غریب کیوں غریب کو لوٹ رہا ہے ؟

بیرسٹر حمید باشانی

غریب عوام کی حکایت کون بیان کرے۔ ان کے مصائب کی کہانی کون سنائے۔ دانشور فقط بڑے لوگوں اور بڑے واقعات کو بیان کرنا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ بات صرف کرنٹ افئیرزتک ہی محدود ر ہتی ہے، اور کرنٹ افئیرز اب صرف بڑے لوگوں کی حرکات و سکنات کا نام ہے۔ خواہ یہ حرکات و سکنات کتنی ہی غیر اہم کیوں نہ ہوں۔

کوئی یہ سوال اٹھائے کہ ایک وزیر اعظم کی اپنے مشیر سے ملاقات میں کیا خبریت ہے۔ یا وزیر اعظم کی اپنے ہی کابینہ کے کسی وزیر سے ملاقات خبر کیسے بن جاتی ہے، اور خبر بھی ایسی کہ صفحہ اول پر چھپے۔ یہ معمول کے کام ہیں۔ روزمرہ کا کار منصبی ہے، اس میں خبر کیا ہے۔ یہی بات بڑے لوگوں کے بیانات پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ لوگ عوام کے اعصاب پر مسلسل سوار رہنا چاہتے ہیں۔ خبر نہ سہی بیان ہی سہی، مگر ہر روز ان کا قومی اخبارات کے صفحہ اول پر نمودار ہونا ضروری ہے۔

ممکن ہے مدیران کرام یہ سمجھتے ہوں کہ یہ روش تو ایک مدت سے جاری ہے، اب ہماری صحافتی روایت بن گئی۔ اب اس کو بدلنا مشکل ہے۔ اور اس میں ان کو شاید کوئی ایسی قباحت بھی نہیں نظر آتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ اخبارات کی ساری نمایاں جگہیں ایسے ہی بیانات اور ایسی ہی خبروں کی نظر ہو جاتی ہیں۔ قباحت اس میں مگر یہ ہے کہ اس وجہ سے بہت سی ایسی خبروں اور کہانیوں کے لیے اندرون صفحات میں بھی جگہ نہیں رہتی ، جو عام لوگوں کے لیے انتہائی اہم ہوتی ہیں۔

عام آدمی کی زندگی اور موت کے مسائل کو وہ جگہ نہیں ملتی جو سیاست دانوں کے فرسودہ اور گھسے پٹے فقروں کو بار بار دہرانے میں استعمال ہوتی ہے۔ چنانچہ ہمارے ہاں بہت ہی گھمبیر قسم کے سماجی اور معاشی مسائل ایسے ہیں جو عدم توجہ کی وجہ سے سے موجود ہیں ، اور روش برقرار رہی توصدیوں تک موجود رہیں گے۔ اس کی ایک مثال جہیز ہے۔ آج کل تو اس طرح کے مسائل پر لکھنا آوٹ آف فیشن سمجھا جاتا ہے۔

جہیز بنیادی طور پر ایک سماجی برائی ہے، مگر اس کو ہمارے عوام کے ایک وسیع حلقے میں ایک مقدس روایت یا ناگزیر سماجی ضرورت بنا دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ اسے مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ جہیز کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے۔ عدالتوں میں بھی یہ امر فیصل شدہ ہے۔ مگر یہ وبا ہر گھر، ہر بستی میں موجود ہے۔ جو جتنا زیادہ غریب ہے اس نے اتنا ہی زیادہ یہ روگ پال رکھا ہے۔ 

پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں بلا تفریق مذہب یہ روگ شدت سے موجود ہے۔ دوسرے ممالک میں بھی اس کی کوئی چھوٹی موٹی شکل موجود ضرور ہے، مگر وہ عالم نہیں جو یہاں ہے۔ بر صغیر میں اس سماجی مسئلے کا اتنی شدت سے موجود ہونے کی تاریخی وجوہات ہیں۔ قدیم ہندو مت میں یہ رواج ابتدا ہی سے موجود تھا۔ چونکہ ہندو مت میں خاندانی وراثت میں لڑکیوں کو ان کا حصہ نہیں دیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس کے بدلے شادی کے وقت ان کو نقدی، ز یورات یا دوسری گھریلو اشیا کی شکل میں کچھ نہ کچھ دے دیاجاتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سماج کی ہر پرت کی لازمی رسم بن گئی۔ اور اب بھی وسیع پیمانے پر موجود ہے، جس نے بر صغیر میں کروڑوں غریب لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ 

ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جہیزغربت زدہ عوام کے ان انتہائی خوفناک مسائل میں سے ایک ہے، جن کے حل کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس مسئلے کو ذرائع ابلاغ کی مناسب توجہ، حساسیت اور قانون کی حکمرانی سے بڑی حد تک ختم کیا جا سکتا ہے۔

قانون کی حکمرانی اس لیے کہ پاکستان ، بھارت اور بنگلہ دیش میں قانون کی کتابوں میں جہیز کے خلاف معقول اور سخت قوانین موجودہیں۔ بھارت میں اس کے خلاف1961 میں قانون بنایا گیا تھا۔ اس قانون پر حسب روایت پورا عمل نہ ہونے کے باوجود اس سماجی برائی میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان میں یہ قانون 1976 میں متعارف کروایا گیا تھا۔ تب سے یہ قانون بڑی حد تک صرف کتابوں میں موجود ہے۔ اور اس کا عملی اطلاق نہ ہونے کے برابر ہے۔

قانون کی حکمرانی کا فقدان اور اسے نظر انداز کرنے کی روایت ہمارے ہاں بہت گہری ہے۔ صرف سنگین جرائم کی صورت میں ہی قانون حرکت میں آتا ہے، اور عام رحجان یہ ہے کہ جہیز کے ساتھ جڑی قانون کی خلاف ورزیوں کو معمولی بات سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ جب تک اس ماینڈ سیٹ کو بدلا نہیں جاتا، ہم ایک ہی دائرے میں گھومتے رہیں گے۔ قانون نافذ کرنے والے ا داروں کو یہ سکھانا اور باور کروانا ہو گا کہ قانون میں کوئی جرم چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا۔ جرم کی سزا اس کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے ضروردی جاتی ہے، مگر جو کچھ قانون میں منع ہے، وہ منع ہے۔ یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس ممانعت کو یقینی بنائیں۔ اس ضمن میں قتل کرنا اور سرخ بتی پار کرنا برابر ہے۔ دونوں بنیادی طور پرجرم ہیں۔ خلاف قانون اقدام ہیں۔ پولیس کا کام بلاتفریق ہر ملزم کو پکڑنا اورعدالت کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ 

جہیز جیسے سماجی مسائل کو قانون کی حکمرانی کے ذریعے ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے قانون کے احترام اور قانون کی حکمرانی کا وہ معیار درکار ہو گا، جو اس وقت مغرب کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں ہے، جہاں لوگ رات کے اندھیرے میں ویران سڑک پر سٹاپ سائن پر گاڑی روکنا لازم جانتے ہیں۔ حالانکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ اس وقت ان کو نہ ہی کوئی دیکھ رہا ہے، اور نہ ہی کسی قسم حادثے کا کوئی خطرہ ہے۔ یہ دل سے قانون کے بے پناہ احترام کی ایک مثال ہے۔

میں جانتا ہوں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ دن دھاڑے سرخ بتی پر رکنے کی زحمت نہیں کرتے وہاں اس درجے تک قانون کا احترام پیدا کرنا آسان نہیں ہے۔ مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ دنیا کے ہر کامیاب، ترقی یافتہ اور آسودہ حال سماج نے یہی راستہ اختیار کیا ہے۔ قانون کی حکمرانی کے ساتھ حکمران طبقات کی توجہ بھی ضروری ہے۔ عوام حکمرانوں کی باتوں کا بڑا اثر لیتے ہیں۔ ہمارے ہاں آج تک کسی حکمران نے اس مسئلے کو وہ اہمیت نہیں دی، جس کا یہ متقاضی تھا۔ حالانکہ حکمرانوں کی مناسب توجہ اس مسئلے کی شدت میں بڑی حد تک کمی لا سکتی ہے۔

غربت میں اورغربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والے گھرانوں کی بیشتر لڑکیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے کئی قسم کی اذیت سے گزرتی ہیں۔ جہیز نہ ہونے کی وجہ سے شادی نہ ہونے کی کہانیاں تو عام ہیں۔ مگر معاملہ ا سے بھی کچھ آگے ہے۔ جہیز کے ساتھ کئی قسم کے جرائم بھی جڑے ہوئے ہیں، اس میں قتل اور گھریلو تشدد جیسے گھناونے واقعات تک شامل ہیں۔ طلاق اور خود کشی جیسے واقعات بھی ہوتے ہیں۔

اتنے خطرناک اثرات کے باوجود یہ فرسودہ رسم کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس کے سد باب کے لیے اگر کوئی موثر اقدامات نہیں ہو رہے ہیں، تو اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس رسم کا زیادہ تر شکار غریب، اور بے سہارا لوگ ہیں، جن کی کوئی لابی، کوئی نمائندہ نہیں ہے۔ اس میدان میں شکاری بھی زیادہ تر غریب ہیں، اور شکار بھی، ایک ایسا منظر ہے جس میں غریب ہی غریب کی کھال اتارتا ہے۔ 

حاصل کلام یہ ہے کہ سماج کے ہر مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیشہ مادی وسائل کی ہی ضرورت نہیں ہوتی۔ بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں، جن کو سماج کے با ثر طبقات کی محض توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ ، حکمران طبقات سماجی و مذہبی رہنما اور سیاست دان ذاتی توجہ اور دلچسبی سے جہیز اور اس نوعیت کے کئی دوسرے سنگین مسائل بغیر کوئی وسائل خرچ کیے حل کر سکتے ہیں۔ 

Comments are closed.