ایشیاٹک سوسائٹی: ہندوستان کا عظیم علمی ادارہ



ایشیاٹک سوسائٹی کا قیام15 جنوری1784کو کولکتہ میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا منصوبہ سرولیم جونز کے ذہن کی پیداوار تھا جو آکسفورڈ یونیورسٹی کے سکالر تھے اور حکومت برطانیہ نے ان کی تقرری کولکتہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے کی تھی۔جب وہ بحری جہاز پر کلکتہ کے لیے روانہ ہوئے (اس وقت یہ سفر تقریباً ایک ماہ پر مشتمل تھا) تو دوران سفر انھوں نے ایک ایسے ادارے کی منصوبہ بندی کر لی جس کا کام ہندوستان سے متعلق معلومات اکٹھی کرنا تھا۔

وہ یہ کہ ہندوستان کی قدیم تاریخ کیا ہے؟ ہندوستان کا جغرافیہ کیا ہے؟ یہاں مسلمانوں کی آمد کب ہوئی؟ ان کے قوانین کونسے ہیں؟ ہندوؤں کے قوانین کیا ہیں؟ ہندوستان میں کتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اور ان کے رسم الخط کون کون سے ہیں، پھر یہ خطہ کب کب قدرتی آفات، زلزلوں اور سیلابوں سے دوچار ہوا۔ پھر ہندوستان میں کون کون سے علوم پڑھائے جاتے ہیں اس کی تفصیلات اکٹھی کرنا جن میں علم الاعداد، جیومیٹری، طب، کیمیا، عمل جراحی کس سطح پر ہیں اور کتنے کار آمد ہیں؟ یہاں پائی جانے والی جڑی بوٹیاں کونسی ہیں؟

اس کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ادب شاعری، کہاوتیں، اخلاقیات کیا ہیں۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی موسیقی کونسی ہے؟ ہندوستان کی فصلیں کون کون سی ہیں؟ زراعت کیسی ہے؟ مغلوں نے کون سے قوانین نافذ کیے اورمرہٹوں کے قوانیں کونسے ہیں ؟ غرض ہندوستان سے متعلق ہرشے کا جائزہ لینا اور اسے دستاویزی صورت میں اکٹھا کرنے کا منصوبہ سرولیم جونز نے تیار کیا۔

ہندوستان روانگی کے وقت اسے یہ معلوم تھا کہ ابھی تک ہندوستان میں اس قسم کی معلومات اکٹھی کرنے کا کوئی رواج نہیں اور نہ ہی کسی نے اس کی کوشش کی تھی۔ سوسائٹی کا قیام سرولیم جونز کی طر ف سے ہندوستانی قوم پر ایک احسان تھا جس سے آنے والی نسلوں نے نہ صرف استفادہ کیا بلکہ اس کی روشنی میں جدید ہندوستان وجود میں آیا۔ سرولیم جونز کی ہندوستان میں آمد سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے کچھ اور عہدیداروں کو بھی اس قسم کی معلومات اکٹھا کرنے کا خیال آیا مگر وہ اس کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ مختلف سکالرز انفرادی طور پر ریسرچ ضرور کر رہے تھے لیکن سرولیم جونز نے اس کو ایک ادارے کی شکل دی۔

ولیم جونز ستمبر1783 کو کلکتہ پہنچے اورسپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ جنوری 1784 کو انھوں نے ہندوستان کے سرکردہ افراد کو ایک خط لکھا جس میں سوسائٹی کے قیام کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔ 15 جنوری 1784کو سپریم کورٹ کولکتہ کے ایک بڑے ہال میں چیف جسٹس سررابرٹ چیمبرز کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں30کے قریب اعلیٰ برطانوی عہدیدار شریک ہوئے۔اس اجلاس میں سرولیم جونز نے ایشیاٹک سوسائٹی کے قیام کی ضرورت پر ایک بھرپور اور مدلل تقریر کی۔ اس نے کہا کہ ایشیاء کے خطہ کی زرخیزی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام سائنسز کی ابتداء یہاں سے ہوئی اور جس کی بنیاد پر کارآمدعلوم پروان چڑھے۔ یاد رہے کہ ریاضی میں صفر کے ہندسے کی ایجاد ہندوستان میں ہوئی تھی جو ریاضی میں انقلابی تبدیلیوں کا باعث بنا۔

تمام اراکین نے اس منصوبے کی حمایت کی اور ایشیا ٹک سوسائٹی کے نام سے ادارے کا قیام عمل میں آگیا اور تمام30ارکان اس کے ابتدائی رکن بن گئے۔ مختلف ادوار میں سوسائٹی کے نام بھی تبدیل ہوتے رہے۔ پہلے ایشیا ٹک سوسائٹی(1784-1832)، ایشاٹک سوسائٹی آف بنگال (1832-1935) رائل ایشیاٹک سوسائٹی بنگال (1936-1951) اور پھر جولائی1951میں دوبارہ اس کا ابتدائی نام ایشیاٹک سوسائٹی رکھ دیا گیا۔

ولیم جونز کی ہندوستان آمد سے قبل ایسٹ انڈیا کمپنی کے متشرقین جن میں چارلس ولکنز(1770) نتھائل براسے (1772) اور جوناتھن ڈنکن(1772) نے ہندوستان کے علوم پر تحقیق میں مصروف تھے۔گورنر جنرل وارن ہسٹنگز جو کہ خود ایک سکالر تھے انھیں مشرقی علوم کو جاننے کی شدید خواہش تھی، سکالرز کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے۔ سر ولیم جونز اور گورنر جنرل کی کوششوں سے مستقبل کے تین اداروں کی راہ ہموار ہوئی جن میں ایشیا ٹک سوسائٹی، فورٹ ولیم کالج اور سیرام پور مشن کا قیام تھا۔ تمام متشرقین جنھوں نے شہرت پائی ان کا تعلق انہی دواداروں سے تھا۔ لیکن ایشیا ٹک سوسائٹی اولین ادارہ تھا۔

ایشیا ٹک سوسائٹی کے پہلے اجلاس میں گورنر جنرل وارن ہسٹنگراس کے صدر اور سرولیم جونز نائب صدر منتخب ہوئے۔ وارن ہسٹنگر نے سوسائٹی کے اغراض ومقاصد کی بھر پور حمایت کی مگر مصروفیت کی وجہ سے وہ سوسائٹی کی صدارت سے دستبردار ہو گئے اور سرولیم جونز کو اس کا صدر منتخب کیا گیا اور وہ اپنی وفات (1794) تک سوسائٹی کے صدر رہے ۔

سوسائٹی کے بنیادی اغراض و مقاصد کے مطابق ’’ہندوستان کی جغرافیائی حدود کے اندرپائے جانے والی تمام معلومات چاہے وہ انسانی محنت کی بدولت ہیں یا قدرتی، اکٹھی کی جائیں گی اور ان کو دستاویزی صورت میں مرتب کیا جائے گا‘‘سوسائٹی کا اجلاس ہر سال طے ہونا پایا ۔ سوسائٹی کے تیسرے سالانہ اجلاس میں سنسکرت کی اہمیت بطور زبان تسلیم کی گئی اور کہا گیا کہ سنسکرت اس وقت یونانی اور لاطینی زبان سے زیادہ قدیم زبان ہے اور یہ ان زبانوں سے کہیں بہتر اور ترقی یافتہ ہے۔ 

ایشیاٹک سوسائٹی کے کام کو پوری دنیا میں ا علیٰ ترین تحقیقی کام قراردیا گیا۔ 1805میں گورنمنٹ آف انڈیا نے کولکتہ میں سوسائٹی کو اپنی عمارت قائم کرنے کے لیے ایک قطعہ زمین دیا۔ 1808میں اس کی عمارت مکمل ہوئی اور اب تک اکٹھا ہونے والا مواد جس میں کتابیں، قلمی مخطوطے اور سوسائٹی کی کاروائی جس کو ریکارڈ کی صورت میں محفوظ کیا گیا ، کو اس عمارت میں منتقل کر دیا گیا۔عمارت مکمل ہونے پر فورٹ ولیم کالج نے سوسائٹی کی لائبریری کو بیش قیمت کتب کا ذخیرہ عطیہ کیا۔ اس کے علاوہ ٹیپو سلطان کی لائبریری کی تمام قیمتی کتب بھی ایشیاٹک سوسائٹی کو مل گئیں۔

سوسائٹی کے آغاز کے وقت اس کی رکنیت صرف انگریز افسروں تک محدود تھی تاہم1829میں ہندوستانی افراد کو بھی رکنیت دی گئی۔ اس کے اولین ارکان میں پراسانہ کمارٹیگور، دوارکاناتھ ٹیگور، راسامے دت اور رام کمل سین تھے۔ رام کمل سین بعد میں سوسائٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔ راجندرلال مترا پہلے ہندوستانی تھے جو1885میں سوسائٹی کے صدر منتخب ہوئے، وہ ایشیاٹک سوسائٹی میں اسسٹنٹ لائبریرین کی حیثیت سے بھرتی ہوئے تھے۔

سنہ1788میں سوسائٹی کی طرف سے ایشیا ٹک ریسرچ کے نام سے ابتدائی چارسالوں کے کام کو شائع کیا اور ہر چار سال بعد یہ باقاعدگی سے چھپتا رہا۔ اس کام کی اہمیت کااندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1792 میں سوسائٹی کے شائع شدہ ریسرچ جرنلز کاایک ایڈیشن انگلینڈ میں شائع ہوا ۔ بعد میں اس ریسرچ کاجرمن اور فرنچ زبانوں میں بھی ترجمہ ہوا ۔

اٹھارویں صدی کے آغاز میں دنیا کے بڑے علمی اداروں میں ایشیا ٹک سوسائٹی کے زیر اہتمام چھپنے والے لٹریچر کی مانگ پیدا ہو چکی تھی۔ اسی دوران ایشیا ٹک سوسائٹی کا دنیا کے دوسرے بڑے علمی اداروں سے رابطہ ہوا۔ ان میں امریکن فلاسفیکل سوسائٹی فلاڈلفیا،لینن سوسائٹی آف لندن، رائل سوسائٹی آف ایڈن برگ اور سوسائٹی آف انٹی کیوٹیز انگلینڈ شامل تھے۔ ایشیا ٹک سوسائٹی مشرقی علوم کی ترویج اور تحقیق کامرکز بن چکی تھی۔ سوسائٹی کے کام سے متاثر ہو کر فورٹ ولیم کالج اور سیرام پورمشن کا قیام عمل میں آیا۔

سنہ1805میں سیرام پورمشن نے ایشیا ٹک سوسائٹی کو یہ تجویز پیش کی کہ سنسکرت میں موجود کلاسیکل لٹریچر کو انگریزی ترجمے کے ساتھ شائع کیا جائے۔ اس سلسلے میں سنسکرت کی پہلی کتاب جو انگریزی میں شائع ہوئی وہ ’’رامائن‘‘ تھی سوسائٹی نے اس منصوبے پر5500روپے خرچ کیے۔ 1788سے1839تک ایشا ٹک سوسائٹی کے ریسرچ جرنلز کی20جلدیں شائع ہو چکی تھی۔1839میں یہ سلسلہ بند ہو گیا۔ 1905میں یہ سلسلہ د وبارہ شروع ہوا جو1935تک چلا۔1808میں سوسائٹی کی دوکمیٹیاں فزیکل کمیٹی اور لائبریری کمیٹی بنائی گئی، فزیکل کمیٹی کے ذمہ تاریخ، طب اور فزکس سے

متعلقہ علوم کی ترویج تھی اور لائبریری کمیٹی کے ذمہ فلسفہ تاریخ اور نوادرات پر مواد اکٹھا کرنا تھا۔
سنہ1814میں ایشیاٹک سوسائٹی نے اپنا میوزیم شروع کیا جس کے سربراہ این ولائچ تھے۔ 1849 میں میوزیم کی پہلی کیٹلاگ شائع کی گئی ۔ میوزیم میں اشوکا عہد کے پتھر پر کنندہ احکامات، کاپر پلیٹ پر کنندہ اشعار ، سکے ، مجسمے، پینٹنگز اور قلمی مخطوطے رکھے گئے۔ میوزیم میں ہندوستان کی تاریخ سے متعلق بے شمار نوادرات جمع کیے گئے۔ 1837 میں سوسائٹی نے ناقابل فہم براہمی رسم الخط کو عام فہم زبان میں منتقل کیا جس سے اشوکا عہد کے شاہی فرمانوں کو پڑھا جا سکا۔ یہ ایک بڑا واقعہ تھا جس نے مشرقی علوم میں انقلاب برپا کردیا اور مستقبل میں زبانوں کے تاریخی اور تقابلی مطالعہ میں بہت مدد ملی۔

سوسائٹی نے پہلے 30 سالوں میں بے شمار کتب شائع کیں۔ جن میں 1788میں ولیم جونز کی’’ انڈو یورپین لینگوئج اینڈ کلچر‘‘،1788 میں چارلس ولکنز کی ’’ A Royal Grant of Land on Copper Plate ، 1795 میں ایچ ٹی کولبروک کی کتابOn the Duties of a Faithful Hindu Widow ، 1797 میں جے ڈنکن کی Discovery of Two Urn in the Vicinity of Benares ، 1805 میں ایچ ٹی کولبروک کی ہی On the Vedas ، 1810 میں جے مالکم کی Sketch of the Sikhs ، 1815 میں ایف ولفورڈ کی On the Ancient Geography of India اور 1816 میں ای سٹریچے کی On Early History of Algebra شامل ہیں۔ سرچارلس ولکنز نے 1785میں بھگوت گیتا کا انگریزی ترجمہ کیا۔ سنہ1787میں سنسکرت کے کئی قلمی مخطوطوں کے ساتھ ساتھ اس کی گرائمرکا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا ۔سر ولیم جونز نے1789 میں کالی داس کی کتب کا ترجمہ کیا ۔ اس کے علاوہ سینکڑوں کتب کی اشاعت ہے جن کی تفصیل ایشیاٹک سوسائٹی کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہے۔ 

اس وقت سوسائٹی کی لائبریری میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب کتب ہیں جس میں پوری دنیا میں شائع ہونے والی مختلف زبانوں کی کتب شامل ہیں۔ سب سے قدیم کتب 15 ویں صدی کی شائع شدہ ہے۔لائبریری میں 18 ویں اور 19 ویں صدی میں ہندوستان میں شائع ہونے والی تمام کتب بھی موجود ہیں۔لائبریری میں47000 قلمی مخطوطے 47 مختلف زبانوں کے بھی موجودہیں۔ لائبریری میں قرآن مجید کا اولین نسخہ جو کہ خط گلستان میں ہے بھی موجود ہے۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں کے دستخطوں سے کا قلمی نسخہ موجود ہے ۔اس وقت لائبریری میں رسائل وجرائد کی تعداد80,000 ہے۔

مزید علمی ادارے
ایشیاٹک سوسائٹی کے قیام کے بعد ہندوستان میں تحقیق کے مزید ادارے قائم ہونا شرو ع ہوگئے۔ 1804 میں گورنر جنرل لارڈ کولے نے بارک پور میں انسٹی ٹیوٹ آف نیچرل ہسٹری قائم کیا۔ جہاں ہندوستان بھر سے مختلف اقسام کے حیوانات، نباتات اور معدنیات اکٹھے کیے گئے۔
نومبر1804 میں سرجیمز میکنٹاش نے ایشیاٹک سوسائٹی کی طرز پر بمبئی لٹریری سوسائٹی کی بنیاد رکھی جس کی اپنی لائبریری اور بعد میں1815 کو علیحدہ سے میوزیم بنایا گیا۔
سنہ1818
میں مدراس میں لٹریری اور سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی گئی ۔
سنہ1823
میں لندن میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی قائم ہوئی جس کا مقصد ہندوستان میں ہونے والی سائنس پر تحقیق کا جائزہ لینا تھا۔
سنہ1826
میں ولیم کیری نے ایگریکلچر سوسائٹی کی بنیاد رکھی
سنہ1831
میں بمبئی جغرافیکل سوسائٹی کی بنیاد ڈالی گئی۔
سنہ1857
میں ایشیاٹک سوسائٹی کے زیر اہتمام کولکتہ میں جیالوجیکل میوزیم قائم کیا گیا۔ 
سنہ1848
میں بمبئی نیچرل ہسٹری سوسائٹی قائم ہوئی۔
سنہ1876
میں انڈین ایسوسی ایشن فار کلٹیویشن کا وجودعمل میں آیا۔ 
سنہ1881
میں پورے ہندوستان میں سائنٹفک سوسائٹیز کے قیام کا نوٹیکفیکشن جاری کیا گیا۔ 
سنہ1903
میں وائسرائے لارڈ کرزن نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس کے مطابق پورے ہندوستان میں قائم سائنٹفک سوسائٹیزکی تحقیق کو مربوط انداز میں زیر بحث لانا تھا جس کے لیے گورنمنٹ آف انڈیا نے بورڈ آف سائنٹفک ایڈوائس قائم کیا۔ 
سنہ1908
میں بنگلور انسٹی ٹیوٹ آف سائنسز کی بنیاد رکھی گئی جہاں الیکٹریکل ٹیکنالوجی ، بائیو کیمسٹری اور ان آرگینک کیمسٹری کے شعبے قائم ہوئے۔

ان سوسائیٹیوں کے قیام سے مقامی ہندوستانی عوام کو تحقیق و ترقی کے نئے مواقع میسر آئے ۔ اور یہ سب کچھ اس خطے میں انگریزوں کی آمدکے بعد ہی ممکن ہو سکا۔ جب مغل بادشاہ اور مقامی راجے مہاراجے اپنی عیش و عشرت کے لیے تاج محل جیسی عمارتیں، قلعے اور باغ تعمیر کروا رہے تھے وہیں انگلینڈ میں آکسفورڈ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آرہا تھا ۔

افسوسناک امر تو یہ ہے ان اداروں میں شاید ہی کوئی مسلمان آیا ہو کیونکہ وہ خود پرستی کا شکار تھے اور انگریزی زبان سمیت تمام مغربی علوم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ سرسید احمد خان نے 1875 میں جب علی گڑھ میں کالج بنایا اور مسلمانوں کو انگریزی سمیت دوسرے علوم پڑھنے کے لیے کہا تو پورے ملک کے علماء نے نہ صرف اس کی سخت مخالفت کی بلکہ انھیں انگریزوں کا ایجنٹ اور کافر قرار دیا اور یہ صورتحال آج بھی قائم ہے۔

ہمارے ہاں آج بھی ایک گروہ برصغیر میں انگریزوں کے قبضے کا سوگ منانے میں مصروف ہے تو دوسر اگروہ امریکہ اور مغربی ممالک پر لعن طعن کررہا ہے ۔ کوئی ڈیڑھ دوسو سال پیچھے کھڑا ہے اور کوئی ہزار سال پیچھے۔*

یہ مضمون، انٹر نیٹ پر موجود مختلف مضامین کی مدد سے لکھا گیا اور ماہنامہ نیا زمانہ ، کے مئی 2009 کے شمارے میں ہوچکا ہے

2 Comments