جنرل باجوہ کا نوجوت سنگھ سدھو کو گلے لگانا

لیاقت علی

قیام پاکستان کے وقت سب سےشدید فرقہ ورانہ فسادات اورقتل عام پنجاب میں ہواتھا۔ پنجابیوں نےایک دوسرے کےگلےکاٹے تھےاورتاریخ کی بدترین نسل کشی ہوئی تھی۔ ان فسادات میں سکھ کمیونٹی نےاہم اورلیڈنگ رول ادا کیا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نےان فسادات کا ذمہ دارپنجاب کی ہندوکمیونٹی کوٹھہرایا اوریہ بیانیہ تشکیل دیا کہ سکھ کمیونٹی بنیادی طورپرسادہ لوح اورمعصوم ہےاسے ہندووں نےاکسایا اوربھڑکایا اورانھوں نےہندووں کےسازشی مائنڈ سیٹ کے زیراثرپنجابی مسلمانوں کاخون بہایا تھا۔

پنجابی سرکاری دانشوروں نےسکھ مت اور اسلام کے مذہبی عقائد کےمشترک عناصرپرزوردیااورہندووں کی بت پرستی کے برعکس توحید پرایمان کودونوں مذاہب کامشترکہ مذہبی اثاثہ قراردیا۔ قیام پاکستان کےبعد پاکستان سےنقل مکانی کرکےجانےوالےسکھوں کی اکثریت پاکستان اوربھارت کی مشترکہ سرحد کے دوسری طرف جا کرآباد ہوئی تھی اس لئےاب یہ اوربھی ضروری ہوگیا تھا کہ سکھوں کوزیادہ سےزیادہ خوش رکھنےکی کوششیں کی جائیں اورجس قدرممکن ہوسکےسکھوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے لئے کام کیا جائے۔

دفاعی نکتہ نظر کے مطابق بھی یہ ضروری تھا کہ سکھوں کی طرف سافٹ کارنررکھاجائےیہی وجہ ہے کہ 1965کی جنگ کے بعد ریڈیوپاکستان سےپنجابی دربارکےعنوان سےایک پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کامقصد سکھوں کوبھارت سرکاراورہندو کمیونٹی کےخلاف اکسانا تھا۔ نصف صدی گذرجانے کے باوجود یہ پروگرام نہ صرف ہنوزجاری وساری ہےاور بلکہ اس کی تھیم آج بھی وہی ہےجو اس کو شروع کرنے کے وقت تھی۔سکھ دوستی پرقائم یہ بیانیہ ہمارے ادب، فلم اورسیاست کا مستقل بیانیہ بن چکا ہے۔ فلموں میں سکھ کردارہونق،بے وقوف مگرمخلص اورصاف دل ہوتے ہیں جب کہ ہندو کمینے، سازشی،بےغیرت اورمسلمان دشمن ہوتے ہیں۔

جب بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک شروع ہوئی توپاکستان نےاس تحریک کی بھرپورمدد کی تھی اورسکھ دہشت گرد وں کوتربیت اورپناہ فراہم کی تھی۔ کچھ سکھ نوجوانوں نے جب ایک بھارتی طیارہ اغوا کرکے اسےلاہورپہنچایا تھا تو پاکستان نے ہائی جیکرزکوبھارت کے حوالے کرنے سےانکارکردیا تھا اوریہ سکھ ہائی جیکرزمقدمے سے بری ہونے کے بعد کئی سال تک لاہورمیں گھوما کرتے تھے۔

بے نظیرکی پہلی حکومت میں جب اعتزاز احسن وزیر داخلہ بنے تو نواز شریف نے الزام لگایا تھا کہ اعتزازاحسن نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے بھارتی دہشت گردوں کی فہرستیں بھارت کو دے دی تھیں یہ ایک ایسا جھوٹا الزام تھا جو کئی سال تک اعتزازاحسن کا پیچھاکرتا رہا تھا۔ سکھ دوستی دراصل پاکستانی ریاست کا سیکورٹی ایجنڈا ہےاورآج عمران خان وزارت عظمی کی تقریب حلف برداری میں چیف آف دی آرمی سٹاف جنرل قمرجاوید باجوہ کی بھارتی کرکٹرسٹارنوجوت سنگھ سدھو کوخصوصی توجہ دراصل اسی سکیورٹی ایجنڈے کی بدولت ہے۔

چیف نے سدھو سے وعدہ کیا اور یہ بہت بڑا وعدہ ہے کہ گورونانک کےجنم دن کے مو قع پرپاکستان اور بھارت کی سرحد سکھ زائرین کے لئے پاکستان کھول دےگا تاکہ سکھ کرتار پور( نارووال) گورودوارہ کے درشن کرسکیں۔ یہ بہت بڑا وعدہ ہے۔ اورآرمی چیف اس پرمبارکباد کے مستحق ہیں لیکن بھارت سکھوں کی بڑی تعداد کو اس موقع پر پاکستان نہیں آنے گا کیونکہ بھارت سمجھتا ہے کہ پاکستان سکھوں یاتریوں میں بھارت مخالف پراپیگنڈا کرتا اور انھیں بھارتی ریاست کے خلاف اکساتا ہے۔

ضرورت اس امر ہے کہ پنجابیوں کوبلالحاظ مذہب ایک دوسرےسےملنے کی اجازت دی جائے۔ دونوں پنجابوں کےعوام جب ایک دوسرے سے ملیں گے تو پاکستان اوربھارت کے مابیں اچھےاوربہترتعلقات خود بخود قائم ہوجائیں۔ دونوں پنجابوں کے عوام کی باہمی دوستی خوشحالی اور ترقی کا باعث بنے گی لیکن صرف ایک کمیونٹی کو ترجیح اور اس پرنظرالتفات تعلقات میں بہتری کی بجائے خرابی کا باعث بنے گی۔

نوٹ: پاکستان نے پابندی عائد کردی ہے کہ کوئی مونا سکھ یاترا کے لئے پاکستان نہیں آسکتا۔

Comments are closed.