آرزو ہے کہ آباد ہو شہرِ جاں

منیرسامی

جب یہ تحریر آپ کی نظروں میں آئے گی، پاکستان میں انتخابات یا بعضوں کے مطابق یک طرفہ چناو کا عمل مکمل ہو چکا ہوگا۔ ہم جیسوں کی صرف ایک خواہش اور امید ہے کہ نتائج حقیقی طور پر پاکستان کے عوام کی امنگوں اور مرضی کے مطابق ہوں۔ نتیجہ جو بھی ہو وہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو۔

پاکستان روزِ اول سے جمہوریت اور آمریت کے مختلف ادوار سے گزرتا رہا ہے۔ وہاں مقتدرہ کی ایسی آمریت کہ جس پر پاکستان کی افواج کا غلبہ رہا ہے، ہمیشہ ایک مدت سے اپنی من مانی کرتی رہی ہے۔ہمارے خیال میں پاکستان کی مقتدرہ ،وہاں کے جاگیر داروں، بڑے سرمایہ داروں، اعلیٰ عدلیہ، افسر شاہی، اور بڑے میڈیا ، اور قدامت پرست مذہبی افراد، اور اعلیٰ فوجی افسران ،کے طاقتور گروہوں پر مشتمل ہے۔ اس کے برخلاف مختلف عرصوں میں ایک کمزور جمہوری آواز بھی اٹھتی رہی ہے، جسے فوجی آمریت کے عفریت کے ساتھ مصالحت کر کے اپنا دور پورا کرنا پڑا ہے۔

پاکستان کے مقتدر طبقہ کو کمزور جمہوری حکومتیں بھی پسند نہیں ہیں۔ ا س کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی جمہوری دور میں چاہے وہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہوں ، مقتدر طبقہ کی مراعات پر اثر پڑتا ہے اور اس طبقہ کی من مانی پوری طرح سے نہیں ہو پاتی۔ جمہوریت کا ایک خاصہ یہ ہوتا ہے کہ ہر ملک میں رفتہ رفتہ دسیوں بیسیوں سیاسی جماعتوں میں سے دو یا تین جماعتیں سامنے آتی ہیں جن کو عوام اقتدار منتقل کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کی کمزور جمہوری تاریخ میں یہ جماعتیں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں میں اقتدار ان ہی میں تبدیل ہوتا رہا ہے ، اور ان پر بھی پسِ پشت مقتدرہ کا دباو رہا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی افواج کا ایک غیر دانشمند طبقہ ہماری مقتدرہ کا چہرہ یا نمائندہ رہا ہے۔

جمہوری اور سیاسی حکومتوں پر لازم ہوتا ہے کہ وہ عوام کی بہبود کے لیے کام کریں۔ بہبودی کام کرنے کے لیئے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں وسائل غیر مساوی طور پر منقسم ہیں۔کسی بھی حکومت کے مالی وسائل صرف ٹیکسوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہاں زراعت اور زمینوں پر ٹیکس نہیں ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مقتدرہ کا غالب طبقہ زمینداروں اور جاگیر داروں پر مبنی ہے۔جو زرعی ٹیکسوں کو زیادتی گردانتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کا عام نظام بھی قطعاً نا کافی اور کمزور ہے۔ تنخواہ دار اور کاروباری افراد کی ایک اقلیت کو پورے ملک کے وسائل کی فراہمی کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔اس سے جو بھی آمدنی ہوتی ہے اس کا ایک خطیر حصہ فوجی اخراجات کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس کا واضح حساب کتاب بھی نہیں ہوتا ہے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ جمہوری عمل میں بہت سی جماعتوں میں سے صرف چند جماعتیں حکومتیں بناتی ہیں۔ پاکستان کے وقفہ وقفہ سے مختصر جمہوری دور میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، عوامی نیشنل پارٹی ، ایم کیو ایم ، ابھر کر سامنے آئیں ۔ اورکچھ عرصہ تک اقتدار ان کو یا ان کی مخلوط حکومتوں کو منتقل ہوتا رہا ۔ ان میں سے پیپلز پارٹی اور اے این پی وہ جماعتیں ہیں جو عام طور پر مقتدرہ کے زیادہ اثر میں نہیں رہیں۔ اور انہوں نے کچھ ایسے کام کرنے کی کوشش کی جو عوامی رضا کے قریب ترین تھے ۔ مسلم لیگ عام طور پر مقتدرہ کی حمایتی جماعت رہی۔ اس جماعت کو پاکستان کے قدامت پرست طبقوں کی بھی حمایت حاصل رہی۔

بعض جمہوری ملکوں میں جہاں اقتدار صرف دو جماعتوں میں منتقل ہوتا رہا ہو، ایک تیسری جماعت بھی ابھر کر آتی ہے۔ پاکستان کے گزشتہ بیس سال میں وہاں جو تیسری جماعت سامنے آئی وہ تحریکِ انصا ف ہے۔ اس نے خود کو کرپشن مخالف جماعت کے طور پرپیش کیا ۔ نظریاتی طور پر یہ بھی مسلم لیگ کی طرح قدامت پرست دایئں بازو کے خیالات کی حامی ہے۔

کسی بھی ملک میں ایسی مقتدرہ جس کی نمائندگی وہاں کی افواج کرتی ہیں، جمہوری عمل کو یا تو اپنے مکمل قبضہ میں رکھنا چاہتی ہے یا کم از کم اپنے زیرِ اثر۔ لیکن جمہوری عمل کی مشکل ہے کہ یہ فطری طور پر مقتدرہ مخالف ہوتا ہے اور ملکی معاملات میں آزادی چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہماری مقتدرہ مختلف ادوار میں پپیلز پارٹی اور مسلم لیگ پر دباو ڈال کر اپنا کام نکالتی رہی۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ اس نے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، اور اے این پی کو کمزور اور محدود کرنا شروع کیا۔ پیپلز پارٹی کو سندھ میں دھکیلا گیا، اے این پی کو تقریباً ختم کیا ، اور مسلم لیگ کے دائرہ کار کو پنجاب میں محدود کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مقتدرہ نے ابھرتی ہوئی جماعت تحریکِ انصاف کو اپنے قابو میں کرنا شروع کیا اور پاکستان کے موجودہ انتخابات میں مقتدرہ کی تمام تر حمایت تحریکِ انصاف کو حاصل ہے۔

ہماری اورہم جیسے لاکھوں عوام کی آرزو، امنگ، اور خواہش یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل قائم ہو چاہے وہ بظاہر کمزور ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کمزور تر جمہوری عمل ، جابرانہ آمریتوں سے بالخصوص ایسی آمریتو ں سے جس پر فوج کا غلبہ ہو کہیں بہتر ہوتا ہے۔ مسلسل جمہوری عمل اور عوام کے ووٹ کا استعمال جمہور ی روایتوں کو مضبوط کرتا ہے۔ جمہوری عمل کے ذریعہ منتخب حکومتیں فطری طور پر مقتدرہ کے دبائو سے آزاد ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔ اور رفتہ رفتہ ہر ملک میں جمہوری روایت مستحکم ہوتی جاتی ہے۔

ہم پاکستان میں جمہوریت کا فروغ اور استحکام چاہتے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کے عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ پاکستان کے عوا م کی آرزو بھی یہی ہے کہ ان کا شہرِ جاں جمہوری روایتوں سے آباد اور قائم ہو۔

Comments are closed.