سوال یہ ہے

خالد محمود

حالیہ الیکشن کے بارے میں محترم آئی اے رحمن صاحب کے تحفظات(دی ایشئن ایج 20 جولائی)اور ڈاکٹر اشتیاق احمد کا ریاست کے بارے میں علمی مقالہ(ڈیلی ٹائمز19 جولائی) پڑھنے اور زمینی حقائق کی رسہ کشی دیکھنے کے بعد ،لامحالہ کسی بھی شہری کے ذہن میں انتہائی ناگزیر سوالات کلبلانے لگتے ہیں۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد لکھتے ہیں: بنیادی بات یہی ہے کہ ریاست عوام کی خدمت کے لئے معرض وجود میں لائی گئی ہے نہ کہ عوام ریاست کی خدمت پر مامور کئے گئے ہیں۔مغرب میں جدید ریاست ، معاشرے اور ریاست کے درمیان ایک صحت مند جدلیاتی مکالمے سے پروان چڑھی اس کے برعکس نوآبادیاتی ممالک میں اسے نوآبادیاتی استعمار ی طاقتوں نے نصب کیا تھا۔ 

انتہائی مضبوط نوآبادیاتی روایات کے امین اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بدقسمتی سے ریاست اور معاشرے کے درمیان کبھی بھی ایک صحت مند جدلیاتی مکالمے کا ظہور نہیں ہوا۔یہاں پچھلے ستر سال سے پیسہ نیچے سے اوپر جاتا ہے اور بھلے جتنی بھی مدقوق اور گامڑ ہو عقل شریف اوپر سے نیچے نصب کر دی جاتی ہے۔ہر سطح پر در و بست ،ہیرا پھری اور ساز باز کے بعد عام شہری کو مزیدالجھا دیا جاتا ہے۔

اس وقت چارہ انتخاب کچھ اس طرح کا چھل ہے جس میں ایک ایسا شخص جو اب تک کسی مالی بدعنوانی میں نہیں پکڑا گیا اور اسے رائے عامہ میں شفاف دکھایا جا رہا ہے۔اس کا نام کسی بینک کی ڈیفالٹر اور معافی لسٹ میں نہیں ہے،اس کی لیپا پوتی کر کے اسے آگے لایا جا رہا ہے۔ ہمیں اس پر کوئی اعتراز نہیں ہے۔وہ بلا روک ٹوک سیاست کرے یہ اس کا حق ہے۔

الیکشن میں چار دن رہ گئے ہیں۔مگرتمام براہ راست ٹیکس دینے والا اور بجلی کے بل میں ظالمانہ ٹی آرکی ادائیگی کرنے والا، دیوار سے لگا غریب آدمی، یہ سوچتا ہے کہ اگر اس دودھ میں دُھلے کو حکومت ملتی ہے تو وہ تمام محصولات کو ’’کھوہ کھاتے‘‘ سے پس انداز کر کے تعلیم ،صحت اور بنیادی سہولتوں پرکیسے خرچ کرے گا ؟

مراعات یافتہ انتہائی امیر اور طاقت ور وڈیروں،صنعت کاروں،جرنیلوں ،سیاستدانوں کے سہولت کاروں اور ججوں سے کالی دولت کیسے واپس لے گا؟ غریبوں کا گلا دبائے بغیرریاست کے محصولات میں کیسے اضافہ کرے گا؟اس کا کوئی تسلی بخش جواب اب تک نہیں دیا گیا۔

ریاست میں ادارہ جاتی من مانیوں کو روک کر عوام کی خدمت پر کیسے لگائے گا؟پارلیمنٹ میں اپنی غیر حاضریوں کی سنہری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسی پارلیمنٹ کو کیسے مضبوط کرے گا؟اپنے اپنے مخالفین کی ہر جلسے میں کردار کشی سے عوام کا کوئی بھلا نہیں ہونے والا ہے۔ کوئی اپنی پرائیویٹ زندگی میں اپنے بیڈروم میں کس کے ساتھ سوتا ہے اور اس کی جنسی ترجیحات کیا ہیں اسے پبلک پالیسی پر اثر انداز نہیں ہونا چاہئیے۔

بس یہ بتا دیں کہ کھلی یا بند آنکھوں سے جو بھی پبلک فنڈز میسر ہوں گے انہیں کس کس کو کن کن طریقوں سے سائفن آؤٹ کریں گے ؟از راہِ کرم صرف یہ بتا دیں کہ انتخاب جیت کر مالی انتظامات کا لائحہ عمل یا غریبوں کی زبان میں ’’طریقہ واردات‘‘ میں کونسی انقلابی تبدیلی لائے جائے گی ؟

اب بھی نہیں بتائیں گے تو پھر عوام یہی سمجھیں گے :۔

بقول میاں محمد بخشؒ 

مُورکھ نوں کیہ پند نصیحت، پتھر نوں کیہ پالا
دُدھاں اندر کاگ نوائیے،انت کالے دا کالا

Comments are closed.