بھارت میں لیفٹ کیوں زوال پذیر ہے؟


نامور تاریخ دان عرفان حبیب ،84، تقسیم ہند کے بھیانک واقعات، گاندھی کا قتل، نہرو کے ساتھ ملاقات، بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی ، بائیں بازو کا زوال اور مودی حکومت کے دور  میں تاریخ میں افسانہ نگاری پر گفتگو ہوئی۔ یہ گفتگو، اعجاز اشرف نے کی جو دہلی میں صحافی ہیں ۔ یہ گفتگو انڈین آن لائن میگزین Scroll.in میں شائع ہوئی

سوال: تقسیم ہند کے متعلق آپ کی کیا یادیں ہیں اور ان کاآپ پر اور علی گڑھ پر کیا اثر پڑا؟
جواب
: تقسیم کے وقت میں 16 برس کا تھا۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں میرا تعلق ایسے علاقے ، علی گڑھ ،سے تھا جہاں مسلم لیگ کا زور تھا ۔ میں نے اپنے والد (نامور تاریخ دان پروفیسر محمد حبیب 1895-1971) جن کا تعلق کانگریس سے تھا، سے قومیت پسندی قبول کی۔ اس وجہ سے مجھے مسلم لیگ کی جانب سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ جب میں سکول آتا جاتا تو مجھے کانگریسی ہونے کی وجہ سے دھکے دیے جاتے تھے جس پر میں نے وہ سکول چھوڑ دیا۔۔۔ بہرحال یہ واقعات بہت معمولی نوعیت کے تھے۔

سوال: تقسیم کے موقع پر ہونے والے فسادات کے مقابلے میں یہ واقعات معمولی تھے؟
جواب
: جی ہاں۔ ہم بہت پریشان تھے۔ علی گڑھ کو بارڈر سمجھا جارہا تھااور مسلمانوں کا قتل عام دریائے یمنا تک پہنچ گیا تھا۔ حتیٰ کہ دسمبر 1947 میں بھی ہم سفر نہیں کر سکتے تھے کیونکہ مسلمانوں کے لیے سفر غیر محفوظ تھا کئی تو ٹرینوں میں ہی قتل کر دیئے گئے تھے۔
اسی دوران جنوری
48ء میں گاندھی جی کے مرن بھرت (بھوک ہڑتال) سے منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔اسی مہینے ان کا قتل ہوگیا۔ ان کے قتل پر علی گڑھ میں بہت بڑااحتجاج ہوا تھا میرے لیے کسی بڑے احتجاج میں شرکت کا یہ پہلا موقع تھا۔اس احتجاج میں کمیونسٹوں اور سوشلسٹوں نے حصہ لیا۔ اسے میرا پہلا کمیونسٹ احتجاج کہہ سکتے ہیں۔

سوال: کیا آپ کو یاد ہے کہ ان دنوں کیا نعرے لگتے تھے؟
جواب
: کانگریسی نعرہ لگاتے تھے’’ایشور اللہ تیرے ہی نام، سب کو سنماتی دے بھگوان‘‘، کمیونسٹ اور سوشلسٹ کہتے تھے ’’ گاندھی کے قاتلوں کو پھانسی دو، ہندو مہاسبھا والوں کو پھانسی دو‘‘۔ یوپی اور علی گڑھ میں ہندو مہاسبھا والوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ ہر کسی کی زبان پر تھا کہ مہا سبھا والوں نے گاندھی کے قتل پر مٹھائی بانٹی ہے۔اس نے کئی افواہوں کو جنم دیا۔۔مٹھائی تقسیم ہوئی تھی لیکن سردار پٹیل کے مطابق اس دن ہندو مہاسبھا کے کسی رہنما کے بھتیجے یا بھتیجی کی شادی ہوئی تھی اور اس نے مٹھائی تقسیم کی تھی۔۔۔ بہرحال جنوری1948 بھارت کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔

سوال: شاید اسی وجہ سے آپ نے دہلی میں ہوئے ایک لیکچر میں کہا تھا کہ اگر گاندھی کی جدید انڈیا کی تعمیر میں خدمات کو حقیقی طور پر دیکھا جائے تو ہمیں ان واقعات کا تنقیدی نظر سے جائزہ لینا چاہیے جو ان کے قتل سے چار ہفتے پہلے رونما ہوئے تھے؟

جواب : نہرو کی نسبت گاندھی کی فکر میں تسلسل نہیں تھا۔ حتیٰ کہ گاندھی نے خود تسلیم کیا تھا ، میں مستقل مزاج نہیں ہوں۔ یہ ایک سچ کا اظہار تھا جس کے بعد میں نے انہیں پڑھنا چھوڑ دیا۔ لیکن آپ یہ دیکھیں کہ گاندھی کی تمام کوششیں ایک سیکولر بھارت کے لیے تھیں اور یہ وہ اصطلاح ہے جو میرے والد (پروفیسر حبیب اور نہرو) استعمال کرتے تھے۔

درحقیقت کچھ دن پہلے ہی میں اپنے والد کی وہ تقریر پڑھ رہا تھا جو انھوں نے دسمبر1947 میں انڈین ہسٹری کانگریس ، ممبئی میں کی تھی۔ انھوں نے لفظ سیکولر استعمال کیا تھا اور کہا تھا کہ گاندھی جی ہمیں سیکولر انڈیا کی تصویر ہی دکھا رہے ہیں۔

ان کی بھوک ہڑتال نہ صرف فرقہ وارانہ فسادات کے خلاف تھی بلکہ بھارتی حکومت کے خلاف بھی تھی جس نے پاکستان کے حصے کے 55 کروڑ روپے روک رکھے تھے۔( جو کہ تقسیم کے معاہدے کے تحت طے پائے تھے)۔ یہ ایک بہت زبردست ایکشن تھا۔ یہ ایکشن ظاہر کرتا تھا کہ پاکستان میں کیا ہوتا ہے اور نہیں لیکن بھارت کو سیکولر رہنا چاہیے۔

سوال: لیکن ہندو بنیاد پرست گاندھی پر تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے تقسیم کے عمل کی اجازت دی اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے ۔ وہ گاندھی کو بورژوا کلاس کا نمائندہ بھی کہتے ہیں۔آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ امیبدکر کے پیروکار بھی گاندھی پر تنقید کرتے ہیں کہ انھوں نے ذات پات کے نظام کی حمایت کی۔
جواب
:اگر آپ نے تاریخ دان کے طور گاندھی کو سمجھنا ہے تو ہمیں اس وقت کے حالات کو سامنے رکھنا ہوگا۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ گاندھی بھی ذات پات کے نظام سے ہی آئے تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری میں برملا اس بات کااعتراف کیا ہے اور ہر وقت اپنے آپ کو کمتر پیش کیا ہے۔ ان پر تنقید کرنا آسان ہے جیسے کہ اردون دھتی رائے یا کچھ اور لکھاری کرتے ہیں۔ گاندھی نے نہایت دیانت داری سے اپنے احساسات اور رائے کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ یہ غلط ہے ۔ انھوں نے اپنے ان نظریات پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے جب وہ افریقہ میں تھے۔۔ ذات پات کا نظام انڈیا میں بہت مضبوط ہے۔ آپ انگریزوں کے خلاف اتنی بڑی تحریک نہیں چلا سکتے اور پھر آپ کہیں کہ پہلے ذات پات کو ختم کرو اور پھر انگریزوں کے خلاف تحریک چلاؤ۔

گاندھی کوبہت آسانی سے یہ الزام دیا جاسکتا ہے کہ انھوں نے خلافت موومنٹ کی حمایت کرکے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کی لیکن اگر ترکی کی حمایت نہ کی جاتی تو برطانوی اور فرانسیسی سامراج کی پورے ایشیا پر گرفت مضبوط ہوتی۔ لینن کے روس نے بھی ترکی کی حمایت کی تھی اگر آپ بین الاقوامی منظر دیکھیں تو خلافت تحریک اتنی ہی اہم تھی جتنی کی برطانیہ کے خلاف ترک موالات کی تحریک

سوال: یعنی آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گاندھی ذات پات ، مذہب اور لسانی اختلافات سے بالا تر ہو کر ایک مشترکہ مسئلے پر سب کو اکٹھا کر رہے تھے؟
جواب
: جی ہاں اصل سوال یہ تھا کہ برطانوی سامراج ہمارا مسئلہ ہے یا ہمارے آپس کے اختلافات؟ اگر آپ برطانوی سامراج کو بنیادی مسئلہ نہیں مانتے تو پھر گاندھی ہی کیوں؟ نہرو ، کمیونسٹ اور ہر کوئی تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔

سوال ارون دھتی رائے آج کے حالات کو سامنے رکھ کر 1947 میں گاندھی کی سیاست کو پرکھ رہی ہیں؟
جواب۔ مجھے نہیں معلوم کہ ارون دھتی رائے یا دوسرے آج اپنی عقل یا ناعقلی کی بنا پر گاندھی کی سیاست پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ عقل ہی ہے جوبتاتی ہے کہ آج کی زمینی حقیقت کیا ہے۔ عقل یہ بتاتی ہے کہ ہمیں اس بات پر فخر کرنا چاہیے کہ گاندھی جب جنوبی افریقہ میں تھے تو کہتے تھے کہ عورت کو گھر میں رہنا چاہیے۔ لیکن
1945 میں انہوں نے کہا کہ عورتوں کو ’’جنرل‘‘ بننا چاہیے یعنی مرد ور عورت میں کوئی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ میں تبدیلی آئی ۔ صرف گاندھی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی سوچ بدلی۔

گاندھی کا ارتقا مسلسل ہوتارہا ہے۔ آپ سوچیں کیا دلت 1920 میں ذات پات کو تسلیم نہیں کرتے تھے؟حتیٰ کہ آج بھی شادیوں کے لیے دلت اپنی ذات کا خیال کرتے ہیں۔ یہ انتہائی فضول بات ہے کہ برطانوی سامراج کی مخالفت کے ساتھ ساتھ دوسرے مسائل بھی اٹھائے جائیں۔

سوال: ایک دفعہ انڈین گورنمنٹ نے آپ کو کمیونسٹ سیاست میں ہونے کی وجہ سے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا تھا؟
جواب
: یہ 1954-55کی بات ہے مرکزی حکومت نے ایک اشتہار جاری کیا کہ وہ امیدوار اپنا تعلیمی ریکارڈ بھیجیں جو بیرون ملک کا سکالر شپ لینا چاہتے ہیں۔ میں نے بھی اپلائی کیا اور میرے تعلیمی ریکارڈ، جو کہ ہر گریڈ میں فرسٹ ڈویثر ن تھا، کی بنا پر مجھے سکالر شپ مل گیا۔ میرا آکسفورڈ میں داخلہ ہوگیا لیکن (کمیونسٹ ہونے کی بنا پر) مجھے پاسپورٹ دینے سے انکار کر دیا گیا اور کہا گیا کہ اگر آپ سکالر شپ سے دستبردار ہو جائیں تو پاسپورٹ واپس مل جائے گا۔

یہ ایک عجیب صورتحال تھی۔ میں نے پنڈت جی (جواہر لعل نہرو) کو خط لکھا ۔ یہ خط میں نے اور میری بیگم نے مل کر ڈرافٹ کیا تھا۔ میں نے انہیں یہ بتایا میں ان کے دوست کا بیٹا ہوں ۔ تاہم خط کے جوا ب میں انہوں نے مجھے بلایا گلے لگایا اور ڈانٹا۔۔ 
سوال
: گلے کیوں لگایا؟

کمیونسٹ ہونے کے ناطے ۔۔۔ انھوں نے کہا کہ کمیونسٹ آئین کو اہمیت نہیں دیتے۔۔ انھوں نے روس اور چین پر تنقید کی ، جہاں سے وہ ہو کر آئے تھے، وہ کافی دیر تک بولتے رہے۔۔ مجھے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ پاسپورٹ کا معاملہ پنڈت بی جی پنٹ کے ہاتھوں میں ہے۔۔۔ تاہم دو دن بعد مجھے پاسپورٹ مل گیا۔۔

سوال: کیا نہرو نے آپ کو ذاتی طور پر فون کیا تھا؟
نہیں ان دنوں فون نہیں تھا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر، ڈاکٹر ذاکر حسین جو انڈیا کے تیسرے صدر بھی بنے تھے، کے سیکرٹری نے مجھے رقعہ بھیجا کہ میں صبح نو بجے نہرو کو دہلی میں ان کے دفتر میں ملوں۔۔ میں جب وہاں پہنچا تو وہاں کوئی سیکیورٹی گارڈ نہیں تھا۔ 

سوال: میں نے بھی کہیں پڑھا تھا کہ وزیراعظم نہرو کناٹ پیلس میں واقع ریگل سینما میں فلم  ’’ آف ہیومن بانڈیچ‘‘ دیکھنے گئے تھے؟
جواب
: ہاں اس وقت ایسا ہی تھا۔۔ میں جب دفتر پہنچا تو ان کے پرائیویٹ سیکرٹری کے کمرے میں بیٹھ گیا۔

سوال: کہا جاتا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پہلے کی نسبت اب بنیاد پرست مسلم عناصر حاوی ہوچکے ہیں؟
جواب
: پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ راسخ العقیدہ جماعت نہیں تھی۔ وہ فرقہ پرست(کمیونل) تھی لیکن مذہبی نہیں تھی۔ جناح بھی مذہبی نہیں تھے۔ دوسری طرف وہ مسلمان جو کانگریس کو سپورٹ کررہے تھے ان میں زیادہ تر مذہبی علما تھے جنہوں نے حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کیا۔

سوال: کیا اس سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اثر نہیں پڑا؟
جواب
: بالکل پڑا ہے ۔۔۔ اس کی اور بھی کئی وجوہات ہیں۔ میں جب وہاں طالب علم تھا تو اس وقت ایک تہائی غیر مسلم طالب علم تھے اور ایک چوتھائی غیر مسلم اساتذہ۔ آج 90 فیصد مسلمان طالب علم ہیں اور شاید ہی غیر مسلم استاد وہاں ہو۔ انھیں بھرتی کے عمل میں ہی فارغ کر دیا جاتا ہے چند ہندو طالب علم ہو ں گے جو ہوسٹل میں رہتے ہوں۔۔ اس عمل سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ذہنیت بھی تبدیل ہوئی ہے۔

میرے طالب علمی کے دور میں دیوالی اور گرونانک کی پیدائش کے دن منائے جاتے تھے۔ شہر کے گوردوارے سے لڈوؤں کا ٹرک آتا تھا ۔ اس وقت ماحول مختلف تھا اور ہندو اور مسلمان اکٹھے رہتے تھے۔ آج ایسی صورتحال نہیں۔

سوال: آپ نے لٹل میگزین میں ایک مضمون لکھا تھا کہ ’’ 1947 آزادی اور تقسیم ہند کے ساتھ فکری طور پر زوال کا سبب بھی بنا‘‘۔ کیا یہ صورتحال ہے ابھی تک جاری ہے؟
جواب
: ہم فکری طور پر زوال کا شکار ہوئے ۔ ہم ہندو اور مسلمان کو ساتھ رکھنا چاہتے تھے لیکن تقسیم سے ہندو اور مسلمان کے درمیان سیکولر سوچ کا خاتمہ ہوا۔ تقسیم کے وقت ہندو مہاسبھا اور راشٹریہ سویم سنگھ بہت ہی معمولی نوعیت کی ہندوجماعتیں تھیں جو شاید ہی انتخاب جیتتی ہوں۔آپ مسلم لیگ کے متعلق ایسا نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ انڈیاکی سیکولر جمہوریت میں مسلمان ایک قوم میں تبدیل ہوئے۔ میرے طالب علمی کے دور میں پاکستان کی غیر منطقی حمایت کی جاتی تھی۔ اب ایسا نہیں ہے لیکن بدقسمتی سے ہندوؤں میں بھی فرقہ پرستی بہت بڑھ گئی ہے۔

سوال: کیا آپ محسوس کرتے ہیں انڈین سیکولر ازم، جس میں ریاست تمام مذاہب کو پھلنے پھولنے کی اجازت دیتی ہے اور کسی قسم کی تفریق نہیں کرتی۔ اب اس کے برعکس صورتحال ہے؟ کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم یورپین سیکولرازم آئیڈیا کو اپنائیں؟

جواب: درحقیقت ہم نے نظریاتی طور پر سیکولرازم کے جو گلوبل معنی ہیں، اسے مسترد کردیا ہے۔ لفظ سیکولر جو پنڈت نہرو استعمال کرتے یا میر ے والد ۔ اس کا مطلب تھا کہ مذہب کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہوگا جیسا کہ فرانسیسی انقلاب میں ہوا تھا۔ گو اس وقت یہ اصطلاح استعمال نہیں ہوئی تھی مگر مظہر وہی تھا۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے 1851 جارج جیکب نے استعمال کی تھی ۔ اس نے کہا تھا کہ سیکولرازم وہ اخلاقیات ہے جو مذہب کے بغیر ہے جس میں آخرت کا کوئی تصور نہیں۔ اس نے یہ بھی کہا سیکولرازم کا مطلب لوگوں کی فلاح و بہبود سے ہے۔ سیکولرازم کے یہی درست معنے ہیں۔

لیکن رادھا کرشنن( بھارت کے دوسرے صدر) کے سیکولرازم کے خیال نے فرقہ واریت کا راستہ کھول دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام مذاہب کو برداشت کیا جائے، اور یہ ہونا بھی چاہیے، لیکن انھوں نے یہ بھی کہا مذہب کو ریاست سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا ۔ کیا مذہب ایک مجرد چیز ہے۔ یہ انتہائی فضول ہے کہ تمام مذاہب کو برابر سمجھا جائے اور پھر مذاہب ریاست کا حصہ بن جائیں؟ کیونکہ کوئی بھی مذہب مجرد نہیں ہوتا اور اکثریتی مذہب ریاست میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔

سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس خیال کی تائید کی اور کہا کہ تمام سکولوں میں تمام مذاہب کی ہدایات پر عمل کیا جائے۔ باوجود اس کے کہ آئین سکولوں میں مذہبی ہدایات دینے کو منع کرتا ہے ۔ اس فیصلے میں کہا گیا کہ اخلاقیات کی تعلیم سنتوں اور صوفیوں سے ہی مل سکتی ہے۔ یہ تاریخی طور پر ایک غلط بیان ہے۔ سنت اور صوفی پیروں کو سماجی اور معاشی حالات کی برابری، صنفی برابری کا قطعاً کوئی علم نہیں تھا۔ اس طرح کا سیکولرام انتہائی خطرناک ہے۔ سیکولر ازم کا جو گلوبل تصور ہے اس پر ہی عمل کرنا چاہیے۔

سوال: بھارت میں لیفٹ کیوں زوال پذیر ہے؟ یہ اکثر کہا جاتا ہے کہ بایاں بازو ذات پات جیسی حقیقت کو خاطر میں نہیں لاتا؟

جواب: ہم ملک کی صورتحال کو الزام نہیں دیتے۔ ہم صرف اپنے آپ کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں۔ کمیونسٹ تحریک نے کئی غلطیاں کیں۔ پہلی غلطی تو مطالبہ پاکستان کی حمایت تھی۔ 1948 میں ہم حکومت کے بالکل خلاف ہوگئے تھے اور ہم نے بہت سے کمیونسٹ ساتھی کھو دیئے۔ ہم نے انسداد زمینداری ایکٹ کی مخالفت کی۔ ہمیں ایک بڑی نظریاتی مہم چلانی چاہیے تھی لیکن ہم نے ٹریڈ یونین اور کسان تنظیموں پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھی ۔

یہ کہنا آسان ہے کہ ذات پات اس میں نہیں آتی۔ حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ میں رہنے والے تمام کمیونسٹ رہنما ایسے علاقوں میں رہتے تھے جنھیں ہری جن بستی کہا جاتا تھا۔ ہم نے کبھی اس کا چرچا نہیں کیا تھا اور نہ ہی دعویٰ۔ جب تک کہ غربت اور سماجی ناانصافی موجود ہے میں یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس کے بغیر کمیونسٹ آئیڈیالوجی قوم کو متاثر کر سکے۔

سوال: آپ نے کہیں کہا تھا موجودہ (مودی حکومت)حکومت تاریخ میں زعفرانی تصورات کی بجائے افسانوی کردار گھیسڑ رہی ہے۔ آپ ان دونوں اصطلاحات کی کیسے تشریح کر یں گے؟
جواب
: تاریخ میں یہ ممکن ہے کہ حقائق کی دو مختلف توجہیں ہو جائیں۔ اگر حقائق کی ایک بڑی تعداد دستیاب ہے جیسا کہ 19 ویں اور 20 ویں صدی میں ہے تو پھر ان کے انتخاب کی اہمیت بہت اہم ہے۔ لیکن جب آپ کے پاس ریکارڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے کوئی زیادہ حقائق ہی دستیاب نہیں تو تب آپ کے پاس ماضی کے متعلق بہت کم علم ہوتا ہے۔ لہذا اس طرح بہت سی توجہیات ممکن ہیں۔ حقائق کی تشریح تاریخی حقائق یا ریکارڈ کی بنیاد پر فرقہ وارانہ یا غیر فرقہ وارانہ ہو سکتی ہے۔مارکسسٹ یا جدیدیت کی بنا پر ہو سکتی ہے۔ کیونکہ آپ مستند تاریخی حقائق پر گفتگو کر رہے ہیں اور دلائل دے رہے ہیں۔

مثلاً آر سی مجمدار ایک فرقہ پرست شخص تھا ۔ اس نے گاندھی جی کے متعلق بہت سخت باتیں لکھی ہیں لیکن چونکہ وہ تاریخ دان ہے وہ حقائق کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس نے’’ آرگنائزر‘‘ میں اس وقت لکھنے سے انکار کر دیا تھا جب آر ایس ایس چاہتی تھی کہ وہ یہ لکھے مغل دور کی عمارات مغلوں تعمیر نہیں کی تھیں۔ اس کا خیال تھا یہ فضول بات ہے۔ مجمدار سے دلیل پر مبنی گفتگو ہو سکتی ہے کیونکہ وہ ایک تاریخ دان ہے اور بڑا تاریخ دان ہے لیکن آر ایس ایس جو کچھ پرموٹ کر رہی ہے وہ افسانوی ہے۔

سوال: آپ کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جس سے واضح ہوکہ یہ افسانوی تاریخ ہے؟
جواب
: سراسوتی کے مسئلے پر جذباتیت کو ہی دیکھ لیں۔ کیا پانچ ملین سال پہلے اتنے بڑے سائز کا دریا ہو سکتا ہے؟ گو مجھے ابھی بھی اس پر شک ہے ۔ لیکن یہ انتہائی فضول بات ہے 3000 سال قبل مسیح اتنا بڑا دریا تھر میں بہتا تھا۔ یہ سب کہانیاں ہیں ۔

سوال: آر ایس ایس سراسوتی پر اتنا جذباتی کیوں ہے؟
جواب
: وہ اس لیے جذباتی ہیں کہ اس طرح کی کہانیاں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کو موجودہ دور میں مقبول کرتی ہیں۔ بے شک ہندوؤں خا ص کر برہمنوں کا کا ماضی شاندار تھا لیکن آرایس ایس اب اس کی پلاسٹک سرجری کر رہی ہے۔

سوالَ :لیکن یہاں سرسواتی کا نظریہ کہاں فٹ ہوتا ہے؟
جواب
: جب آپ کہتے ہیں کہ یہ انڈس سولائزیشن یا ہڑپہ سولائزیشن ہے تو تب ان کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔ ہڑپہ پاکستان میں ہے، انڈس دریا پاکستان میں بہتا ہے۔ چونکہ ہم تقسیم کو مان چکے ہیں اور بھارت دیش کا ایک حصہ دے چکے ہیں تو تب ہمیں سرسواتی دریا اور سرسواتی سولائزیشن کی بھی انتہائی ضرورت ہے۔

ٓآپ کو یہ جان کر حیرانگی ہوگی کہ نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کے پہلے دور میں جیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ایک کتاب جاری کی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ سراسوتی دریا پاکستانی علاقے میں داخل نہیں ہوتا۔ درحقیقت یہ دکھایا گیا کہ یہ دریا راجستھان کے صحرا سے گذرتا تھا۔ جیالوجیکل سروے آف انڈیا کا یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔

سوال: آپ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا’’پہلے ہم یہ جان لیں کہ کیا واقعی بطور انڈیا ہم ایک قوم ہیں‘‘۔ کیا ہندوستان کا کیس بطور ایک قوم کمزور ہوا یا مضبوط ہے؟
جواب
: قوم کو ہم کیسے بناتے ہیں ؟ یہ کوئی قدرتی شے نہیں۔ آپ نے اپنی اور چھوٹی کمیونٹیز کے اندر قومی شعور پید ا کرنا ہوتا ہے۔ اگر ہم علاقائی یا چھوٹی چھوٹی تقسیم کی حمایت کریں گے تو لازمی بات ہے کہ اس سے قوم کا تصور کمزور ہوتا ہے۔ اس لیے قوم تعمیر کرنا پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں سب سے اہم کام سیکولرازم اور جمہوریت ہے جس میں تمام علاقائی قوموں اور اقلیتوں کے حقوق اور ان کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے وہ تمام قوموں کو ساتھ لے کر چلنے سے عاری ہے جو کہ ایک مضبوط قوم کے لیے ضروری ہے ۔ وہ بطور ایک قوم کے نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن درحقیقت وہ قوم کو کمزور کررہے ہیں۔

سوال: آپ کے نزدیک نریندر مودی کی بحیثیت وزیراعظم کی کیا اہمیت ہے؟
جواب
: (ہنستے ہوئے) پہلے تو میں یہ اعتراف کروں گا کہ میں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ مودی وزیر اعظم بن جائیں گے۔ میں نے بھارتی ووٹروں کے متعلق ایک آئیڈیل تصور بنایا ہوا تھا۔ یہ میری غلطی تھی۔ بھارتی ووٹر بھی اسی طرح ہیں جیسے پوری دنیا میں ہیں۔ پراپیگنڈا اور یہ امید کہ وہ کچھ مختلف کر سکتا ہے ، مودی کو جتا گئی۔ لیکن ہمیں یہ حقیقت ماننی ہوگی کہ مڈل کلاس میں آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی پھیل رہی ہے۔ 

سوال: آخری سوال کہ آزادی کے بعد ہندوستان میں کونسا ایسا واقعہ تھا جس سے آپ کو شاک پہنچا ہو؟
جواب
: (ہنستے ہوئے) ذاتی طور پر مجھے اندرا گاندھی کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ پر دکھ ہوا تھا۔ اور اس کے بعد مودی کا وزیراعظم بننا۔

scroll.in

Comments are closed.