گیلی مٹی

فرحت قاضی

گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کے لئے اسے سدھایا جاتا ہے
اور عوام کو تعلیم وتربیت دی جاتی ہے

ملا نے صبح اٹھ کر دعا مانگی
’’
یااللہ یو غٹ مڑے وکڑے‘‘
’’
ْْیا اللہ ایک امیر شخص کی فوتگی چاہتا ہوں‘‘

سقراط کا باپ سنگ تراش تھا
اور سقراط انسان تراش تھا ایک روز اس نے اپنے باپ سے پوچھا:’’بابا! یہ کیسے بنا لیتے ہو؟‘‘
باپ نے جواب دیا: ۔
’’
پتھر میں یہ بت پہلے سے موجود ہوتا ہے میں تو بس اس کے فالتو حصے کھرچ لیتا ہوں‘‘
کمہار زمین سے گیلی مٹی اٹھااٹھاکر اس سے پیالیاں بنانے میں لگا ہوا تھا فارغ ہوا تونیا قالب اٹھاکر اس جگہ پر رکھ دیا اور پھر کٹورے بنانے لگا چار گھنٹے کی محنت میں وہاں پیالیاں، پرچ، کٹورے، گلاس، تھالیاں اور اسی نوعیت کے دیگر برتن پڑے اس کے ہاتھوں اور انگلیوں کی مہارت کا ثبوت پیش کررہے تھے
میں ٹھوڑی کو دونوں ہاتھوں میں تھامے یہ تمام منظر دیکھتے ہوئے متعجب تھا اور دل ہی دل میں اسے داد بھی دیتا رہا 
گھر آنے پر میں نے پانی اور مٹی لئے ان کو آٹے کی طرح گوندھتا رہا اور جب وہ اچھی طرح گھل مل گئے تو کمہار کی نقالی کرتے ہوئے ان سے 
گائے
بیل
شیر 
بندر
گیدڑ اور گدھا بنانے لگا
بنانے کو تو میں نے یہ تمام جانور اور برتن بنا لئے تھے مگر ان سے میرا اناڑی پن عیاں تھا اور جب انسان بنانے لگا تو کبھی ایک ہاتھ لمبا دوسرا چھوٹا کبھی سر چھوٹا اور تن بڑا اور تکڑا،پیٹ نکلا اور پھولا ہوا تو ٹانگیں پستہ ایک بڑی اور دوسری آنکھ بھینگی کانوں کا بھی یہی حال اس ایک انسان بنانے پر میرے گھنٹے لگ گئے پھر بھی نہیں بنا پایا بار بار اسے مٹی میں بدل اور پانی ملا دیتا تھا بالآخر تنگ آکر زمین پر پٹخ دیا
میں سوچنے لگا انسان بنانا نہایت ہی مشکل کام ہے
ایک مرتبہ پھر وہی عمل دھرانے بیٹھ گیا اور ایک نہیں دو نہیں تین نہیں چوتھی مرتبہ بھی بنانہ پایا تو زمین پر غصے سے دے مارا وہ مٹی اور کیچڑ بکھر گئے
مجھے ایسا لگا گویا وہ مٹی گلہ کر رہی ہو اور کہ رہی ہو:
’’
اس میں بھلا میرا کیا قصورہے ‘‘
میرابڑا بھائی چار سال سے کینسر کے موذی مرض میں مبتلا تھا بھتیجے نے فون پر اطلاع دی کہ بابا کو ہسپتال لے جانا ہے ڈیوٹی کے بعد سیدھا ادھر چلے آنا میں نے وقت سے پہلے کام ختم کرلیا تھا اور بھا ئی کے مکان کی طرف ڈگ بھرنے لگا 
بادشاہی مسجد کے پاس سکول سے محصوم بچوں کے زور زور سے اپنا سبق یاد کرنے کی آوازوں نے اپنی جانب متوجہ کرلیا مگر مسلسل آگے کو ہی اٹھ رہے تھے چند قدم گیا تھا کہ گندگی کے ڈھیر پر دوبچوں کو بیٹھے کچھ کھاتے اور ایک بچی کو کاغذ اور دیگر مفید اشیاء ا س سے اٹھااٹھاکر بوری میں ڈالتے ہوئے دیکھا چند قدم آگے جانے پر یونیورسٹی آگئی
یہ شماریات کا شعبہ
اردو
اسلامیات، سیاسیات، حساب، معاشیات،انجنیئر نگ، میڈیکل اور پشتو کے شعبہ جات سے گزرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر مجھے کمہار یاد آگیا اور تعلیم کے ان شعبہ جات اور طلبہ اور کمہار کے سانچوں اور گیلی مٹی میں مجھے مشابہت کا احساس ہوا 
طلباء اور طالبات کو ان شعبہ جات میں دو یا چار برس رکھا جاتا ہے اور ان سے ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر، سائنس دان،ماہر معاشیات بن جاتا ہے تو اسے ان سانچوں سے فارغ کردیا جاتا ہے اسی طرح پائلٹ، سپاہی اور پولیس اہلکار بنانے کے اپنے اپنے ادارے اور سانچے ہیں
ترقی یافتہ ممالک میں ملکی حالات کو پیش نظر رکھ کر یہ سانچے یا شعبہ جات قائم کئے جاتے ہیں اور پاکستان میں اس کے نظریاتی تشخص اورمخصوص طبقات کے مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے چاروں صوبوں میں الگ الگ ترقی کی سطح ، رفتار اور زندگی کو دیکھ کر یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ ارباب اختیار کے ملک، عوام اور اس میں موجود قوموں کے حوالے سے خیالات کی نوعیت کیا ہے
صوبے اور عوام ان کے لئے گیلی مٹی کی مانند ہیں
قبائلی پشتونوں کو سپاہی بنانا ہے تو ان کے نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کرانے کے لئے ملازمت کو پرکشش بناکر پیش کرنا ہے چنانچہ معقول ماہانہ اجرت، بلامعاوضہ رہائش اور علاج معالجہ ملک کے اعلیٰ ڈاکٹران سے مفت ہوگا، سفر کے اخراجات سے آزاد یا نصف رقم کی ادائیگی، پلاٹ،ملازمت سے فارغ ہونے پر پنشن اور اس میں بھی سالانہ بڑھوتری، میڈیا پر پرچار،جنگ پر بھیجا لوٹ کے آگیا تو غازی اور مرگیا تو شہادت کا مرتبہ پالیا
مگر زیادہ سے زیادہ قبائلی باشندوں کو عسکری ملازمت میں لینے سے اندیشے بھی جنم لیتے ہیں اس ادارے پر ان کی اجارہ داری قائم ہوسکتی ہے علاوہ ازیں اخراجات بھی اسی حساب سے ہوں گے اور پورے قبائلی علاقہ جات کو تربیت گاہ بنانا ہے تواسے سات ایجنسیوں میں تقسیم کردو ہر ایک کے لئے الگ پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کردو اس کے ہاتھوں میں تمام اختیارات مرتکز کرکے اسے وفاق کا ایجنٹ اور ڈکٹیٹربنادو ایف سی آر کا قانون لاگو کرکے جرم کی صورت میں اجتماعی ذمہ داری کے تحت مکان گرادو تو مکینوں کے دل میں پختہ اینٹوں کا گھر بنانے کا خیال بھی نہیں آئے گا جدید سہولتوں سے دور رہیں گے صنعت لگاؤ اور نہ ہی زراعت کو ترقی یافتہ بنانے پر توجہ دو ان علاقہ جات میں ملک کے دیگر علاقوں سے آکر آباد ہونے پرعوام میں تبدیلی آسکتی ہے لہٰذا اس کی روک تھام کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کی اجازت لینا لازمی قرار دیا جائے مذہبی پیشواؤں کو جنگ اور جہاد کا پرچار اور قدیم تاریخ اور جنگجو سپہ سالاروں کی کہانیوں سے عوام کو جوش دلانے کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے البتہ سیاسی افراد اور سیاست کو شجر ممنوعہ بنادو
جدید تعلیم کی راہ میں زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کرو عسکری تربیت کے قریب تر ہر کھیل اور عمل کو فروغ دینے کا پورا پورا انتظام ہونا چاہئے پستول اور بندوق کو قبائلی کازیور بنادو چندسال انتظار گزرنے دو پھر ان اصلاحات کا جائزہ لینے پر نتیجہ قبائلیوں کے سپاہی کی شکل میں آجائے گا انہیں محاذ جنگ پر بھیج دیا تو یہ بازوے شمشیر زن بن جائیں گے تو پیسے اور نوجوانوں کی بھی بچت ہوجائے گی
ملک کے جس حصے کو ترقی یافتہ اور اس کے باسیوں کو حکمران بنانے کی نیت اور ارادہ ہے تو وہاں انڈسٹریل زونز بنانے کا آغاز کردو یکے بعد دیگرے اسٹیٹ اور زونز کے قیام سے ان کے الگ الگ شعبہ جات کے لئے ماہرین کی ضرورت پیدا ہوجائے گی تو تعلیمی ادارے بنانا بھی ضروری ہوجائے گا ان اداروں سے سیاست دان،فلسفی،ماہر لسانیات،طبیب، معاشیات دان اور اساتذہ نکلنے لگیں گے وہ زیادہ سے اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینا سیکھ لیں گے تو یہاں ایک نیا کلچر اور طبقہ پیدا ہوجائے گا یہ حاکم طبقہ ملک پر حکومت کرے گا اور اس کی قسمت کے فیصلے کرنے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہوگا
چھوٹے اور علاقائی سطح پر بھی یہی کچھ ہورہا ہے 
ہم پولیس اہلکار کو بندوق کی مشق کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اس کے ناک کی سیدھ میں بوتلیں اور ڈبے رکھے ہوتے ہیں وہ ان کا نشانہ لیتا اور ٹریگر دبا دیتا ہے رفتہ رفتہ انسانی شبیہ کا نشانہ باندھنے لگتا ہے اور وہ جب ان میں پوری پوری مہارت حاصل کرلیتا ہے توجانور اور انسان بھی اس کے لئے شبیہ جات بن جاتے ہیں اسے فقط حکم دینے کی دیر ہوتی ہے جنگ میں اسے یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ وہ انسانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنارہا ہے
اسے تو بس اس کا گھمنڈ ہوتا ہے کہ وہ بہترین نشانچی ہے
کمہار بازار اور آبادی کی طلب کو مد نظر رکھ کر برتن بناتا ہے گرمیوں میں گھڑوں اور کٹوروں کی ضرورت بڑھ جاتی ہے اور سرد موسم میں گھٹ جاتی ہے تو وہ پیالیوں اور پرچوں کی جانب متوجہ ہوجاتا ہے 
ایک گاؤں میں جاگیردار اس کا ان داتا ہوتا ہے اس کے پاس زمین اور کھیت ہوتے ہیں اور ان پر کام اور محنت کرنے کے لئے اسے کاشتکار،بھینسوں کی رکھوالی کے لئے گوالے،زرعی پیداوار کو بڑے بازار میں فروخت کرنے کے لئے بیل گاڑی ،حساب کتاب کے لئے بابو ،زمین کی ناپ تول کے لئے پٹواری، اپنی جائیداد اور جان کی حفاظت اور کھیت مزدوروں سمیت دیہی باشندوں کو دہشت زدہ رکھنے کے لئے ڈنڈے ماروں اور بندوق برداروں کی ضرورت ہوتی ہے
دیہہ کے باسیوں کوایک دوسرے کی ضرورت پوری کرنے کے لئے بھی گوناگوں پیشوں سے وابستہ افراد اور ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے ہمیں اسی دیہہ میں مکانات،دکانیں، پن چکی،بازار اور سبزی منڈیاں، حجرے اور مسجدیں نظرآتے ہیں توبیل گاڑی،تھریشر،ٹریکٹر اور تانگے بھی ہوتے ہیں اسی طرح کمہار، لوہار، خاکروب، پو لیس ، کلر ک ، پٹو ا ر ی ، آ فیسر ، و کیل ، طبیب،چوکیدار،ڈنڈے مار، چور، ڈکیت اور بدمعاش بھی پائے جاتے ہیں
مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد ہماری گوناگوں ضروریات پوری کرتے ہیں کمہار ہمارے لئے برتن،لوہار کھڑکیاں اور دروازے،کھیت مزدور زرعی پیداوار، پڑھے لکھے افراد زمین اور کھیتوں کا حساب کتاب، ڈرائیور ایک سے دوسرے مقام تک انسانوں، جانوروں اور سامان لاتا لے جاتا ہے جبکہ ڈنڈے مار اور بندوق بردار کھیت مالکان کی طلب اور مجبوری ہیں چنانچہ دیہہ میں یہ سب بے جان اور جاندار اس کی ضرورت ہیں اس حقیقت کا اندازہ ہمیں عوام اور مالکان کی عبادت کے دوران دعاؤں سے بھی ہوتا ہے البتہ بعض ایسی بھی ہوتی ہیں جو انسان دل ہی دل میں مانگتا اور کرتا ہے
ایک نوجوان اپنی محبوبہ کی دیدار کا متمنی ہے
ایک شخص کی نارینہ اولاد نہیں ہے
اور کوئی دولت اور بے بہا دولت کا طلب گار ہے
ڈاکٹر امراض اور مریضوں
پولیس اہلکار جرائم
باپ تابعدار اولاد
اور جاگیردار جسمانی لحاظ سے طاقتور اور تکڑے کھیت مزدور کی خواہش رکھتا ہے اسی طرح وہ کسانوں کو دبا کر رکھنے کے لئے بندوق بردار بھی رکھتا ہے اسے مقدمات نمٹانے کے لئے وکلاء کی بھی ضرورت پڑ تی رہتی ہے 
مذہبی پیشوا صبح اٹھ کر دعا مانگتا ہے:
’’
یااللہ یو غٹ مڑے وکڑے‘‘
اے خدا ایک صاحب جائیداد فوت ہوجائے تو زیادہ پیسہ ہاتھ لگ جائے گا
یہی وہ ضروریات اور ڈیمانڈ ہیں جن کے باعث ہمیں اپنی آبادیوں میں اچھے اور برے دونوں طرح کے انسان دکھائی دیتے ہیں کھیت اور جائیداد کے مالکوں کو دونوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ کاشتکار تکڑااورمحنتی مگر ساتھ ہی صابر وشاکر چاہتا ہے اور اسے ان ہی کسانوں کو دباکر رکھنے کے لئے وفادار بندوق بردار بھی چاہئے ہوتے ہیں
ہم چور اور قاتل کو برا سمجھتے ہیں اور ملک و معاشرے سے ان کی ہستی کو نیست و نابود کرنے کے مطالبات بھی کرتے رہتے ہیں حکومت اور محکمہ پولیس کے اعلیٰ حکام سمیت ہر ایک ہمیں یہ یقین بھی دلاتا ہے اس حوالے سے روزانہ میڈٖیا پر جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاریوں، جیل یاترا اور چھوٹے اور بڑے ہتھیاروں کی برآمدگی کی خبریں بھی روزروز ہماری آنکھوں سے گزرتی ہیں
ادھر کرپشن میں سرکاری اہلکار پکڑے جاتے ہیں تجاوزات کے دوران ریڑھیاں اور تھڑے توڑتے اور گاڑیوں میں لے جاتے ہوئے دیکھتے ہیں دکانات سیل ہوتے ہیں نمونے لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لئے بھیج دئیے جاتے ہیں جو صحافی ارباب اختیار کی ان چالوں سے واقف ہوتا ہے وہ اپنے اخبار میں اسے عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے مترادف قرار دیتا ہے
کنٹونمنٹ بورڈ اور میونسپل کا عملہ حکام کی ہدایات پر بازاروں پر ٹوٹ پڑتا ہے ریڑھی بان اور چھابڑی فروش دم دباکر بھاگ پڑتے ہیں بغل میں چوکی ہے اور سر پر چھابڑی گویا دشمن نے اپنی توپ نما گاڑی میں فوجیوں کو بٹھاکر دھاوا بول دیا ہو اور ان کو آناً فاناً نیست و نابود کردے گا مگر ان کے جاتے ہی مطلع صاف ہوجاتا ہے ایک او ر دوسرے نکڑ پر یہ مزدور کھمبیوں کی مانند پھر اگ آتے ہیں
جس لڑکے نے بازار کا پہلی مرتبہ رخ کرکے چھابڑی لگائی ہوتی ہے وہ گھبرا جاتا ہے اس کے اوسان خطا ہوجاتے ہیں مگر رفتہ رفتہ دیگر ساتھیوں کی مانند عادی ہوجاتا ہے کمیٹی اور بورڈ اہلکاروں سے سودا طے ہوجاتا ہے ان اداروں کے افسران اور اعلیٰ حکام ہفتہ اور مہینے میں ایک بار ضرور اس بازار سے سودا سلف لینے آتے ہیں عوام بھی بالآخر ایک نتیجہ پلے باندھ لیتے ہیں وہ اسے ملی بھگت کا نام دے کر راضی بہ رضا ہوجاتے ہیں
اچھے کو برا اور برے کو اچھے میں بدلا جاسکتا ہے
آگ جلاتی ہے یہ انسان کو ہسپتال اور قبرستان پہنچادیتی ہے دکان اور مکان کو خاکستر کرکے برسہا برس کی جمع پونجی کو راکھ میں بدل دیتی ہے اس جانی اور مالی نقصان کو دیکھ کر انسان خون کے آنسو روتا ہے مگر اسی آگ سے کھانا بھی پکایا جاتا ہے
برتن سازی کا کام بھی لیا جاتا ہے
پانی ہماری ضرورت ہے ڈیم بناکر بجلی پیدا کی جاتی ہے بارانی کو نہری میں بدل کر کھیت باڑی کرنا سہل ہوجاتا ہے پیداوار بھی بڑھ جاتی ہے یہی پانی سیلاب، طوفانی بارش کا روپ دھار لیتا ہے تو ایک بڑے اژدھا کی صورت میں دیہات اور شہر نگل جاتا ہے
قتل ایک جرم اور انتہائی برا فعل ہے جنگ میں ہزاروں انسانوں کے قاتل کو ہیرو بنادیا جاتا ہے علاوہ ازیں قتل ایک قبیح فعل ہے اسی لئے قاتل کے لئے موت کی سزا مقرر کی گئی ہے
انسان کا بھی یہی حال ہے 
حالات کا جبر اسے برا انسان بنا دیتا ہے اور اگر ماحول کو انسانی بنادیا جاتا ہے تو برے سے وہ اچھا انسان بن جاتا ہے روسی اور چینی انقلابات سے قبل محنت کش طبقہ کا ایک پرت جرائم میں ملوث تھا اسے برا اور نہایت برا بناکر پیش کیا جاتا تھا سوشلسٹ نظام نے اسے موقع فراہم کردیا تو خوابیدہ چین سپر پاؤر کی راہ پر چل نکلا اور اس نے سی پیک کے ذریعے پاکستانیوں کے دلوں میں بھی امید کی کرنیں پیدا کردی ہیں
پاکستان فلاحی مملکت کے مقام سے پیچھے اور پیچھے رہ گیا چنانچہ نظریاتی مملکت کے معاشی اور سماجی حالات بد سے بد تر اور مایوسی کی جانب بڑھ رہے ہیں مگر اختیارات کے ارتکاز نے حاکم طبقات کو فرش سے عرش پر پہنچا دیا ہے تو عوام بھوک، خیرات اور جرائم کی راہ سے اپنے پیٹ کا ایندھن بھر رہے ہیں وہ اچھائی سے برائی کی جانب گامزن ہیں ان کی ضروریا ت پوری نہیں ہوتی ہیں تو وہ شکایات کے انبار لگادیتے ہیں ان شکایات اور نفرت اور غصے کا رخ ہمسایہ ممالک سے تناؤ کی طرف موڑا جاتا ہے اور مذہبی پرچار کے واسطے امیر اور غریب کے مابین پائے جانے والے خلاء کو پر کرنے کی سعی ناکام میں وقت برباد کیا جارہا ہے
جاگیردار طبقے نے انسان کو خانہ بندوشی سے نکالا اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی گھر بنے حجرے اور مسجدیں تعمیر کی گئیں لق و دق صحرا اور بنجر زمینوں کو آباد کیا اجتماعی زندگی کے فوائد سامنے آگئے آقا اور غلام، مالک اور ملازم، شوہر اور بیوی کے تصورات پیدا ہوئے شریف اور رذیل، نیک اور بد میں انسانوں کی تقسیم ہونے لگی جنگ اور صلح کے واقعات بھی پیش آنے لگے چنانچہ اس طبقے نے سماج کو ایک قدم آگے لے جانے میں اہم کردار ادا کیا
حالات آگے نکل گئے دریافتوں،ایجادات اور اختراعات نے جاگیردار کے تخت پر سرمایہ دار کو بڑھا دیا ان ایجادات نے سرمایہ دارانہ نظام کے لئے زمین ہموار کردی صنعت کی بنا پڑی اور انسان نے ایک نئے دور میں قدم رکھے تعلیم کی افادیت بڑھ گئی مذاہب اور عقائد کو ان ایجادات اور ترقی کی راہ میں رکاؤٹ پایا تومذاہب اور عقائد میں تقسیم انسان نے اپنے کاروبار کے بڑھاؤے کے لئے انسانیت کی تعلیمات دینے کا آغاز کیا
پرانا اور سماج کو قبائلی سے جاگیردارانہ معاشرے میں بدلنے والا وہی جاگیردار طبقہ جدیدیت اور سرمایہ دارانہ ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا جدید تعلیم و تربیت کو کفری تعلیمات کا نام دینے لگا جس سے اب وہ ایک ترقی یافتہ سے ترقی دشمن اور اچھے سے برے میں تبدیل ہوگیا ہے
چنانچہ ہم برملا کہ سکتے ہیں
اچھا اور برا
کا انحصار حالات پر ہوتا ہے
جب پاکستان میں مسجدوں سے زیادہ جدید تعلیمی ادارے فروغ پانے لگیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ سرمایہ دارانہ نظام قدیم قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کی جگہ اور اختیارات اپنے ہاتھوں میں لینے لگا ہے

Comments are closed.