کیا الیکشن امیر و غریب کی لڑائی ہے؟

بیرسٹر حمید باشانی

آج کل پاور پالیٹکس یا اقتدار کی سیاست اپنے عروج پرہے۔ سیاسی لوگ جذبات کے رولرکوسٹر پر سوار ہیں۔ وہ عوام کو بھی ہیجان میں مبتلا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خوش کن دعووں اور پر جوش نعروں سے ایک نفسیاتی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ یہ نفسیاتی فضا رائے دہندگان کے رائے سازی کے فیصلے پر اثر اندوز ہوتی ہے۔ 

میں نے اقتدار کی سیاست کے ساتھ اس کے انگریزی الفاظ پاور اور پالیٹکس اس لیے لکھے ہیں کہ انگریزی زبان کے ان دو الفاظ میں اس سارے عمل کا نقشہ کھل کر سامنے آتا ہے۔ یعنی طاقت کی سیاست۔ یہ جو افراد اور جماعتیں انتخابات لڑ رہے ہیں، یہ کون ہیں؟

یہ وہ لوگ ہیں جو ریاست سے طاقت میں اپنا حصہ مانگ رہے ہیں۔ ہر جائز اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ریاست طاقت و اختیار کا ایک بڑا حصہ عوام کو ان کے منتخب نمائدوں کے ذریعے منتقل کرتی ہے۔ دنیا کی بیشتر ریاستوں میں مختلف طبقات ہوتے ہیں۔ ان طبقات کو ریاست کا سٹیک ہولڈر بھی کہا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ریاست کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام سٹیک ہولڈرز کا خیال رکھے۔ 

ریاست کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کا برابر ہونا اور یکساں طور پر اہم ہونا ضروری ہے۔ پاکستان میں جو طبقاتی ڈھانچہ ہے اس کے اندر طبقات کی مختلف پرتیں موجود ہیں۔ اس میں اس میں جاگیردار اور کھیت مزدور ہیں، زمیندار اور مزارعے ہیں، صنعت کار اور صنعتی مزدور ہیں، ملوں اور کارخانوں کے مالکان ہیں اور ان کے اندر کام کرنے والے مزدور ہیں، کسان ہیں اوردانشور ہیں۔ ان سب طبقات کی ہئیت ترکیبی مختلف ہے۔ ان کی سماجی اور معاشی حیثیت مختلف ہے۔ 

طبقات آمدنی سے بنتے ہیں، اور ظاہر ہے معاشی اعتبار سے مذکورہ بالا طبقات میں بہت بڑا فرق ہے۔ مگر جہاں تک ریاست میں ان کے سٹیک کا تعلق ہے تو اس کا آمدنی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔  ریاست جب انتخابات جیسی ایک جمہوری مشق سے گزر رہی ہے تو اس وقت ان سب کا حصہ ان کی معاشی یا سماجی حیثیت سے نہیں ، بلکہ ان کی تعداد سے متعین کیا جانا چاہیے۔ اگر ملک میں مزدور، کسان اور دانشور عددی اکثریت میں ہیں ، تو جمہوری عمل میں ان کا حصہ باقی طبقات سے بڑا ہونا چاہیے۔

یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ایک جمہوری عمل میں عددی اکثریت والے اور عددی اقلیت والے کو حصہ بقدر جثہ مل سکے۔ یہ جمہوریت کی ایک لازمی شرط ہے۔ اس سلسلے میں ریاست کو کچھ بنیادی نوعیت کے اقدامات کرنے ہوتے ہیں۔ ان میں پہلا اور بڑا قدم یہ ہوتا ہے کہ ریاست انتخابات کے لیے میدان کو اس انداز میں ہموار کرے کہ سب کو انتخاب لڑنے کے لیے مساوی ماحول اور موقع اور ذرائع میسر ہوں۔ 

مثال کے طور پر اگر حکومت ایک امیدوار کے لیے انتخابات میں پیسے خرچ کرنے کی کوئی حد نہیں مقرر کرتی، اور اس بات کو یقینی نہیں بناتی کہ کوئی امیداوار اس مقرر کردہ حد سے زیادہ ایک روپیہ بھی خرچ نہ کرے تو پھر انتخابات صرف پیسے والوں کا کھیل بن جاتا ہے۔ ایک کاروبار اور تجارت بن جاتی ہے۔ اخراجات میں حد کے علاوہ انتخابات کے ساتھ جڑے کئی دوسرے مسائل جیسے وال چاکنگ، پوسٹر اور پبلسٹی کے دیگر ذرائع کے بارے میں بھی قانون سازی ہموار میدان مہیا کرنے میں مدد دیتی ہے۔ جماعتوں کی فنڈنگ، میڈیا کا کردار اور ضابطہ اخلاق میں مناسب ترامیم سے کافی فرق پڑھ سکتا ہے۔

سب کے لیے ہموار میدان مہیاکرنا صرف ریاست کی ہی ذمہ داری نہیں ہے۔ اس سے بڑی ذمہ داری سیاسی پارٹیوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پارٹیاں عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک بائیں بازوں کی چھوٹی جماعتیں جو نچلے طبقات کی نمائدگی پر زور دیتی ہیں۔ ان کی توجہ کا مرکز مزدور، کسان اور دانشور طبقہ ہوتا ہے۔ یہ پارٹیاں پہلے سوشلسٹ انقلاب کی بات کیا کرتی تھیں، مگر اب یہ کافی حد تک جمہوری عمل کے ذریعے سوشلسٹ تبدیلی کی بات کرتی ہیں۔ یہ پارٹیاں اپنے نظریات کے حوالے سے اخلاقی طور پر پابند ہیں کہ وہ اپنے امیدوار ں کی اکثریت ان ہی طبقات سے لائیں جن کی نمائدگی کے وہ دعوے دار ہیں۔ 

دوسری عام دھارے کی کثیر الاطبقاتی پارٹیاں جس کی لیڈر شپ اور کارکنوں میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں۔ ان پارٹیوں کو انتخابات کے دوران دو قسم کے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے ۔ ایک یہ ان کی کثیر الاطبقاتی ساخت کا عکس پارلیمان میں کیسے نظر آئے۔ اور دوسرا پارٹی میں موجود معاشی طور پر کم خوشحال اور غریب کارکنوں کے ساتھ کیاکیا جائے۔ روایتی طور پر یہ جماعتیں دو طریقوں سے ان چیلنجز سے نپٹتی رہی ہیں۔ ایسی جماعتیں اپنے اکثریتی امیداوار جاگیرداروں ، سرمایہ داروں اور دوسرے اونچے طبقات سے لیتی رہی ہیں، اور اقتدار میں آکر اپنے غریب کارکنوں کی اشک سوئی کے لیے ان کو ملازمتیں، قرضے، پر مٹ اور ٹھیکے وغیرہ دئیے جاتے رہے ہیں۔ اس عمل کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ ان دونوں طبقات کے گنے چنے نمائندہ افراد کو نوازنے والی بات ہے۔ 

پارٹی جاگیرداروں ، سرمایہ داروں، وڈیروں اور پیروں وغیرہ سے ان کی دولت اور اثرو رسوخ مستعار لیکر بدلے میں ان کو اسمبلی کی سیٹ پیش کرتی ہے۔ اور کارکنوں کی بھاگ دوڑ اور نعرے بازی کا صلہ ملازمتوں اور پر مٹوں سے چکایا جاتا ہے۔ اس بندر بانٹ میں ظاہر ہے خال خال ہی کوئی ایسا شخص حصہ پا سکتا ہے ، جس کا پارٹی سے تعلق نہیں ہے۔ 

موجودہ انتخابات میں ایک جماعت نے کچھ حلقوں میں منتخب ہونے کے قابل امیدوار اور اپنی پارٹی کے دیرنہ اور بنیادی کارکنوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ پاٹی رہنما کا استدلال یہ تھا کہ اگر کوئی پارٹی کا بنیادی کارکن ہے، مگر انتخابات جیتنے کے لیے اس کے پاس روایتی اثرو رسوخ یا انتخابات پر خرچ کرنے کے لیے پیسہ نہیں ہے، اور دوسری طرف ایک ایسا امیدوار ہے جس کا ایک پاور بیس ہے، خاندانی اور روایتی اثر ہے، اور انتخابات پر خرچ کرنے کے لیے وافر وسائل ہیں، تو ایسی صورت میں اس امید وار کو چھوڑ کر پارٹی کارکن کو ٹکٹ دینا میرٹ کی خلاف ورزی ہے، چونکہ وہ منتخب ہونے کے قابل نہیں ہے۔

یہ مضبوط دلیل ہے مگر اس کو الٹ کر بھی پیش کیاجا سکتا ہے۔ چونکہ ظاہر ہے اصولی اور اخلاقی طور پیسہ یا خاندانی اثر رسوخ کو میرٹ کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ مگر یہ زمینی حقائق ہیں اورعملی سیاست کے تقاضے ہیں۔ مگر اگر اس طرح کوئی پارٹی اپنے اندر موجود لوگوں کو ان کی قابلیت اور خدمات سامنے رکھ کر ان کو ٹکٹ نہیں دیتی ، اور ایسے لوگوں کا انتخاب کرتی ہے جن کے پاس پیسہ ہے اور جو پیسے کہ بل بوتے پر الیکشن جیتتے ہیں، تو ظاہر ہے اس عمل میں سماج کا صرف ایک طبقہ ہی طاقت کا مالک بنے گا۔ یہ عمل کسی بھی ریاست کو بلاخر ایک نا ہموار، غیر مساوی اور ناکام ریاست میں بدل دیتا ہے۔ یہ ایک مایوس کن صورت حال ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ زمینی حقائق اور عملی سیاست کے تقاضوں کے باوجود دنیا کی کوئی کامیاب جمہوریت کچھ اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کی پابند ہے۔ جمہوریت امیر اور غریب کے درمیان ایسا مقابلہ نہیں بنایا جا سکتا ، جس میں ہر بار پیسے والا جیت جائے۔ سماج کو مل جل کر کچھ اصولوں اور ضابطوں پر اتفاق کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ضابطے بنانے پڑتے ہیں جو سماج کے کم خوش نصیب لوگوں کو بھی ریاست کے سیاسی معاشی اور سماجی انتطام میں شامل ہونے کے مواقع فراہم کرتا ہو۔

اس طرح ایک طویل سلسلہ عمل میں عام آدمی سماج کے کاروبار میں شامل ہوتا جاتا ہے، جس سے سماج کی شکل زیادہ منصفانہ بنتی جاتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق کم ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ایک جمہوری فلاحی ریاست میں رہنے والا ہر فرد اپنی مرضی اور قابلیت کے مطابق طاقت و اختیار میں اپنا حصہ مانگ سکتا ہے۔

Comments are closed.