گلگت بلتستان کی محرومیاں اور دانشوروں کی ہرزہ سرائی

علی احمد جان

تقسیم برصغیر کے بعد اگر پاکستان ریڈ کلف کی باؤنڈری کمیشن کے نقشے تک محدود ہوتا تو آج شائد دنیا کا نقشہ بھی وہ نہ ہوتا جو اس وقت ہے۔ سوویت یونین میں شامل ملک تاجکستان کے شہردوشنبہ اور سوشلسٹ نظریات کے زیر اثر بھارت کے دارالحکومت دہلی کے درمیان زمینی رابطہ نہ صرف روس کو ہندوستان کے گرم پانیوں تک رسائی دیتا بلکہ افغانستان میں سرخ فوجیوں نے جو دھول چاٹی وہ نوبت بھی نہ آئی ہوتی۔

مگر 26 اکتوبر1947 کو مہاراجہ کشمیر کی ہندوستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخطوں کے بعد ہمالیہ، کوہ قراقرم اور ہندوکش کے سنگھم پر واقع بونجی میں مقیم ڈوگرہ فوج میں ایک کامیاب بغاوت نے سب کچھ بدل ڈالا ۔ گلگت میں مہاراجہ جموں و کشمیر کے نمائندے بریگیڈئیر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری اور 72000 کلو میٹر کے علاقے کا پاکستان کے ساتھ الحاق وہ اقدام تھا جس کے بغیر نہ اس وقت روس کے عزائم کو روکا جاسکتا تھا اور نہ آج سی پیک کے نغمے گائے جا سکتے تھے۔ اگرگلگت میں چند سو لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حاکم وقت کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا ہوتا تو آج نہ روس افغانستان میں شکست سے دو چار ہوتا اور نہ ہی چین کے ساتھ پاکستان کی ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی ہوتی۔

دنیا کے مستقبل کا نقشہ بدلنے والے گزشتہ ستر سالوں سے اپنی شناخت اور پہچان تک کھو چکے ہیں ۔ بلند و بالا پہاڑوں، بہتے دریاوں اور آبشاروں ، قدرتی جنگلات اور معدنیات کے خزانوں پر مشتمل سر زمین کو مملکت پاکستان میں شامل کرنے کی حسرت لئے اس علاقے کے باسیوں کی تیسری نسل بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہے ۔

آج بھی گلگت بلتستان میں اکیسویں صدی میں ایک بھی ثانوی درجے (ٹرشری لیول) کاکوئی ایسا ہسپتال نہیں جہاں امراض قلب یا دیگرموزی امراض کا علاج ممکن ہوسکے۔راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، ایبٹ آباد، لاہور اور کراچی کےسرکاری اور نجی ہسپتالوں میں ہر وقت گلگت بلتستان کے لوگ اپنے علاج معالجے کے لئے خوار ہوتے عام نظر آتے ہیں۔گلگت بلتستان میں بچوں میں ہی شرح اموات ہی نہیں بعض علاقوں میں زچہ و بچہ کے نگہداشت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے دوران پیدائش ماؤں کی شرح اموات بھی پورے ملک سے زیادہ ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں گلگت بلتستان کے ہزاروں طلبہ نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے اور رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے اپنے علاقوں میں تعلیم کی سہولیات میسر نہیں۔ یہ علاقے آج بھی پینے کے صاف پانی اور بجلی جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ پن بجلی کے چھوٹے منصوبے جو ہر گاؤں اور محلے میں لگاکر مفت بجلی پیدا کی جاسکتی ہے مگر وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہاں کے لوگ زندگی اندھیرے میں گزارنے پر مجبور ہیں۔

ہندوستان اور پاکستان کے بیچ کشمیر کے تنازعہ پر اقوام متحدہ کے کمیشن (یو این سی آئی پی) کی قرار داد کے مطابق کشمیر پر استصواب رائے تک ایک مقامی اتھارٹی کا قیام لازمی ہے جو یہاں کے لوگوں کی فلاح و بہبود اور یہاں بنیادی انسانی حقوق اور ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنائے ۔ گلگت بلتستان میں2009ء میں ایک صدارتی فرمان کے تحت نیم خود مختار غیر آئینی صوبائی حکومت قائم کی گئی تھی مگر2018ء میں ایک اور صدارتی فرمان کے تحت اس علاقے کے لوگوں کی جان و مال کا مالک اب ایک ایسا وزیر اعظم ہے جس کے انتخاب اور احتساب میں یہاں کے لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس یک طرفہ شاہی فرمان کو نہ کسی عدالت میں چیلنج کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی قانون کے تحت اس پر نظر ثانی ہوسکتی ہے ۔

جب یہاں کے پڑھے لکھے لوگ اس ناانصافی، جبر اور استبداد کے خلاف بولتے ہیں تو ان پر ملک (پاکستان) کے خلاف بغاوت ، سازش اور جاسوسی کے قوانین کے تحت مقدمات بنائے جاتے ہیں اور ان کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ لکھاریوں، تجزیہ نگاروں، سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں پر انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت مقدمات بنائے جاتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے قانون کا شیڈول 4 جس کے تحت مذہبی منافرت پھیلانے والوں کی نقل و حرکت کو روکنا مقصود تھا مگر یہاں پر اس کا استعمال اپنے حقوق کی بات کرنے والوں پر ہوا ہے ۔

ہنزہ جو یہاں کا سب سے پر امن ضلع ہے جس کی تعریف و توصیف دنیا بھر میں کی جاتی ہے اس کو گزشتہ تین سالوں سے بغیر عوامی نمائندگی کے رکھا گیا ہے ۔دیامر کا ضلع جو تعلیمی لحاظ سے پورے ملک کے پسماندہ ترین اضلاع میں شامل وہاں ایک رات میں13 سکول تباہ کئے گئے لیکن ابھی تک مجرم قانون کی گرفت میں نہ آسکے۔ دوسری طرف ہمارے دفاعی امور کے ماہرین کو بلتستان کے مشرق وسطیٰ میں کام کرنے والے مزدور دہشت گرد نظر آنے لگے ہیں۔

گلگت بلتستان میں اظہار رائے اور توہین مذہب کے قوانین کے غیر منصفانہ اطلاق پر جس طرح اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ میں جائزہ لیا گیاہے وہ پاکستان کے حکام، عسکری اداروں ، دانشوروں ، لکھنے والوں ، سیاست دانوں اور صحافیوں کے لئےلمحہ فکریہ اس لئے بھی ہے کہ اس رپورٹ میں ایک طرف مقبوضہ کہلانے والے کشمیر کے حصے میں ہندوستان کی طرف سے کی جانے والی متشددانہ کاروائیوں کا ذکر ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان میں انسانی حقوق بشمول اظہار رائے کی آزادی پر لگائی قد غن اور سیاسی کارکنان اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی زبان بندی کا الزام بھی ہے جس کا جواب دئے بغیر ہندوستان پر پاکستان کی اخلاقی و سیاسی سبقت نہیں ہوسکتی۔

تمام تر سیاسی، قانونی، آئینی حقوق کی غیر موجود گی میں اپنی شناخت کے بغیر 72000 مربع کلومیٹر کے خطے میں رہنے والوں کوپاکستان کے نام نہاد دفاعی امور کے ماہرین اور دانشوروں کی طرف سے کسی دوسرے ملک کا جاسوس قرار دینا اور ان کی وفاداریوں پر شک کرنا انتہائی مایوس کن ہے ۔ ان صاحب علم و بصیرت دانشوروں اور ماہرین سے صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر اپنی شناخت اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم لوگوں کی داد رسی نہیں کرسکتے تو ان کے زخموں پر نمک پاشی بھی نہ کرو۔

Comments are closed.