چینی انجینئرز پر خودکش حملہ


ذوالفقار علی زلفی

خودکش حملوں کو پاکستانی لبرل طبقہ عموماً انتہا پسند مسلمانوں بالخصوص القاعدہ و طالبان سے جوڑتا ہے ـ فکری بگاڑ کا ہی نتیجہ ہے کہ میرے ایک نیم سوشلسٹ دوست اور ایک لبرل دوست نے ریحان بلوچ کے خودکش حملے کو مذہبی انتہا پسندوں سے جوڑ کر ناجائز اور ناقابلِ قبول قرار دیا ۔

محققین کے مطابق قدیم دیومالائی کردار سیمسنپہلا خودکش حملہ آور ہے جو دشمن کو تباہ کرنے کے لئے اپنی جان کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے ـ سیمسن کے بعد یہودیوں اور عیسائیوں کی جانب سے بھی رومن سلطنت کے خلاف خودکش حملوں کی داستانیں ملتی ہیں ـ کہا جاتا ہے دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہٹلر پر بھی خودکش حملہ کیا گیا۔ اس جنگ میں جاپانی پائلٹوں کی جانب سے بھی خودکش حملوں کی اطلاع ملتی ہے۔

ماضیِ قریب میں سنہالی گوریلے سری لنکا پر قابض برطانوی فوجیوں پر خودکش حملہ کرچکے ہیں ۔ خودکش حملوں کو عالمی توجہ اس وقت ملی جب حزب اللہ نے اسے اسرائیل و امریکہ کے خلاف استعمال کیا ۔حزب اللہ کے بعد اس تکنیک کو مشرق وسطی میں جہاں حماس اور اسلامک جہاد جیسی مذہبی تنظیموں نے استعمال کیا وہاں لبنان کمیونسٹ پارٹی اور کرد علیحدگی پسند تنظیم کردش ورکرز پارٹی نے بھی اسے جنگی ہتھیار کے طور پر برتا ۔

خودکش حملوں کی تکنیک کو جدید بنانے کا سہرا تامل قوم پرست تنظیم ایل ٹی ٹی ای کے سر بندھتا ہے ـ جنہوں نے اس تکنیک کے ذریعے بھارت اور سری لنکا کی حکومتوں کی نیندیں حرام کردیں ۔تامل قوم پرستوں نے 1991 کو اس تکنیک کے ذریعے بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی کو قتل کردیا ۔ بالی ووڈ کے نامور ہدایت کار سبھاش گئی کی سپرہٹ فلم کرمامیں نصیرالدین شاہ کو دشمن پر خودکش حملہ کرتے دکھایا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1995 کو اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر ہوا ۔ تاریخ البتہ اس موقف کو رد کرتی ہے ـ پاکستان میں پہلا خودکش حملہ 1974 کو اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو پر کیا گیا۔یہ حملہ بلوچ قوم پرست نوجوان مجید بلوچ کی جانب سے کیا گیا ـ تاہم حملہ ناکام ہوا اور مجید بلوچ جان سے گزر گئے ۔ 2011 میں پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے قریبی سمجھے جانے والے شفیق مینگل کو کوئٹہ میں خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا ۔ خوش قسمتی سے وہ بچ گئے مگر تقریباً ایک درجن افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ـ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی۔

گزشتہ  ہفتے پھر بلوچ قوم پرست مسلح کمانڈر اسلم بلوچ کے بیٹے ریحان بلوچ نے چینی انجینئرز پر خودکش حملہ کیا۔ ریحان بلوچ کے اس عمل کو بلوچ قوم پرستوں کے حلقوں میں خوش آمدید کہا جارہا ہے ـ

خودکش حملے کو غصے کی انتہا سمجھا جاسکتا ہے ـ انسان خود کو مارنے پر اس وقت آمادہ ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے دیگر تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں ـ ریحان بلوچ کا یہ قدم آخری ہے یا اس کے بعد بھی ایسے اقدام متوقع ہیں؟ سرِدست اس کا کوئی جواب نہیں ۔

سردار عطااللہ مینگل چند سال قبل ایک جلسے میں تقریر کے دوران بلوچ مسلح قوتوں کو خودکش حملے کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں ۔کیا قوم پرست اس مشورے پر عمل کرنے کا مکمل ارادہ کرچکے ہیں؟۔ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا ۔

ریحان بلوچ کے خودکش حملے کے بعد لبرل حلقوں کی جانب سے یہ دلیل دی جارہی ہے کہ اس سے اسٹبلشمنٹ کو بلوچوں کے خلاف آپریشن کا جواز مل جائے گا ۔ گزشتہ پندرہ سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ آپریشن کے لئے یہی جواز کافی ہے بلوچستان میں بھارت سرگرم ہے ۔سو خودکش حملے کئے جائیں یا نہیں اسٹبلشمنٹ کو کم از کم جواز کے لئے اس کی ضرورت نہیں ہے۔

یہ سوال البتہ توجہ طلب ہے کیا خودکش حملے بلوچ مفاد میں ہوں گے؟ ـ ریحان بلوچ کی تعریف و توصیف سے فرصت ملنے کے بعد بلوچ سیاسی کارکن و دانشور اس سوال پر بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ غور کرلیں ـ

Comments are closed.