جنگ نہ ہونے دیں گے

طارق احمدمرزا

سنہ 1999 ء کے تاریخی معاہدہ لاہورپہ دستخط کرنے والے سربراہان حکومت میں سے ایک، اٹل بہاری واجپائی جی، تو قیدِِحیات سے ہمیشہ کے لئے آزاد ہوگئے لیکن دوسرے ،نوازشریف ،ان دنوں اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔دلی تمنا ہے کہ انہیں کامل صحت اور درازی عمرنصیب ہو،۔

نوازشریف نے اگلے روز اپنے ملاقاتیوں کو مبینہ طور پر بتایاکہ ایک ڈاکٹر ان کا چیک اپ کرنے جیل میں آیا تو اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھ سکااور بے اختیار روپڑا۔وجہ یہ بتائی کہ اسے گردشِ حالات پہ رونا آگیاتھا۔بیشک بڑی بات ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ مریض چاہے محل میں ہو یا قیدخانہ میں وہ مریض ہی ہوتا ہے،اورگوشت پوست کا ایک آدمی۔مکان سے مکین کی نہ تو عزت بنتی ہے اور نہ ہی گھٹتی ہے ۔ آدمی آدمی ہی ہوتا ہے ،جوبھی ہو اور جہاں بھی۔اور پھربیماری اور موت ایسی اٹل حقیقتیں ہیں جن کے سامنے اٹل بہاری جیسا اٹل بھی بے بس ہوجاتاہے۔

یہی بات اٹل جی اپنے اشعار میں کچھ یوں کہہ گئے تھے کہ:۔

آدمی نہ اونچا ہوتا ہے نہ نیچاہوتا ہے
نہ بڑاہوتا ہے نہ چھوٹا ہوتا ہے
آدمی صرف آدمی ہوتا ہے !۔

ہلکے پھلکے ،سیدھے سادھے بولوں میں گہری گہری باتیں کہہ جانے والے سٹیٹ مین،سیاست دان اور شاعر اٹل جی اپنی ایک کویتا میں آدمی کو ایک اوربڑی حقیقت کی یاددہانی کرواتے ہوئے کہتے ہیں:۔

جو کل تھے ،وہ آج نہیں ہیں
جو آج ہیں ،وہ کل نہ ہونگے
ہونے نہ ہونے کا کرم۔اسی طرح چلتا رہے گا
ہم ہیں،ہم رہیں گے ۔یہ بھرم سداپلتا رہے گا

اٹل جی چاہتے تھے کہ پرانی نسل جب تک ہے وہ نئی نسل کے بچوں کے سامنے اپنا پندار اور بھرم قائم ہی رکھے تو اچھا ہے۔بچوں کی آنکھوں کے سامنے ایک دوسرے کا،خصوصاًپڑوسیوں کا خون بہاناہرگز ہرگزاچھا نہیں۔جن صدموں کو ہم نے دیکھا ،اپنے بچوں کو تو ان سے محفوظ رکھیے:۔

ہم جنگ نہ ہونے دیں گے
وشوشانتی کے ہم سادھک ہیں،جنگ نہ ہونے دیں گے
کبھی نہ کھیتوں میں پھرخونی کھادپھیلے گی۔۔کھلیانوں میں نہیں موت کی فصل کھلے گی
آسمان پھرکبھی نہ انگارے اُگلے گا۔۔ایٹم سے ناگاساکی پھرنہیں جلے گا
یُدھ اور بین وشوکا سپنا بھنگ نہ ہونے دیں گے

ہم جنگ نہ ہونے دیں گے
بھارت پاکستان پروسی ساتھ ساتھ رہنا ہے۔۔پیارکریں یا وار کریں دونوں کو ہی سہنا ہے
تین بارلڑچکے لڑائی،کتنا مہنگا سودا۔۔روسی بم ہویا امریکی،خون ایک بہنا ہے
جو ہم پہ گزری بچوں کے سنگ نہ ہونے دیں گے
ہم جنگ نہ ہونے دیں گے

لیکن پتہ نہیں اٹل جی کی ان تمناؤں کوحسرتوں میں کیوں بدلاجا رہا ہے۔دونوں پڑوسیوں نے اپنے اپنے بچوں کے پیٹ کاٹ کاٹ کرایٹمی دھماکے کاہے کو کرڈالے۔کھلیانوں میں خونی کھادیں ڈالنے کا سلسلہ اب تک کیوں جاری ہے؟۔

بس میں بیٹھ کر دلی سے لاہورآنے والے دنیا کے واحدوزیراعظم واہگہ پہنچے تو پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہان خلاف توقع ان کے استقبال کے لئے پاکستانی وزیراعظم کے ہمراہ موجود نہ تھے۔پتہ نہیں وزیرخارجہ سرتاج عزیز نے عین اسی دن چین کے وزیردفاع کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کیوں مقرراور منعقد کررکھی تھی۔شاید یہ محض اتفاق تھا۔ظاہر ہے مسلح افواج کے سربراہان نے پیشہ ورانہ طورپراسی تقریب میں شرکت کو ترجیح دینا تھی۔اٹل جی کا استقبال کے لئے نوازشریف ہی کافی تھے۔لیکن پتہ نہیں یارلوگ ا یسے اتفاقات کو سازش کیوں قراردے ڈالتے ہیں۔

اور پھر پتہ نہیں کیوں لاہور معاہدہ کے بعد اگلے ہی برس اتفاق سے کارگل کی دہلیزپہ دونوں پڑوسیوں کی خونی مدبھیڑ ہو گئی۔غالباً یہ بھی اتفاق ہی تھا۔مجھے تو اس میں کوئی سازش نظر نہیں آتی۔ان باتوں کو چھوڑیں ، سنیں آنجہانی اٹل جی کیا کہہ گئے تھے :۔

ہتھیاروں کے ڈھیروں پر جن کا ہے ڈیرا
منہ میں شانتی بغل میں بم،دھوکے کا پھیرا
کفن بیچنے والوں سے کہہ دو چلّاکر
دنیا جان گئی ہے ،ان کا اصلی چہرہ
کامیاب ہوں ان کی چالیں،ڈھنگ نہ ہونے دیں گے
جنگ نہ ہونے دیں گے

افسوس کہ اٹل جی جیسا اٹل کوی بے نقاب ہوتے اصلی چہروں کے گہرے اور بڑے داغ دیکھ کر اتنا مایوس ہو ا کہ گم سم ہوکرگیت گاناہی چھوڑ بیٹھا:۔

بے نقاب چہرے ہیں۔داغ بڑے گہرے ہیں
ٹوٹتاطلسم،آج سچ سے (خوف) کھاتاہوں
گیت نہیں گاتاہوں
لگی کچھ ایسی نظر،بکھراشیشے ساشہر
اپنوں کے میلے میں میت نہیں پاتا ہوں
گیت نہیں گاتا ہوں

گیت گاناتووہ کب سے بند کر ہی چکے تھے،شیشے کے اس نگر میں آج سے اٹل جی کا چہرہ بھی دکھائی دینا بند ہوگیاہے ۔شاید شیشے کے پار ان کی آتما کو شانتی دکھائی دے گئی ۔
اٹل جی راہوراکشش تھے جو مکتی کی تلاش میں ریکھا پھاند گئے۔

میں تو حیران ہوں،اٹل جی اورایسی سازش ؟۔سچ مچ آپ تو بہت گہرے نکلے !۔

نوٹ:سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے شعری مجموعہ کا اردوایڈیشن مع ترجمہ وترتیب ’’جنگ نہ ہونے دیں گے‘‘ کے نام سے ڈاکٹرجمیل اخترنے لاہور سے شائع کیاتھا۔

Comments are closed.