کشمیر۔ چھ اندھوں اور ہاتھی کی کہانی 

بیرسٹر حمید باشانی

ستر برس بیت چکے۔ اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ستر برسوں میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پاکستان میں کسی نے کوئی قابل ذکر عہدہ لیا ہو، اور پہلی عوامی رونمائی پر مسئلہ کشمیر کا ذکر نہ کیا ہو۔ ان عہدے داروں میں تمام وزارئے اعظم، وزرائے خارجہ اور صدور کا شامل ہونا تو لازم ٹھہرتا ہے۔ مگر اپنی اولین رونمائی میں وزراء، چھوٹے موٹے حکومتی اہل کار، سیاسی جماعتوں کے عہدے دار، غیرسیاسی انجمنوں کے نو منتخب لیڈر، طلبا تنظیموں کے نمائندے اور یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے محلے کی کمیٹی یا انجمن تاجران کا صدر بھی اپنی حلف وفادری کے بعد پہلا بیان کشمیر پر ہی دیتا ہے۔ 

اگر اس طرح کے بیانات کو جمع کیا جائے تو یہ ہزاروں صفحات پر مشتمل کتاب بن سکتی ہے۔ چنانچہ یہ بیان دینا تو رسم ٹھہری۔ ماضی میں مختلف حکمران یہ رسم بخوبی نبھاتے رہے۔، مسئلہ کشمیر کے حل کا عزم ظاہر کرتے رہے۔ اب عمران خان بھاری عوامی منڈیٹ لیکر آئے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی پہلی تقریر میں کشمیر پر بات کی۔ کئی بار ان سطور میں عرض کیا، اور یاد دہانی کے لیے پھرعرض ہے کہ ایک حاکم وقت جس کے پاس قوم کابھاری مینڈیٹ ہو، اور وہ دل سے کشمیر پر رسمی کاروائی سے آگے بڑھنا چاہتا ہو، تو اس کے لیے یہ بیان کافی نہیں کہ ہم مسئلہ کشمیر حل کریں گے۔ 

ایسا کرنے کے لیے تین سولات کے دو ٹوک جوابات ضروری ہیں۔ پہلا سوا ل یہ کہ حاکم وقت کے نزدیک مسئلہ کشمیر ہے کیا ؟ دوسرا یہ کہ مسئلہ کشمیر کا حل کیا ہے ؟ اور تیسرا یہ کہ یہ حل کیوں کر قابل عمل اور فریقین کے لیے قابل قبول ہو گا۔ ان سوالات کے جواب اس لیے ناگزیر ہیں کہ فی الوقت جسے ہم مسئلہ کشمیر کہتے ہیں، اس کی ہر فریق کی اپنی الگ الگ تعریف ہے۔ اپنا الگ حل ہے۔ 

مسئلہ کشمیر اس ہاتھی کی طرح ہے جس کے بارے میں کچھ اندھے جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ ہاتھی ہوتا کیسا ہے ؟، اور اسکے جسم کے مختلف حصے ٹٹول کر وہ ہاتھی کی شکل کے بارے میں اندازہ لگا نے کی کوشش کرتے ہیں، اور اپنے اپنے اندازے کے مطابق اس کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ چھ اندھوں اور ہاتھی کی یہ کہانی بہت پرانی ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب سے پہلے بدھ ازم کی مقدس تحریروں میں سامنے آئی، لیکن یہ اس سے بھی کئی پرانی ہے، جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی۔ بدھ ازم کے بعد یہ ہندو ازم اور جین ازم کی مقدس کتابوں میں بھی بیان ہوئی۔ اس کے مختلف ورشن صوفیا کرام کے کلام اور تحریروں میں پائے جاتے ہیں۔

مگر یہ کہانی اس وقت عالی سطح پر متعارف ہوئی جب ایک امریکی شاعر جان گاڈفرائی سیکس نے انیسویں صدی میں اس کہانی کو بنیاد بنا کر ایک معرکہ آراء نظم لکھی تھی۔ یہ نظم اگرچہ بنیادی طور پر مذاہب کے اندر سچ کی تلاش، خدا کی پہچان اور مذہبی رواداری کے بارے میں ہے۔ لیکن اس کا اطلاق اس طرح کے اختلافی سیاسی مسائل پر بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ نظم بنیادی طور پر ایک ہندوستانی قصہ کہانی یا تمثیل پر ہے۔ یہ چھ اندھوں کی کہانی ہے، جو ہاتھی کے مختلف جسمانی حصوں کو چھو کر اس کے بارے بارے میں اپنا اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں۔

پہلا اندھا آگے بڑھتا ہے، اور ہاتھی کے لمبے چوڑے جسم پرہاتھ پھیر کر کہتا ہے، خدا مجھ پر رحم کرے، ہاتھی ایک دیوار کی طرح ہے۔ دوسرا ہاتھی کے دانت کو چھوتا ہے، اور ہاتھی کو نیزہ کی طرح بتاتاہے، تیسرا ہاتھی کے صرف سونڈ کو چھو تا ہے، اور اعلان کرتا ہے کہ ہاتھی دراصل سانپ کی طرح ہوتا ہے۔ چوتھا ہاتھی کی ایک ٹانگ چھو کر اس کو درخت کی طرح قرار دیتا ہے، پانچواں ہاتھی کا کان چھو کر اسے پنکھے کی طرح سمجھتا ہے۔ چھٹا اندھا ہاتھی کی دم چھو کر اعلان کرتا ہے کہ ہاتھی تورسی کی طرح ہوتاہے۔ اس طرح ہندوستان کے یہ چھ لوگ آپس میں الجھتے ہیں۔ بحث کرتے ہیں۔ہر ایک اپنے درست ہونے کی قسم کھاتا ہے۔ اسے اس سچ کا یقین ہے جو اس نے اپنے ہاتھوں سے چھو کر محسوس کیا ہے، پرکھا ہے ۔ جزوی طور پر اپنے تجربے ، مشاہدے اور محدودعلم کی روشنی میں یہ سب کے سب اپنی جگہ درست ہیں۔ کلی طور پر سب غلط ہیں۔ وہ جز کو کل سمجھے، اور کل کی کوئی تصویر ان کے ذہنوں میں ہے ہی نہیں۔

یہ پرانی داستان مسئلہ کشمیر پر بہت حد تک صاد ق آتی ہے۔ ہم سب اپنے اپنے تجربات، مشاہدات اوور خواہشات کے مطابق کشمیر کو دیکھتے ہیں۔ اور جس کی نظر اس کے جس پہلو تک جاتی ہے، اس کے نزدیک وہی مسئلہ کشمیر ہے۔ اس طرح مسئلہ کشمیر پر ہر فریق کے اپنے تاریخی حقائق، اپنے قصے کہانیاں ہیں۔ اپنے اپنے متضاد اعداو شمار ہیں۔ اور اس کے نتیجے میں متضاد نتائج ہیں، متصادم حل ہیں۔ اس طرح حقیقی دنیا میں اس وقت کشمیر کی تاریخ، جغرافیہ، موجودہ صورت حال اور مستقبل کے بارے میں دو درجن سے زائد بیانیے موجود ہیں۔ 

ان میں سے سے کم ازکم دس بیانیے ایسے ہیں، جن کو مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی حتمی حل ڈھونڈتے وقت نظر اندا زنہیں کیا جا سکتا۔ یہ دس قسم کے بیانیے بھارت، ریاست جموں کشمیر، آزاد کشمیر اور پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ کالم کی تنگ دامانی ان دس بیانیوں کے تجزئیے کی متحمل نہیں۔ ہر ایک بیانیے کے تجزئے کے لیے ایک سے زائدکالموں کی ضرورت ہو گی۔ ان متضاد خیالات اور متصادم بیانیوں کی موجود گی میں فریقین کی اکثریت کو کسی ایک حل پر متفق کرنا ایک کٹھن اور پر پیچ کام ہے۔ مگر اس دقیق اور صبر آزما کام کے آغاز سے پہلے خود حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کون سا حل ہے، جو قابل عمل ہے، جس پر فریقین کا اتفاق ممکن ہے۔ حل کا تعلق اپروچ سے ہے۔

ہمارے ہاں مسئلہ کشمیر پر دو قسم کی اپروچ پائی جاتی ہے۔ ایک روایتی سوچ جو ستر سال سے موجود ہے، اور اس عرصے میں اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس سوچ کے مطابق مسئلہ کشمیر فقط یہ ہے کہ بھارت ریاست جموں کشمیر کے لوگوں کو رائے شماری کے ذریعے یہ طے کرنے کا موقع دے کہ وہ بھارت یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔ دوسرا حل غیر روایتی ہے۔ اس غیر روایتی حل پر یوں تو ہر دور میں سوچ بیچار ہوتی رہی۔ مگر پہلی بار جنرل مشرف کے دور میں ملک کی طاقت ور اور با اثر قوتوں کی حمایت سے اس سوچ کو ایک فارمولے کی شکل میں سامنے لایا گیا۔

مشرف دور کے کئی اہل کار تسلیم کرتے ہیں کہ اس نئی اور غیر روایتی سوچ کی بنیاد پر وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے تھے۔ مگر پاکستان اور بھارت میں حکومتوں کی تبدیلی کی وجہ سے یہ مسئلہ پھر کٹھائی میں پڑھ گیا۔ نئی حکومت کو مسئلہ کشمیر کا حل ڈھونڈنے کے پر مشقت کام کا بیڑا اٹھانے سے پہلے یہ بات ملحوظ خاطر رکھنی چاہیے کہ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے اور صرف اپنی پسند کے حل پر اصرار سے اس طرح کے پیچیدہ مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔ جہاں دو طاقتوں کے درمیان کسی ایسے حساس معاملے پر ڈیڈلاک یا تعطل ہو، وہاں نئے حل اور نئے راستے تلاش کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

مسئلہ کشمیر کے حل سے صرف کشمیری عوام کے دکھ درد ہی دور نہیں ہوتے، بلکہ اس سے پورے برصغیر کے عوام کے مقدربدل سکتے ہیں ۔ برصغیر سے غربت کے خاتمے، امن اور ترقی کی خواہش رکھنے والوں کو اس مسئلہ کا حل تلاش کرنا ہوگا۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی صرف بات ہی کافی نہیں۔ حل کا ایک نقشہ بھی ضروری ہے۔ یہ حل موجودہ دور کے زمینی حقائق اور انسانی ضروریات کی روشنی میں تلاش کیا جا سکتا ہے، وزارت خارجہ کی فائلوں یا تلخ تاریخی واقعات میں نہیں۔ مگر کسی بھی پیش رفت سے پہلے خود حکمرانوں کے ذہن میں یہ مسئلہ حل کرنے کا ایک مضبوط عزم اور واضح روڈ میپ بہت ضروری ہے۔ اور یاد رہے کہ محدود دائرے سے باہر نکل کر سوچے بغیر اس کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا۔

One Comment