رسمِ خود کُشی کا چلن

منیر سامی

اُردو کے ممتاز شاعر مصطفی ؔ زیدی کا ایک شعر ہے، ’’بگڑ چلا ہے بہت رسمِ خود کُشی کا چلن۔۔ ڈرانے والو کسی روز کر دکھاؤ‘‘۔ہم اس سے پہلے بھی اسشعر کا حوالہ دے چکے ہیں، جب ہم نے کینیڈا میں اولین باشندوں کے نوجوانوں میں خود کُشی کے بارے میں بات کی تھی۔

مصطفٰی زیدی کی وفات خود کُشی ہی سے ہوئی تھی۔ آپ کو شاید یاد ہو کہ مصطفی زیدی کے بعد کئی سالوں کے وقفے میں ساراؔ شگفتہ، اور ثروت ؔ حسین کی اموات بھی خود کُشی ہی سے ہوئیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ بھی کچھ ایسے لوگوں کو جانتے ہوں جنہوں نے خود کُشی کی ہو۔ خود کُشی کا تعلق عموماً انسانی ذہنی صحت سے جُڑا ہے۔ ذہنی صحت خراب ہونا ، سالہا سال سے تقریباً ہر معاشرہ میں بدنامی کا داغ یا کلنک کا ٹیکہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس وجہ سے اس خرابی صحت کو چھپایا جاتا رہاہے۔

مختلف ممالک، بالخصوص ہندوستا ن اور پاکستان میں اس ضمن میں اعداد و شمار بھی آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔ کئی ممالک میں مذہبی اور سماجی وجوہ سے خود کُشی کو حرام بھی قرار دیا جاتا رہا ہے۔ بلکہ کئی ممالک میں اقدامِ خود کُشی کو جرم بھی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن اب اس موضوع پر فکر میں تبدیلی آرہی ہے، اور ذہنی صحت اور اس کی خرابی کے علاج پر زور دیا جارہا ہے۔ اور اس کے تدارک پر قومی سطحوں پر کوشش کی جا رہی ہے۔

گزشتہ ہفتوں میں کینیڈا اور امریکہ میں ایک بار پھر اس موضوع پر قومی گفتگو شروع ہوئی ہے۔ اس کا محرک دو معروف شخصیات کی خود کُشی سے اموات ہیں۔ ان میں ایک معروف فیشن ڈیزائنر کیٹؔ اسپیَڈ Kate Spade اور دوسرے معرو ف ٹی وی شخصیت Anthony Bourdaineہیں جو مشہور میڈیا ادارے ، سی این این سے وابستہ تھے اور جن کے پروگرم دنیا بھر میں مقبول تھے۔ ان دونوںشخصیات کی موت کے بعد خود کُشی اور ذہنی صحت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کئی اور معروف شخصیات نے اپنے عزیز و اقارب میں او ر قریبی رشہ داروں میں ذہنی صحت کے مسائل اور خود کُشی کے بارے میں کھُل کے گفتگو کی ہے۔

معروف فنکاروں، ادیبوں، شاعروں ، کی خوکُشی کی بات کوئی نہیں ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ ہم سب سماجی نسیان یا اس موضوع کے ناگفتہ بہ سمجھے جانے کی وجہ سے یا تو انہیں بھول جاتے ہیں، یا اس پر بات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں میرؔ تقی میر بھی شدید یاس کا شکار ہوئے تھے۔ اور دنیا کے دیگر معرو ف ادیب اور فنکار بھی ۔ جن میں ہیمنگوےؔ، سلویاؔ پلاتھ ، ورجینیاؔ وُلف، وان ؔگوہ بھی شامل ہیں۔

کینیڈا، امریکہ اور دیگرممالک میں جہاں نوجوانوں میں ذہنی صحت کے مسائل میں اضافہ کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار کے نتیجہ میں تشویش بڑھی ہے، اب ہنگامی طور پر تدارک کی ترکیبیں اختیار کی جارہی ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل اور اقدامِ خود کُشی کا مسئلہ ڈپریشن Depression یعنی یاس، شدید افسردگی ، یا حالتِ بے چارگی سے شروع ہوتے ہیں۔ اس لیے اب عام ابلاغ کے ذریعہ اس کی علامات کے بارے میں اطلاعات فراہم کی جارہی ہیں۔ تاکہ اگر ہم اپنے اطرف میں اپنے عزیزوں یا قرابت داروں میں یہ علامات دیکھیں تو نہ صرف ان کی مدد کی کوشش کریںبلکہ صحتِ عامہ کے ان وسائل تک پہنچنے کی کوشش کریں جہاں اس ضمن میں منظم مدد دستیاب ہے۔

کینیڈا کے تقریباً ہر صوبے میں ایسی فون لائنیں قائم کی گئی ہیں جہاں چوبیس گھنٹے کی بنیاد پر ہمدردی سے بات کرنے والے مدد کے لیے موجود ہیں۔ اسی طرح امریکہ میں یہ سہولتیں عام کی جارہی ہیں۔ کینیڈا میں س ضمن میں مزید معلومات اس ویب سائٹ سے حاصل کی جاسکتی ہیں: https://suicideprevention.ca ۔ امریکہ میں اسی طرح کی ویب سائٹ https://www.changedirection.org ہے۔ امریکہ ہی میں اس موضوع پر مدد حاصل کرنے کی ایک اور ویب سائٹ https://www.mentalhealth.gov بھی ہے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کے اطراف میں کوئی شخص یا عزیز ذہنی مسائل سے دو چار ہے ، تو اس کی دل جوئی کے ساتھ ساتھ اسے کسی ڈاکٹر یا ماہرِ نفسیات سے ملوانے کی کوشش میں تکلف نہ کریں۔ آپ کی ذرا سی دل چسپی اور توجہ بہت ممکن ہے کسی کی جان بچا لے یا اس کی صحت کی بحالی کا باعث ہو سکے۔

کینیڈا میں معروف ادیب ، دانشور، اور ماہرِ نفسیات ڈاکٹر خالد ؔ سہیل ذہنی صحت کے موضوع پر رضاکارانہ طور پر معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔ وہ بارہا مختلف اداروں کے زیرِ اہتمام لیکچر اور رضاکارانہ مشاورت بھی فراہم کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے ذہنی صحت اور پر سکون زندگی کے موضوعات پر کئی عام فہم کتابیں بھی لکھی ہیں۔ انہوں نے بھی اس موضوع پر ایک ویب سائٹ http://www.greenzoneliving.ca قائم کی ہے، جہاں کئی اہم معلومات موجود ہیں۔ ذہنی صحت کے مسائل کو Tabooیا نا گفتہ بہ سمجھنے کے بجائے ضروری ہے کہ اس پر کھل کر گفتگو کی جائے۔ یہ ایک اہم کارِ خیر ہے۔

Comments are closed.