خارجہ پالیسی کا فوکس تبدیل کرنا ہوگا

آصف جاوید

کابینہ کی تشکیل کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان سامنے آیا ہے کہ خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں بنے گی۔  وزیرِ خارجہ کی خدمت میں عرض ہے کہ خارجہ پالیسی پہلے بھی دفترِ خارجہ میں  ہی بنتی تھی، مگر  آپ کے وزیرِ خارجہ بننے کے بعد اب سوال یہ ہے  کہ خارجہ پالیسی کے خدوخال اور ترجیحات کون طے کرے گا؟   آپ کی سول حکومت یا  دفترِ خارجہ پر مسلّط دیدہ و  نادیدہ قوّتیں؟؟؟

کسی بھی ملک کی  معاشی ، تجارتی اور سماجی ترقّی کے لئے خارجہ پالیسی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ خارجہ پالیسی میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلّقات اور تجارت کو  کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔بین الاقوامی تعلّقات میں معاشی و سماجی ترقّی کے مفادات کو  کلیدی حیثیت حاصل ہوتی  ہے۔

دنیا کے ہر ملک میں خارجہ پالیسی کا شعبہ ملک کے  بہترین اقتصادی، تجارتی، معاشی، سماجی، سیکیورٹی اور بین الاقوامی تعلّقات کے ماہرین  کی صلاحیتوں   سے  تشکیل دیا جاتا ہے۔  فوجی وردی میں ملبوس جنگجو دفاعی پالیسی تو تشکیل دے سکتے ہیں، خارجہ پالیسی کی تشکیل ان کا ڈومین نہیں ہے۔ خارجہ پالیسی ملک کے مجموعی معاشی، تجارتی، سماجی اور سیکیورٹی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے تشکیل دی جاتی ہے۔ خارجہ پالیسی تشکیل دیتے وقت صرف سرحدوں کا ہی نہیں بلکہ عوام کے مفادات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ملک میں پچھلے 21 سالوں سے خارجہ پالیسی نادیدہ قوّتوں کے براہِ راست  کنٹرول میں ہے۔  پچھلے 21 سالوں میں بڑی بے رحمی کے ساتھ ملک کے سماجی، معاشی وتجارتی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر صرف اور صرف پاکستان کے سکیورٹی  مفادات کو ہی کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔دہشت گردی کی سرپرستی، پشت پناہی اور پروکسی کے ذریعے پڑوسی ملکوں کو متنفّر اور بے زار رکھا گیا۔ آج عالم یہ ہے کہ عالمی برادری میں ہم تنہائی کا شکار ہیں۔

ہماری برآمدات 27 ارب ڈالر سے گر کر 21 ارب ڈالر پر پہنچ گئی ہیں، ہماری درآمدات 52 ارب ڈالر کی سطح کو چھو رہی ہیں، ملک کو 30 ارب ڈالر سے زیادہ تجارتی خسارے کا سامنا ہے، ہمارے قرضے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔  قومی آمدنی کا زیادہ تر حصّہ دفاعی اخراجات اور قرض کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ پوری دنیا میں ہماری پہچان دہشت گردی کے سرپرست ملک کی حیثیت سے رِہ گئی ہے۔

اپنی برآمدات کو بڑھانے اور تجارتی خسارہ کم کرنے کے لئے ہمارے پاس برآمدی اشیاء و خدمات کے نئے آپشنز  موجود نہیں ہیں۔ صرف ٹیکسٹائلز،لیدر،سپورٹس اینڈ سرجیکل گڈز،کینو، آم، چاول اور معدنیات کی ایکسپورٹس  سے تجارتی خسارے کو کم نہیں کیا جاسکتا۔  ہمیں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلّقات بہتر بنا کر مقامی  ضروریات کی تجارت بڑھانے اور  اپنے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لئے ان ممالک کی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی ضرورت ہے۔

پڑوسی ممالک کی تجارتی منڈیوں اور  اور ان ممالک  کی صنعتوں کی خام مال کی ضروریات   کو پورا کرکے بھی ہم بہت کم وقت میں اپنی معیشت کو ترقّی دے سکتے ہیں۔  پڑوسی ممالک کے ساتھ دو طرفہ تجارت سے ہم نہ صرف اپنی برآمدات بڑھا سکتے ہیں بلکہ اپنے ملک کی صنعتوں کے لئے سستے خام مال کی فراہمی کا   بندوبست بھی کرسکتے ہیں۔  اپنے کارخانوں کی پیداوار بڑھا سکتے ہیں۔

ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد اسٹرٹیجک مفادات ہیں۔ ہمارا خارجہ پالیسی کا محور ایک احمقانہ ڈاکٹرائن چین سے دوستی، انڈیا سے دشمنی پر قائم ہے۔   ہماری خارجہ پالیسی ملک کے  مجموعی  معاشی،تجارتی اور سماجی  مفادات کو پیش نظر رکھ کر نہیں  بنائی جاتی ہے، بلکہ صرف  سکیورٹی خطرات ہی کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔   ملک کے سماجی معاشی اور تجارتی مفادات  کی پرواہ نہیں کی جاتی ہے۔ مسئلہ کشمیر اور انڈیا سے تجارتی روابط ایک تنے ہوئے رسّے پر کرتب دکھانے کے مترادف  ہیں ۔ ہمیں اس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنا ہوگا، 70 سال ضائع ہوچکے ہیں، مزید ضائع نہیں کرسکتے۔ ہمیں اقتصادی بدحالی سے نکل کر سماجی ترقّی اور 22 کروڑ انسانوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر فوکس کرنا ہوگا۔  

پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلّقات میں ہماری خارجہ پالیسی  بالکل ناکام ہے۔  مغرب میں ایران، افغانستان اور  مشرق میں انڈیا جیسے بڑے ملک کے ساتھ  ہم آج تک مفاہمانہ سماجی و معاشی تعلّقات استوار نہیں کر سکے ہیں۔ صرف چین کے ساتھ اسٹرٹیجک مفادات کا سودا کرکے ہم اپنی معیشت گلا گھونٹ رہے ہیں۔  30 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے اور 95 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضے  سے نجات کے لئے خارجہ پالیسی ، معاشی پالیسی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔

ہمیں دہشت گردی کی سرپرستی ، اور  پڑوسیوں کے ساتھ پراکسی  دشمنی سے علی الاعلان دستبرداری کرنی ہوگی۔سٹرٹیجک کی بجائے ٹریڈ اینڈ  اکنامکس کو فوکس بنانا ہوگا۔ دہشت گردی خواہ کسی بھی ذریعے سے ہو اس کی کھل کر مذمت  کرنی ہوگی۔ اگر خارجہ پالیسی کا فوکس تبدیل نہیں کیا گیا تو ہم مزید مشکلات کا شکار ہوں گے۔


2 Comments