ادب فہمی کو واضح لغوی معنوں کی بیساکھی سے نکال کر بین السطوری اشاروں کے ذریعے اپنے عہد کے سماجی ،معاشی اور سیاسی نظریات کو تقویت دی ہے وہ صرف اسی کے ساتھ مخصوص ہے ۔شائد دنیاکے کے کسی اور فلسفی نے اپنے بظاہر دقیق ترین فکری نکات کی وضاحت کے لئے ادب کا اس قدر بھر پور اور جامع مطالعہ کیا ہو جیساکہ مارکس نے کیا ۔باکونن مارکس کو بجا طور پر اس کی ادبی استفادہ کی وسعت اور تجزیاتی صلاحیت کو فکر انسانی کی حرف آخر سمجھتا ہے‘ ۔

مارکس شاعری یا ڈرامہ یا فکشن کو سماجی تبدیلیوں کے مطالعہ کا سب سے اہم ذریعہ سمجھتا ہے چونکہ ادبی اسلوب اظہار حقیقت پر جس درجہ ملمع آرائی کرتا ہے وہ بیشتر ادباء اور شعرا کے یہاں اپنے عہد کے حکمران طبقات کی فکر کو پردہ اخفا میں رکھنے کے لئے دانستہ یا نا دانستہ کوشش ہوتی ہے ۔بعض ادیب اور شاعر یہ کام جان بوجھ کررہے ہوتے ہیں اور بعض غیر شعوری طور پر یہ کھیل کھیل رہے ہوتے ہیں ۔

ایسے ادیبوں اور شاعروں کے ہاں آئیڈ لوجی حقیقت حال کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش ہوتی ہے ۔اسے ستم ظریفی ہی کہا جاسکتا ہے کہ خود کارل مارکس کے نظریات بھی وقت کے ساتھ ساتھ آئیڈلوجی کا روپ دھار کر عقیدہ بن گئے ۔مارکس نے ادبی فن پاروں سے اپنی فکر کی وضاحت کے لئے جس طرح اشارے اور کنائے اخذ کئے ہیں وہ ادب کے موجودہ قارئین کوٍ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ۔ مارکس ادبی فن پاروں کے براہ راست پیغام کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ وہ تو اس پیغام کو گمراہ کن خیال کرتا ہے ۔ وہ کسی ادبی فن پارے کے مخفی اشاروں اور کنایوں کو سمجھنا چاہتا ہے ۔ 

اگر مارکس کی اس مجموعہ میں شامل نظموں کا مطالعہ کیا جائے تو پہلی بات یہ ہے کہ ان نظموں کی اکثریت 1835-36کے سالوں میں لکھی گئی۔ یہ وہ دور ہے جب جینی سے مارکس کے عشق کا آغاز ہوا ۔مارکس اور جینی کا عشق 1844تک جاری رہا جب ان کی شادی ہوگئی ۔ مارکس نے اپنی شاعری میں جذبات کی صاف اور غیر مبہم عکاسی کے بجائے تمثیلوں کے زریعے اپنا مفہوم بیان کیا ہے ۔جوانی اور محبت کے باہمی تال میل کے زیر اثر لکھی جانے والی ان نظموں میں جذبات کا بھرپور اظہار ملتا ہے ۔

مارکس کی شاعری میں جہاں رومانوی جذبات کا وجود ملتا ہے وہاں مثالی سماجی تبدیلی کے بعد پروان چڑھنے والے انسانی رشتوں کی لا زوال محبت کی طرف بھی اشارے کئے ہیں ۔ 
اس مجموعے میں شامل نظموں کی درج ذیل سطریں مارکس کے اس رحجان کی عکاس ہیں ۔مثلا نظم ’’سارنگی نواز‘‘ کے یہ اشعار :

جب تک دل سحرزدہ ہے ،جب تک احساس کی چرخی رواں ہے 
میں ابلیس سے اپنے معاہد ہ پر ڈٹا رہوں گا ۔۔۔۔۔
مجھے اندھیرے سے کھلواڑ کرنی ہوگی ،مجھے اجالے تک پہنچنا ہوگا 
یہاں تک کہ ساز کے تار میرے دل دل کو لخت لخت نہیں کردیتے ۔۔۔۔۔۔
نظم ’’محبت کی کتاب‘‘ کی یہ سطریں 
میرے نزدیک کوئی ارضی شہرت ایسی نہیں 
جو قوموں اور زمینوں کے بیچ زیادہ دیر تک سفر کرسکے 
جو ہیجان خیزی میں مبتلا کرکے انہیں اپنا مطیع بنالے 
اپنی دور پار سے آتی گونج سے 
جیسے کہ تمہاری بیش قدر آنکھیں ،جب وہ پوری طرح روشن ہوں 
جب تمہارا دل خوشی اور گرم جوشی سے چھلکتا ہو
یا تمہارے وہ نہایت سچے کھرے آنسو
جو گیتوں سے جذباتی ہونے پر بیدخل کردیئے جائیں ۔

Comments are closed.