کیا پاکستان عسکریت پسندوں کی حمایت سے باز آجائے گا؟

پاکستان میں حالیہ الیکشن کی فاتح جماعت پی ٹی آئی کے رہنما اور ممکنہ نئے وزیر اعظم عمران خان کے مطابق امریکا کے ساتھ تعلقات زیادہ ’قابل اعتماد‘ ہونا چاہییں۔ انہوں نے یہ بات پاکستان میں امریکی سفیر سے ایک ملاقات میں کہی۔

پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات نو اگست کو ملنے والی نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق پاک امریکی تعلقات میں ماضی میں اس وجہ سے خاصی کشیدگی پیدا ہو چکی ہے کہ امریکی الزامات کے مطابق پاکستان مبینہ طور پر افغانستان میں مذہبی عسکریت پسندوں کی حمایت کرتا ہے جبکہ اسلام آباد کی طرف سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی جاتی ہے۔

اس تناظر میں اب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور ممکنہ طور پر نئی ملکی حکومت کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کو زیادہ ’قابل اعتماد‘ ہونا چاہیے۔ انہوں نے یہ بات اسلام آباد متعینہ امریکی سفیر جان ایف ہوور کے ساتھ ایک ملاقات میں کہی، جو بدھ کے روز ہوئی۔

عمران خان، جن کی پارٹی پی ٹی آئی کی 25 جولائی کو ہونے والے قومی انتخابات میں کامیابی کے بعد بطور وزیر اعظم حلف برداری اگلے ہفتے متوقع ہے، نے امریکی سفیر کو بتایا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے باہمی روابط میں زیر و بم سے ’اعتماد کا فقدان‘ پیدا ہو چکا ہے، جسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔

واشنگٹن میں امریکی حکومت اسلام آباد کے خلاف اپنے الزامات کی وجہ سے ماضی میں پاکستان کے لیے سول اور فوجی امداد معطل بھی کر چکی ہے۔

اس پس منظر میں بدھ کو رات گئے عمران خان اور امریکی سفیر کی ملاقات کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں عمران خان کے حوالے سے کہا گیا، ’’میری پارٹی چاہتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات ایک دوسرے پر اعتماد اور دوطرفہ احترام  کی بنیاد پر استوار ہونا چاہییں۔ اسی لیے ہماری حکومت امریکا کے ساتھ مل کر ایسی کوششیں کرنا چاہے گی، جن کی مدد سے دوطرفہ تعلقات کو زیادہ متوازن اور قابل اعتماد بنایا جا سکے۔‘‘

ساتھ ہی عمران خان نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اور امریکا کے مابین سفارتی روابط کو بھی ایک نئی شکل اور ہیئت دینے کی ضرورت ہے۔ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے جان ایف ہوور کی عمران خان سے اس ملاقات کے بارے میں نہ تو کوئی تبصرہ کیا ہے اور نہ ہی اس ملاقات کے بعد پارٹی بیان پر کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہیے؟ اس کا فیصلہ پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے اور خارجہ پالیسی مکمل طور پر فوجی ایسٹیبشلمنٹ طے کرتی ہےجو سیاستدانوں کی دخل اندازی کو سخت ناپسند کرتی ہے۔پاک امریکہ تعلقات میں عمران خان کا کوئی خاص کردار نہیں ہوگا۔ عمران خان ماضی میں امریکہ پر سخت تنقید کرتےآئے ہیں جو کہ بنیادی طور پر فوجی ایسٹیشبلمنٹ کی ہی پالیسیوں کی تائید میں ہی ہوتا تھا۔

اس سال جنوری میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں اس وقت مزید کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹر پر اپنےایک پیغام میں اسلام آباد پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ اور اس بارے میں بظاہر زیادہ سخت طرز عمل اپنانے سے متعلق دراصل ایک دوہرا کھیل یا ’ڈبل گیم‘ کھیل رہا ہے۔

اپنی اسی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے یہ بھی لکھا تھا کہ امریکا نے ’بے وقوفی کرتے ہوئے‘ پاکستان کو گزشتہ 15 برسوں میں 33 ارب ڈالر سے زائد کی امداد دی، لیکن جواب میں اسے (پاکستان سے) ’جھوٹ اور دھوکے بازی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملا‘۔

DW/News Desk

Comments are closed.