پنجاب کا وزیر اعلی کون ہوگا؟

لیاقت علی

تحریک انصاف کے وائس چئیرمیں شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ عام انتخاب کے نتیجے میں اگر تحریک کو پنجاب اسمبلی میں اکثریت ملی تو وہ وزیر اعلی پنجاب بننا چاہئیں گے۔ 1937 میں پہلی دفعہ 1935 کے ایکٹ کے تحت ہندوستان میں صوبائی انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ اس وقت سے اب تک گذشتہ اکیاسی سالوں میں پنجاب کے وزیر اعلی کا عہدہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ پنجاب کا وزیر اعلی بننا پنجاب کے ہر قابل ذکر سیاست دان کا خواب ہے۔ یہ عہدہ قیام پاکستان سے پہلے اورقیام پاکستان کے بعد بھی بہت زیا دہ اہمیت کا حامل رہا ہے اور آج تک ہے۔

برطانوی عہد میں برٹش انڈین آرمی میں پنجابی فوجیوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اس لئے پنجاب کے سیاسی جذبات کو قابو رکھنا انگریزسرکار کی اولین ترجیح ہوا کرتی تھی۔ 1937 کے الیکشن میں جناح کی قیادت میں مسلم لیگ کو پنجاب سے صرف دو نسشتیں ملی تھیں۔ جہلم سے راجہ غضنفر علی خان جیتے تھے اور لاہور سے ملک برکت علی۔ راجہ غضنفر علی خان الیکشن جیتنے کے دوسرے دن مسلم لیگ چھوڑ کر یونینسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے تھے اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ کے پاس صرف ایک رکن ملک برکت علی رہ گئے تھے۔

سر سکندر حیات خان آف واہ کی زیر قیادت یونینسٹ پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں اکثریت ملی اور پارلیمانی اکثریت کی بنا پرسر سکندر حیات خان نے پنجاب کے وزیر اعظم کا عہد ہ سنبھالا تھا۔ سکندر حیات جاگیردار اور انگریز سرکار کے نسل در نسل وفادار تھے۔ وہ کوئی ایسا سیاسی قدم نہیں اٹھاتے تھے جن سے انگریز سرکار کے ناراض ہونے کا ذرا سا بھی احتمال ہوتا۔

جناح کو اندازہ تھا کہ جب تک مسلم اکثریت صوبے ان کے مطالبہ پاکستان کی تائید نہیں کرتے اس وقت ان کی اس مطالبہ کی اہمیت اور حیثیت نہیں ہے۔ دوسری طرف سکندر حیات بھی کانگریس کی بڑھتی ہوئی طاقت و قوت سے خوف زدہ تھے چنانچہ دونوں کے خوف نے ان کو باہم متحد ہونے پر مجبور کردیا۔ سکندر جناح پیکٹ ان کے اس خوف کا اظہار تھا۔یہ بہت عجیب معاہدہ تھا اس کے تحت پارلیمانی پارٹی کا نام یونینسٹ پارٹی تھا لیکن اسمبلی سے باہر یونینسٹ پارٹی کے مسلم ارکان مسلم لیگ بن جاتے تھے۔

یہ معاہدہ سکندر حیات کی 1942 میں وفات تک قائم رہا۔ جونہی سکندر حیات فوت ہوئے اور ان کی جگہ ملک خٖضر حیات ٹوانہ ( آف سرگودھا)وزیر اعظم پنجاب بنے تو انھوں نے اس معاہدے کو طاق پر رکھ دیا۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پنجاب کے وزیر اعظم سکندر حیات جناح کا ساتھ نہ دیتے تو پاکستان کا پراجیکٹ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ 23 مارچ 1940 کا مسلم لیگ کا لاہور میں جلسہ وزیر اعظم پنجاب سر سکندر حیات کے اس عہدے کی بدولت ممکن ہوا تھا ورنہ پنجاب میں مسلم لیگ کو عوامی حمایت نام کی کوئی چیزحاصل نہیں تھی۔

قیام پاکستان سے چندماہ قبل مسلم لیگ پنجاب نےایک ہی سیاسی تحریک چلائی تھی اور وہ تھی ملک خضر حیات ٹوانہ کی مخلوط وزارت عظمی کےخلاف سول نافرمانی کی تحریک۔ ٹوانہ بوجوہ جناح کے پاکستان پراجیکٹ سے متفق نہیں تھا وہ پنجاب کو متحد رکھنے کا خواہا ںتھالیکن مسلم لیگ کی قیادت یہ نہیں چاہتی تھی۔جناح کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے تعاون کے بغیر پاکستان کا قیام اگر ناممکن نہیں تو بہت زیادہ مشکل ضرو رتھا۔ چنانچہ پنجاب کے وزیر اعظم خضر حیات ٹوانہ کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کے لئے مسلم لیگ نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں ٹوانہ کو مستعفی ہونا پڑاتھا۔

قیام پاکستان کے بعد 15 اگست کو پنجاب کا پہلا وزیر اعلی نواب افتخار حسین ممدوٹ بنا تھا۔ ممدوٹ کا تعلق مشرقی پنجاب سے تھا ۔ پہلے دن سے ہی اس کے خلاف مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی میں سازشیں شروع ہوگئی تھیں۔ سازشیوں کو وزیر اعظم لیاقت علی خان کی حمایت حاصل تھی جو ممتاز دولتانہ کو وزیر اعلیٰ پنجاب دیکھنا چاہتے تھے۔ وفاق پاکستان میں پنجاب مشرقی بنگال کے بعد بڑا صوبہ تھا اس لئے اس کا وزیر اعلیٰ بننا ہر پنجابی سیاست دان کی خواہش ہوتی تھی۔ممدوٹ اور دولتانہ کی کشمکش کے نتیجے میں پنجاب اسمبلی کو معطل کرکے گورنر راج نافذ کرنا پڑا تھا۔

دو سال بعد جب پنجاب اسمبلی بحال ہوئی تو ممتاز دولتانہ پنجاب کے وزیر اعلی بن گئے۔ ان کے دور میں فرقہ ورانہ فسادات ہوئے اور لاہور میں مارشل لا نافذ کرنا پڑا تھا ممتاز دولتانہ کی وزارت دوسال تک رہی اور انھیں مستعفی ہونا پڑا تھا۔ ان کے بعد جنوبی پنجاب کے سردار عبدالحمید خان دستی پنجاب کے وزیر اعلی بنے جو صرف پانچ ماہ تک اس عہدے پر فائز رہے تھے۔
بنگلہ دیشں کے قیام کے بعد پاکستان کے وفاق میں پنجاب کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی ۔ پنجابی فوج پاکستان کے ریاستی ڈھانچے میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکی تھی اور بھٹو جیسا کرشماتی لیڈر بھی اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے فوج پر انحصار کی پالیسی اختیار کرنے پر مجبور تھا۔ بھٹو ساڑے چار سال وزیر اعظم رہے۔ ان کی پارٹی کو پنجاب اسمبلی میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود وہ پنجاب کو ریموٹ کنٹرول کے ذریعہ چلاتے رہے۔

بھٹو نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب میں کوئی مقامی قیادت پیدا ہو۔ وہ پی پی پی کے اس لیڈر جھٹک دیتے تھے تو مقامی طور پر مقبول ہوتا تھا۔ وہ سیاست میں مزارعت پر یقین رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ساڑھے چار سالوں میں چار وزیر اعلیٰ ۔۔ ملک معراج خالد، ملک غلام مصطفیٰ کھر، حنیف رامےاور صادق قریشی یکے بعد دیگرے تبدیل کئے۔بھٹو حکومت میں سب سے زیادہ لمبا عرصہ ملتان کا نواب صادق حسین قریشی وزیر اعلیٰ پنجاب رہا۔

سنہ1977 وہ آخری سال تھا جب پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تھی اس کے بعد لا تعداد دعووں اور بھرپور کوششوں کے باوجود پیپلزپارٹی کا رکن اسمبلی وزیر اعلی پنجاب نہیں بن سکا۔ دو دفعہ پیپلز پارٹی واحد اکثریتی جماعت کے طور پر ضرور ابھری لیکن مخلوط حکومت میں اسے سنئیر منسٹر کا عہد ہ ملا وزارت اعلی سے اسے دور ہی رکھا گیا کیونکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ صرف اسی پارٹی کو بیک وقت مرکز اور پنجاب میں حکومت سونپتی ہے جس کے بارے میں اسے یقین ہو کہ یہ سیکورٹی سٹیٹ ایجنڈے سےانحراف نہیں کرے گی۔ پیپلز پارٹی بوجوہ یہ یقین دہانی کرانے میں ناکام رہی ہے۔

سنہ1985کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد فوجی جنتا نے نواز شریف کو پنجاب کی وزارت اعلی سونپی تھی۔ نواز شریف کیونکہ سیاست میں نوارد تھے اور ان کا کوئی اپنا حلقہ انتخاب بھی نہیں تھا اس لئے مکمل طور پر فوجی حکومت کے مرہون منت اور اس پر انحصار کی پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ یہ ان کی فرماں برداری تھی جس کی بدولت جنرل ضیا کی موت کے بعد جو الیکشن ہوئے اس میں ایسٹبلشمنٹ نے پوری منصوبہ بندی سے یہ کامیاب کوشش کی کہ پنجاب وزیر اعظم بے نظیر کو نہ ملے۔ وزارت عظمی کا حلف دینے سے قبل ہی فوج نے نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنادیا تھا۔ مختصر وقفوں کے سوا پنجاب پر شریف خاندان حکمران ہے۔منظور وٹو، سردار عارف نکئی وزیر اعلی تو ضرور بنے لیکن وہ اس قدر طاقت ور وزیر اعلی نہیں تھے جنتا کہ شہباز شریف۔ 

کچھ لوگ کہتے ہیں چوہدری نثار ہوں یا چوہدری پرویز الہی ان دونوں کی نواز شریف ناراضی پنجاب کے وزارت اعلیٰ کے بنا پر ہے۔ پرویز الہی نواز شریف ناراض ہی اس بنا پر ہوئے ہوئے تھے کہ انھوں نے وعدہ کے مطابق پنجاب کی وزارت اعلیٰ پرویز الٰہی کو دینے سے انکار کردیا تھا۔ جب فوجی جنتا نے انھیں سی ایم کی پوسٹ دینے کی یقین دہانی کرائی تو وہ دامے درمے سخنے فوج کے ساتھ شامل ہوگئے اور اپنا خواہش کردہ عہدہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔

اب آئیندہ الیکشن میں ایک دفعہ پھر پنجاب کی وزارت ا علیٰ کے حوالے سے جوڑ توڑ ہوگا۔ ملک کی باسٹھ فی صد آبادی کے حامل صوبہ کا گورنر بننے کا مطلب ہے فرانس سے بڑے ملک کا وزیر اعظم بننا۔ اس دفعہ نہ ن لیگ بلکہ تحریک انصاف میں بھی اس عہدے کے حصول کے لئے سازشیں ہوں گی اور ہر اہم سیاست دان اس دوڑ میں شامل ہوگا ۔ تحریک انصاف میں صرف شاہ محمود قریشی ہی اس عہدے کے خواستگار نہیں ہیں لاہور کے عبدالعلیم خان کی نظریں بھی پنجاب کی وزارت اعلی پر ہیں دیکھتے ہیں کہ کون بنتا ہے پنجاب کا وزیر اعلیٰ۔

Comments are closed.