اکہترہواں سال۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟

    محمد حسین ھنرمل 

یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ چودہ اگست پاکستان کے قیام کا دن ہے۔ہمیں یہ علم بھی ہے کہ اس دن کو دنیا کے نقشے پر پاکستان نام کا ایک ملک عدم سے وجود میں آیاتھا۔ لیکن اس بارے میں شاید ہم نے بہت کم سوچا ہوگا کہ اکہتر سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجودہم آج بھی سیکھنے کے موڈ میں کیوں نہیں ہیں؟  یا  یوں کہیے کہ ایک معمر پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ہمارے ہاں کیونکر وہی فاش غلطیاں  دہرائے جاتے ہیں جو ایک نونہال پاکستان کے وقت دہرائے جاتے ہیں؟   بالخصوص   وہ   لوگ   تو سرے   سے اس طرف   دھیاں بھی نہیں دیتے  جن  کا  شمار  ارباب حل و عقد  میں  ہوتا  ہے ۔ جنہوں  نے  آزادی  کے  ابتدائی برسوں  میں  اس ملک  کو   غلط  رخ کی طرف  موڑنے  کا نہ صرف  ارادہ  کیا تھا  بلکہ  اسے  عملی  جامہ  بھی  پہنا کر  دم  لیا  تھا ۔ 

گو  کہ  ہم  اس  وقت  جناح اور اقبال  اور نہ ہی لیاقت علی خان کے  پاکستان  میں رہتے  ہیں ۔  سچی  بات  یہ ہے کہ  ہم  آئین  کے  ہوتے  ہوئے  ایک بے آئین پاکستان میں رہتے  ہیں اور  قانون کو سمجھنے کے باوجود لاقانونیت کو پنپ   رہے  ہیں۔ حقیقت  یہ ہے کہ بدعنوانی  ، اقرباء  پروری اور  لالچ   کو  ممنوعات  سمجھنے   کے  باوجود  بھی ہم ڈنکے کی چوٹ پر اس کا  ارتکاب کررہے ہیں ۔ 

مشرقی بازو  کو  ہم   نے گنوا  کر  پینتالیس سال  سے ہم  ہر  دسمبر کو   اس دن  کا ماتم تو  مناتے ہیں لیکن  اس  سے سبق نہیں لینے  کے موڈ میں نہیں ہیں ۔ہمارے جرنیلوں  کے دلوں  میں  اگر اپنے  بنگالی  بھائیوں کیلئے  رتی بھر  وقعت   ہوتی  تو  کیا پھر  بھی  ڈھاکہ ہم سے ساقط  ہوسکتا  تھا ؟  جس  مسلم لیگی  قیادت  کی  کاوشوں  سے ہمیں  یہ  ملک ملا تھا اس کی بنیاد  ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی اور23 مارچ  1940 کی قرارداد کے محرک اسی  بنگال  کے مولوی فضل الحق ہی تو تھے ۔آخر ایسے علل و اسباب تو ضرور تھے  جس نے شیخ مجیب  اور بنگالیوں کو  بالآخر  چھ نکات کا,, آپشن  لانے پرمجبور کردیا۔

پاکستان کے قیام سے لے کر 1969تک کے 22 سالہ  عرصے  میں   مشرقی پاکستان  میں ایک بھی ایسے چیف سیکرٹری کانام کوئی نہیں بتاسکتا جو نسلی اعتبار   سے بنگالی ہو ۔ کیا ان23 سالوں  میں مشرقی پاکستان کی پندرہ نامزد گورنروں میں صرف13کاتعلق مغربی  پاکستان کے  لاڈلے نہیں تھے ؟ حقیقت یہ  ہے کہ شیخ  مجیب  پاکستان سے آزادی نہیں چاہتے تھے بلکہ خود مختاری  چاہتے تھے ۔  چھ  نکات کی شکل میں انہوں  نے معقول اور جائز مطالبات پیش کرکے مجیب نے انہی جائز حقوق مانگنے کا مطالبہ کیا تھا جو مغربی پاکستان کے چوالیس فیصد  عوام کو حاصل تھے,۔ لیکن جب ہمارے مستبد حاکموں  نے مذکورہ  مطالبات کو تسلیم  کرنے کی بجائے  بنگالی  بھائیوں کو  دھمکانے  پر اتر آئے  جس کے بعد  بنگالی  بھی ہمارے  ان  دشمنوں کی طرف  دیکھنے لگے جو پہلے سے تاک  میں  بیٹھے ہوئے تھے ۔

بے شک  جغرافیائی اور  لسانی  تفاوتیں,, مشرقی  اور پاکستان  کے درمیان  اتحاد  کے حق میں نہیں تھیں لیکن اس کا  ہرگز  یہ مطلب  نہیں تھا   کہ خوا مخواہ بنگالیوں کو  اپنانے کی بجائے  الگ  کرنا  مسئلے کا حل تھا  ۔ مرحوم مجید نظامی لکھتے  ہیں کہ   ”مشرقی پاکستان اور مغربی  پاکستان  کے  بیچ,, جغرافیائی فاصلے ضرور   موجود  تھے ،  لیکن 1951  سے 1970  تک  فوجی جرنیلوں،   بیوروکریٹس  اور اکثر ,,سیاستدانوں  نے استحصال  پر  مبنی  سیاسی ، سماجی اور,, معاشی فیصلے کرکے  پاکستان   کے دونوں حصوں  میں بسنے والے شہریوں کے دلوں  اور ذہنوں کے درمیان  بھی فاصلے پیدا کر دیئے ۔

اس کا نتیجہ  یہ نکلاکہ ستر کے  انتخابات  میں نہ تو مغربی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو مشرقی پاکستان  میں  اور نہ پھرمشرقی پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کو مغربی پاکستان میں ایک  بھی نشست پر  کامیابی ملی“۔حمودالرحمن  کمیشن  رپورٹ  میں مغربی  پاکستان کے جن جرنیلوں، فوجی آفیسروں اور کچھ سیاستدانوں پر مقدمات  چلانے کی سفارش کی گئی تھی،لیکن کیا کسی پر مقدمہ چلایا  گیا  یا موت کے بعد بھی انہیں  پوری شان وشوکت اور قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا؟

عمر بھر سنگ زنی کرتے رھے اھل وطن 
یہ الگ بات ہے کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ 

سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ کیا  اکہتر  جیسا  دلخراش سانحہ پیش   آنے کے باوجود  ہمارے   حاکموں نے بعد  میں کوئی ندامت  محسوس  کی یا, کچھ عقل کے ناخن لیے بھی؟
اس سوال  کا جواب  بھی ہم  کونفی میں ملتاہے کیونکہ اس  ملک  کو  چلانے  کے لئے 1973  کے  جس تاریخی دستاویز(آئین)کو ہم نے بالاجماع ایک مقدس دستاویز تسلیم کیا گیا  تھا  ، کی وقتاً  فوقتاً   دھجیاں اڑائی گئیں۔کیا یہ جنرل ضیاء  کے الفاظ  نہیں تھے کہ  ” آئین  محض دس بارہ  صفحات  کا  ایک  کتابچہ  ہے جسے ,میں  پھاڑ سکتا ہوں اور کہ سکتا ہوں کہ کل سے ہم ایک   نئے نظام کے مطابق  چلیں  گے ۔ کیا  انہوں  نے  یہ  نہیں کہا تھا  کہ ماضی کے طاقتور  سیاستدان اور  بھٹو اپنا  دُم ہلا  ہلاکر میرے  پیچھے آئیں  گے“؟ 

ایک بنیاد  پرست جرنیل  کے طور, پر  ضیاء  نے اسلام کے مقدس  دین کو ,سیاسی ,,اہداف کے   حصول کیلئے   قابل رحم  حد   تک  استعمال  کیا ۔   افغانستان  کی سرزمین  پر روس کے خلاف امریکہ کا فرنٹ  لائن اتحادی  بن کر یہ نہیں سوچا کہ مستقبل میں یہی امریکہ افپاک خطے میں اپنی تھانیداری  کیلئے پر تول رہا ہے ۔   اور پھر اسی قبیل کے ایک جرنیل نے بھی اپنی نوسالہ دور   میں نہ صرف آئین اور عدلیہ پر سب خون مارابلکہ دہشت گردی کے برائے نام جنگ میں امریکہ  کا فرنٹ لائن اتحادی بن کر ملک کو نہ ختم ہونے والے خودکش حملوں کا تحفہ  دے کر  دم لیا۔ 

ہمارے ہاں پچھلی دو جمہوری حکومتوں  نے اپنی مدت ضرور پوری کردی تا ہم صحیح  بات یہ ہے کہ اس  وقت  بھی ایک جدید یا بقول کسے کمپیوٹرائزڈ”   شکل  میں ماضی کے آمروں کی تقلید ہورہی ہے، جوکسی طور بھی  پاکستان ، جمہوریت  اور عوام کے  مفاد میں  نہیں  ہے۔

Comments are closed.