کیا آئی ایم سے قرضہ آخری حل ہے

پاکستان میں حکومت سازی کا عمل جاری ہے۔ ایسے میں اربوں ڈالر کے مالی خسارے اور قرضوں میں جکڑی معیشت کی بحالی کو حکومت کے لیے اہم ترین چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔ کیا نئی حکومت کے لیے آئی ایم ایف سے قرض لینا آخری حل ہوگا؟

بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی موڈیز انویسٹرز اور بلوم برگ نے اپنی تازہ رپورٹوں کے مطابق بڑھتے ہوئے مالی خسارے اور زر مبادلہ کے گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دینا نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہوگا۔ مالیاتی امور کے تجزیہ کار مزمل اسلم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’بلاشبہ معاشی مسائل نئی حکومت کے منتظر ہیں، 37 ارب ڈالر کی درآمدات، ترسیلات زر میں کمی، توازن ادائیگی کی بگڑی صورتحال اور زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر یقیناً نئی حکومت کے لیے کڑا امتحان ثابت ہوں گے‘‘۔

ان کا مزید کہنا تھا،’’مالی مشکلات سے بچنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر 10 سے 15 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے پاس چونکہ اس قدر وسائل موجود نہیں ہیں کہ اپنی ضرورت کا انتظام خود کر سکے لہذا مالی مسائل حل کرنے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض لینا پڑ سکتا ہے‘‘۔

دوسری جانب امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے مشروط بیل آؤٹ پیکج کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان سرد اقتصادی جنگ کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ پاکستان کو ملنے والا فنڈ چینی قرضے کی ادائیگی میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔

پاکستان کے معروف معاشی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے کے علاوہ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔

پاکستان کے پاس غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائرکی مالیت صرف نو ارب ڈالر ہے، جو بمشکل دو ماہ کی درآمدی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ ساتھ ہی آئی ایم ایف سے لیے گئے پچھلے قرضے، درآمدات اور یورو بانڈز کی ادائیگی بھی ملکی خزانے پر بوجھ ہیں، جن کے لیے رقم کا بندوبست کرنا بہرحال نئی حکومت کی ذمہ داری ہو گی۔

دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا،’’امریکا اکثر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کی معیشت اور سیاست پر حاوی ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ اس بار بھی امریکی وزیر خارجہ کا بیان نئی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہی ہے کیونکہ امریکا چین سے اقتصادی جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے بدلے میں وہ پاکستان کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ وہ اسی لیے آئی ایم ایف کو دھمکا رہا ہے کہ اگر قرض دیا جائے تو اس سے چینی قرضے کی ادائیگی نہ ہونے دی جائے‘‘۔

اکرام سہگل نے مزید کہا،’’پاکستان اور چین کے درمیان تقریبا 55 ارب ڈالر کا اقتصادی راہداری منصوبہ ابتدا سے ہی امریکا کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے۔ اب چین عالمی افق پر سپر پاور بننے جا رہا ہے، جو امریکا سے کسی طرح ہضم نہیں ہو رہا ، اسی لیے امریکا چین کو نقصان پہنچانے کے لیے پاکستان پر کڑی شرائط عائد کر رہا ہے۔‘‘

مالیاتی امور کے تجزیہ کار خرم شہزاد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ’’اگرچہ پاکستان کی مالی صورتحال بہتر نہیں، ٹیکس آمدن کم اور اخراجات زیادہ رہنے کی وجہ سے مالی خسارہ کافی بڑھ گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ہی مشکل کا آخری حل ہے‘‘۔

خرم شہزاد نے مزید کہا کہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے واضح برتری حاصل کی ہے۔ ان کے بقول جب متوقع وزیر اعظم عمران خان شوکت خانم ہسپتال کے لیے چند گھنٹوں میں عوام سے کروڑوں روپے جمع کر سکتے ہیں،’’ تو اگر وہ ملک کی بہتری کے لیے سمندر پار پاکستانیوں سے درخواست کریں کہ جو بھی پیسہ پاکستان بھیجیں، بینکنگ چینل سے بھیجیں۔ تو میرا خیال ہے کہ جو سالانہ انیس بیس ارب ڈالر آرہے ہیں، اس کی جگہ چالیس ارب ڈالر پاکستان آئیں گے، جس سے صورتحال بہتر ہو گی۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بانڈز کے اجرا سے بھی رقم آسکتی ہے۔ جبکہ چین اور سعودی عرب بھی نئی حکومت کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘‘۔

پاکستان تحریک انصاف نے ہمیشہ ٹیکس آمدنی بڑھانے اور سادگی اختیار کرنے پر زور دیا ہے، جس کا مقصد غربت اور بیروزگاری میں کمی کے نتیجے میں عوام کا معیار زندگی بہتر بنانا ہے۔ عمران خان نے الیکشن میں کامیابی کے بعد قوم سے اپنے پہلے خطاب میں معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کی یقین دہائی کروائی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور متوقع وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہےکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کا راستہ کھلا ہے۔ ان کے مطابق ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے صرف 125 ارب روپے ٹیکس حاصل ہو سکا ہے جبکہ پاکستان کو ہر ماہ دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔

اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا،’’نئی حکومت کو معاشی میدان میں سخت اقدامات اٹھانا پڑیں گے۔ تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر رقم کا انتظام کرنا ہوگا۔ دس سے پندرہ ارب ڈالر کا انتظام کہاں سے ہوگا؟‘‘۔

انہوں نے مزید کہاکہ چین اور سعودی عرب یا کوئی اور دوست ملک آئی ایم ایف کے قرضے کا متبادل نہیں ہوسکتا۔

یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے سی این بی سی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امریکا پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے لیکن اس بات کا کوئی جواز نہیں ہے کہ ’بین الاقوامی مانیٹری فنڈ‘ پاکستان کو قرض فراہم کرے اور اس رقم سے پاکستان چین سے حاصل کیا ہوا قرض چکائے۔

پومپیو نے کہا،’’ خیال رکھیں ہم آئی ایم ایف کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ وہ کیا کرے گا۔ اس بات کی کوئی منطق نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کو ٹیکس کی مد میں دی گئی رقم جو امریکی ڈالر سے بھی منسلک ہے اسے چینی سرمایہ کاروں کو پہنچایا جائے‘‘۔

آئی ایم کی ترجمان کا اس حوالے سے کہنا ہے،’’ ہم یہ بتا سکتے ہیں کہ ابھی تک پاکستان کی طرف سے کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ اور اس حوالے سے پاکستانی انتظامیہ کے ساتھ کوئی مذاکرات بھی نہیں ہوئے۔‘‘ پاکستان کی نئی حکومت کو سب سے بڑا چیلنج روپے کی گرتی ہوئے قدر کو روکنا ہے۔ بہت سے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج کی ضرورت ہوگی۔ اگر پاکستان کو یہ پیکج ملتا ہے تو گزشتہ پانچ سالوں میں یہ پاکستان کا دوسرا بیل آؤٹ پیکج ہو گا۔

پاکستان چین کی حکومت اور بینکوں کا لگ بھگ پانچ ارب ڈالر کا قرض دار ہے۔ اس رقم سے پاکستان کے بڑے تعمیراتی منصوبوں پر کام جاری ہے۔ حال ہی میں چین نے پاکستان کو مزید ایک ارب ڈالر فراہم کیا ہے۔

 ٹرمپ انتظامیہ نے  ترقی پذیر ممالک کو ترقیاتی کاموں کے لیے چین کی جانب سے قرض فراہم کرنے کی پالیسی پر تنقید کی ہے۔ ان کی رائے میں اس طرح غریب ممالک قرض کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔

DW

2 Comments