قرض میں ڈوبی معیشت اور معاشی ترقّی کا حصول

آصف جاوید

اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق  پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 91 ارب 76 کروڑ ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق جون 2017 سے مارچ 2018 کے دوران بیرونی قرضوں میں 8 ارب 33 کروڑ ڈالر کے اضافے سےقرضوں کا بوجھ  91 ارب 76 کروڑ ڈالر کی ریکارڈ سطح کو چھو گیا ہے۔ قرض کا یہ بوجھ مسلسل بڑھتا جارہا ہے، حکومت  کی جانب سے 2.75 ارب ڈالر   مالیت کے سکوک اور بانڈز بھی فروخت کئے گئے  ہیں۔  جن کی ادائیگیاں ، 2019ء، 2025ء اور 2036ء میں واجب الادا ہیں۔

نقصان میں چلنے والے اور قومی خزانے پر بوجھ حکومتی اداروں  پی آئی اے، اسٹیل ملز اور واپڈا کی کو بیل آئوٹ پیکیج دینے کیلئے حکومت نے 980 ارب روپے قومی خزانے سے ادا کئے ہیں۔ مسلسل نقصان میں چلنے والے ان اداروں کی نجکاری نہ ہونے سے ان حکومتی اداروں کے قرضے بڑھ کر 823 ارب روپے ہوگئے ہیں جو مسلسل بڑھتے جارہے ہیں۔

   آج پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات کی ادائیگیاں 25 کھرب روپے یعنی جی ڈی پی کا 78.7فیصد تک پہنچ گئی ہیں ، ان قرضوں  کی ادائیگیوں اور مالی مشکلات سے نکلنے اور مزید قرض لینے کیلئے کیلئے ہم اپنے موٹر ویز، ڈیمز، ایئرپورٹس اور دیگر قومی اثاثے ، قرضہ دینے والے اداروں کو گروی رکھواچکے ہیں۔  

ملک کی موجودہ معاشی صورتحال اور قرضوں کی ادائیگی کے پیش نظر پاکستان کیلئے ، ورلڈ بنک، آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکومت کی مشکل یہ ہے کہ سنہ 2005ء کے قرضوں کی حد کے قانون کے تحت حکومت جی ڈی پی کا 60 فیصد سے زیادہ ،قرضے نہیں لے سکتی لیکن ہمارے قرضے 65 فیصد تک پہنچ چکے ہیں۔   جبکہ ادائیگیوں کی لئے ہمارے پاس رقم نہیں ہے۔ 

ملک کو حاصل شدہ ریونیو میں سے مقامی و بیرونی قرضوں  کی ادائیگی اور دفاعی اخراجات کے بعد حکومت کے خزانے میں اتنی سکت ہی نہیں ہوتی کہ وہ  عوام کو زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے پینے کا صاف پانی کی فراہمی،  نکاسی آب کی سہولتیں،  تعلیم، صحت،  پبلک ٹرانسپورٹ،  اور سماجی سیکٹر میں فراہم کی جانے والی زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات   کی فراہمی کے لئے مناسب رقوم فراہم کر سکے، تاکہ  عام آدمی کے معیار زندگی میں بہتری نظر  آسکے۔

پاکستان کے ایک ممتاز صنعتکار و ماہر معاشیات   ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ایف بی آر کے 3500 ارب روپے کے ریونیو میں سے 1482 ارب روپے (42.36 فیصد)قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے گئے۔ دوسرے نمبر پر 775.86 ارب روپے دفاعی اخراجات اور تیسرے نمبر پر ترقیاتی منصوبوں کیلئے 661.29 ارب روپے خرچ کئے گئے۔ تجزیئے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ حکومت نے مقامی قرضوں پر 1,112 ارب روپے اور بیرونی قرضوں پر 1,118.4 ارب روپے سود ادا کئے جس سے یہ  بات ثابت ہوتی ہے کہ ہم قرضوں کے ناقابل برداشت بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں، اور ہمارا زیادہ تر ریونیو اور وسائل قرضوں اور سود کی ادائیگی میں چلے جاتے ہیں جس کی وجہ سے  ہمارے پاس ہیومن و سوشل ڈیولپمنٹ کے لئے کوئی رقم سرے سے بچتی ہی نہیں ہے۔ آج ملک کے مجموعی قرضوں اور واجبات کی ادائیگیاں 25 کھرب روپے یعنی جی ڈی پی کا 78.7فیصد تک پہنچ گئی ہیں 

قرض لینا بری بات نہیں،  قرض تو امریکہ، کینیڈا، جرمنی، برطانیہ اور جاپان بھی لیتے ہیں۔ امیر سے امیر ملک کو اپنی معیشت کے چیلنجز اور انفرا سٹرکچر کے قومی منصوبہ جات کو مکمّل کرنے کے لئے قرض لینا پڑتے ہیں۔  اگر یہ قرضے پانی ذخیرہ کرنے، بجلی پیدا کرنے کے لئے  ڈیمز بنانے ، پیداوار بڑھانے کے لئے صنعتی زونز قائم کرنے،   زراعت کے فروغ، اور دیگر ترقیاتی منصوبوں کیلئے لئے جارہےہوں اور مکمل ہونے کے بعد ان ہی منصوبوں سے حاصل شدہ آمدنی سے  قرضوں کی ادائیگی ہوسکے تو یہ قرضے ملکی مفاد میں  لئے جانے والے قرضے شمار ہوں گے۔

ہمارے یہاں المیہ یہ ہے کہ ہم قرضے کرنٹ اکاونٹ اور بجٹ خسارے کو پورا کرنے اور پرانے قرضوں کی ادائیگی کیلئے لئے لیتے ہیں۔ ہمارے یہاں  پیداوار بڑھانے کے لئےزرعی،  صنعتی و تجارتی  انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے ، معاشی ترقی  کو تیز کرنے  اور برآمدات بڑھانے کے لئے قرض لینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت کو مستقل بنیادوں پر قرضوں  اور بیرونی امداد پر نہیں چلا یا جاسکتا ہے۔  پاکستان کو ہر حال میں اپنی قومی  پیداوار میں اضافہ کرکے اپنی   برآمدات کو بڑھانا ہوگا،  دنیا کے ہر ملک کی قومی آمدنی کا انحصار قومی پیداوار  (اشیاء و خدمات) کی برآمدات پر ہوتا ہے، پاکستان کی برآمدات کی صورتحال یہ ہےکہ  ملکی برآمدات(ایکسپورٹس)  جو زرمبادلہ حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہوتی ہیں، 27 ارب ڈالر سے کم ہوکر 21 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ جبکہ پاکستان کی درآمدات (امپورٹس)   ریکارڈ اضافے سے 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں ہیں، تجارت میں عدم توازن کی وجہ سے  حکومت کو 31 ارب ڈالر سالانہ سے زائد کے تجارتی خسارے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر شدید دباو ہے۔  

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنی برآمدات بڑھائیں تو کیسے  بڑھائیں؟؟؟

برآمداتی تجارت کے لحاظ سے  پاکستان کی صورتحال بہت مایوس کن ہے،  برآمداتی اشیا کا کینوس  نہایت محدود اور ویلیو ایڈیشن بہت کم ہے۔    ہمارے پاس ایسا کیا ہے  جو کہ ہم فروخت کے لئے بین الاقوامی منڈی میں پیش کریں۔  ہماری تو یہ حالت ہے  کہ ہمارے پاس ٹیکسٹائلز  ، لیدر  ، سپورٹس اینڈ سرجیکل گڈز ، چاول اور معدنیات کے سوا اور کوئی قابل ذکر آئٹم ایکسپورٹ کے لئے  موجود ہی نہیں ہے۔ سروسز سیکٹر  (خدمات کا شعبہ)میں  بھی ہمارے پاس فروخت کے لئے کچھ موجود نہیں ہے۔   نہ ہی ہمارے  پاس انڈیا کی طرح   اعلی‘ پائے کی ہنر مند افرادی قوّت جیسے آئی ٹی ماہرین، بایو  اینڈ انڈسٹریل ٹیکنالوجسٹ، ایرواسپیس ٹیکنالوجسٹ، انٹرنیشنلی سرٹیفائیڈ  فارماسسٹ، ڈاکٹرز  موجود ہیں، نہ ہی ہم اب تک  آؤٹ سورس انڈسٹری میں قدم رکھ سکے ہیں۔  

نیا پاکستان بنانے کے دعویداروں کو  برآمدی اشیاء و خدمات کے  نئے آپشنز  تلاش کرنے کی شدید ضرورت ہے۔   نیا پاکستان بنانے والے مسترویوں اور ٹھیکیداروں کو انفرااسٹرکچر کھڑا کرنے ، بیرونی سرمایہ کاری لانے ، اسمال، میڈیم اور ہیوی انڈسٹریز قائم کرنے  اور  لائٹ اینڈ ہیوی انجینئرنگ کی مصنوعات، مشینری،  آٹو موبائل، اسٹیل پروڈکٹس، الیکٹریکل گڈز، الیکٹرونکس کا سامان، کیمیکلز، ٹرانسپورٹ، بحری و ہوائی جہاز سازی، ٹیلی کمیونی کیشنز ، آئی ٹی، فارما سیوٹیکلز سمیت  دیگر پروڈکٹس اور بایو ٹیکنالوجی ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سوفٹ ویئر انجینئرنگ، ایروسپیس، خلائی ٹیکنالوجی،  سیٹیلائیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن  ، آرکیٹیکچر اور بلڈنگ ڈیزائن کے شعبے میں اشیاء و خدمات  برآمد کرنے اور   عالمی معیار کی ہیومن ریسورس یعنی تربیت یافتہ افرادی قوّت جیسے ڈاکٹرز، فارماسسٹ، سائنسداں، فنّی ماہرین،  ٹیکنیشینز، انجینئرز، آرکیٹیکچرز،  ڈیزائنرز وغیرہ  کی تربیت اور  ایکسپورٹ پر توجّہ دینے کی ضرورت ہے۔

 مگر المیہ یہ ہے کہ نیا پاکستان بنانے والے مستریوں اور ٹھیکیداروں کے پاس ان چیلنجز  کا ادارک اور ان سے سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ پاکستان کو  بڑی مایوس کن صورتحال کا سامنا ہے۔

♥  

Comments are closed.