شدت پسند مسلمان بچے، جرمنی کے لیے خطرہ

جرمنی کے داخلی سلامتی کے نگران خفیہ ادارے کے سربراہ نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں شدت پسند مسلم خاندانوں کے بچے معاشرے کے لیے ’سنگین خطرہ‘ ہو سکتے ہیں۔

جرمنی کے داخلی سلامتی سے متعلق خفیہ ادارے بی ایف وی (ادارہ برائے تحفظ آئین) کے سربراہ ہانس گیورگ ماسین کے مطابق شدت پسند مسلم گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے جرمن معاشرے کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ انہوں نے چھ اگست کے روز اپنے ایک بیان میں کہا، ’’مسلم شدت پسند گھرانوں میں پرورش پانے والے بچے جرمنی کے لیے کوئی چھوٹا خطرہ نہیں ہیں‘‘۔

فُنکے میڈیا گروپ کے جرائد میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بی ایف وی کے سربراہ نے کہا کہ بچوں اور نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحان میں ماضی کے مقابلے میں تیز رفتار اضافے کے اشارے مل رہے ہیں۔

جرمنی کے اس وفاقی انٹیلیجنس ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں قریب تین سو بچے اس صورت حال کا شکار ہیں۔ فُنکے میڈیا گروپ نے ملکی خفیہ ادارے کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے، ’’ان بچوں کو شروع سے ہی دنیا کی بابت شدت پسندانہ سوچ سکھائی جاتی ہے اور دیگر افراد کے خلاف تشدد کو جائز بتایا جاتا ہے‘‘۔

اس رپورٹ میں ایسے خاندانوں سے متعلق بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے جو مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں کا سفر کر چکے ہیں، جب کہ ان افراد کی بابت بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں، جو جرمنی میں ہیں۔

ماسین نے خبردار کیا کہ بچوں میں یہ ’جہادی تصورات‘ خطرات کا باعث ہیں اور آنے والے برسوں میں بڑے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔

اس ادارے کی رپورٹ کے تناظر میں چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین کے متعدد سیاست دانوں کی جانب سے یہ مطالبات بھی سامنے آئے ہیں کہ جرمنی میں سکیورٹی کی خاطر نگرانی کے لیے کم از کم عمر کی حد تبدیل کر کے 14 برس کر دی جائے تاکہ ایسے بچوں کی بھی نگرانی کی جا سکے۔

سی ڈی یو کے ایک سیاست دان پاٹرِک زینسبرگ کے مطابق، ’’اس مطالبے کا مطلب بچوں کو مجرم سمجھنا نہیں، بلکہ 14 برس سے کم عمر کے ایسے بچوں پر، جو ہمارے ملک کے لیے سنگین خطرات کا باعث بن سکتے ہیں، نگاہ رکھنا ہے۔‘‘

دوسری جانب جرمنی میں شہری حقوق کی ہیومنسٹ یونین نے ان مطالبات کو ’غیرضروری‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے بچے جمہوری دستوری نظام کے لیے خطرات کا باعث نہیں، ’’کیوں کہ کم عمری میں ان کے خیالات پختہ نہیں ہوتے اور ان کی سوچ میں مسلسل تبدیلی آتی رہتی ہے‘‘۔

DW

One Comment