ابن رشد ۔ حقوق نسواں کا پہلاعلمبردار

زکریا ورک


ابن رشد ۔ حقوق نسواں کا پہلاعلمبردار
1126-1198

ابو ولید محمد ابن رشد کی ولادت با سعادت قرطبہ کے معزز،معروف اور فقہاء کے خاندان میں ہوئی تھی۔ آپ آزادی نسواں کے یورپ میں پہلے علمبردار تھے۔ عہد وسطیٰ کے یورپ کو آپ کے آئیڈیاز نے زبردست رنگ میں متاثر کیا۔مثلاََ یورپ میں تیر ھویں صدی میں لوگ خیال کرتے تھے کہ موت کے بعد روح قبر کے ارد گرد منڈلاتی رہتی ہے یا جہنم کے عذاب میں ڈال دی جاتی۔ ابن رشد کا نظریہ تھا کہ روح مادے سے الگ جوہر ہے جس پر جسمانی نہیں بلکہ روحانی عذاب نازل ہوتا ہے۔یوں لوگوں نے رفتہ رفتہ قبول کرلیا کہ روح مادی چیز نہیں بلکہ روحانی چیز ہے۔ روح ابدی ہے جو موت کے بعد ایسے جسم میں داخل ہوگی جوپہلے دنیوی جسم سے مشابہ ہوگا۔ جو جسم ایک بار فنا ہوجائے وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔ 

وہ مسلمان سائنسدان اور دانش ور (الفارابی، ابن سینا،ابن الہیشم، ابن باجہ) جنہوں نے اسلامی روایات اور یونانی فکر کو منطبق کرنے کی کوشش کی ان میں سے آپ آخری دانشور تھے۔ آپ موطا امام مالک کے حافظ تھے۔ 

ابن رشد فنا فی العلم تھے۔حصول علم کا شوق دل میں شعلے کی مانند فروزاں رہتا تھا۔ ساری عمر کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہے۔ جس طرح البیرونی کہتے تھے کہ ان کی تصنیف کردہ کتابیں ان کے بچوں کی مانند ہیں کچھ یہی حال ابن رشد کا تھا۔ رات کے وقت جب سونے کا وقت ہوتا ان کے ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی۔ ۱۹۹۹ء میں راقم الحروف نے قرطبہ کی سیاحت کے دوران ان کا مجسمہ یہودیوں کے محلے میں دیکھا تھا جس میں انہوں نے ہاتھ میں کتاب تھامی ہوئی ہے۔ کتاب الدیباج الذھب کے مصنف انصاری کا کہنا ہے کہ ابن رشد پر زندگی میں دو راتیں ایسی آئیں جب وہ مطالعہ سے محروم رہے۔ ایک رات جب ان کے والد محترم کی رحلت ہوئی اور دوسری رات جب ان کی شادی ہوئی تھی۔ 

آج کے ترقی یافتہ دور میں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کا ہر طرف چرچا ہے، خاص طور پر یورپ و امریکہ میں ویمنز لب پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ اس ضمن میں یہ تسلیم کرنے میں مفر نہیں کہ اس تحریک نے خواتین کیلئے حقوق اور آزادی کی جو جنگ لڑی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ 

لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے حقوق نسواں کے آئیڈیا نے کہاں جنم لیا تھا؟ اس آئیڈیا کو پیش کرنے والا کون تھا؟ ہمارے نزدیک یورپ میں حقوق نسواں کا سب سے پہلا علم بردار ابن رشد قرطبی تھا۔ افلاطون کی کتاب الجمہوریہ (جوامع سیاسےۃ افلاطون) کی شرح متوسط میں ابن رشد نے فرمایا عورتیں تمام معاملات میں مردوں کے مساوی ہیں۔ تسلیم کہ وہ فطری طور پر کمزور اور نازک اندام ہوتی ہیں۔ امن اور جنگ میں مردوں اور عورتوں کی قابلیت ایک جیسی ہے۔ اس دعویٰ کی دلیل کے طور پر انہوں نے بربر، افریقن، یونانی اور عرب جنگجو عورتوں کی مثال پیش کی۔ 

انہوں مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے معا شرے میں عورتوں کا مقام افلاطون کی جمہوریت میں دئے گئے شہری مساوات کے برابر کا نہیں ہے۔ عورتوں کو بچے جنم دینے، دودھ پلانے اور ان کی پرورش کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ملک کی اقتصادیات کیلئے منفی اثرات کا حامل نیز ریاست کی غربت کا اصل سبب ہے۔ ابن رشد کے نزدیک عورتوں میں فلاسفربن سکتیں اور حکمراں ہو سکتی ہیں۔ البتہ عورت نماز میں مردوں کی امامت نہیں کر ا سکتی ہاں عورتوں کی امامت کرا سکتی۔ 

ابن رشد نے مزید کہا کہ ہمارے معاشرے کو بہتر سے بہتر بنا یا جا سکتا ہے۔فرماتے ہیں:

ہماری سوسائٹی میں عورتوں کو ہنر اجاگر کرنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ بچوں کو جنم دینا اور ان کی نگہداشت کرناان کا مقدر بن چکا ہے۔ اس غلامی کی حالت (یا ذہنیت) نے ان میں بڑے کام کرنے کی اہلیت سلب کردی ہے۔ چنانچہہم دیکھتے ہیں کہ کوئی عورت ایسی نہیں جس میں پر از حکمت خوبیاں ودیعت کی گئی ہوں۔ وہ جڑی بوٹیوں کی طرح بےسود زندگیاں گزارتی ہیں۔ اپنے شوہروں کیلئے انہوں نے خود کو غلام بنا رکھا ہے۔ اس سے وہ زبوں حالی جنم لیتی جو ہمارے شہروں میں عام ہے کیونکہ عورتیں مردوں سے دوگنا سے زیادہ ہیں.لیکن ضروریات زندگی وہ اپنی محنت مزدوریسے پوری نہیں کر سکتیں۔

برطانوی مصنف طارق علی ہمارے اس نقطہ نظر کی تائید میں ابن رشد کی زندگی کے اس پہلو کے متعلق لکھتے ہیں:
The first Muslim philosopher to give serious thought to the structural defects of Islam in relation to women was ibn Rushd from Cordova. often denounced as a zindiq (heretic) he never retracted on the women question. His open thinking predated the invention of Europe , and therefore did not come from but, in time would go to Europe that was created by the renaissance. Ibn Rushd argued that 500 years of segregation had reduced the status of women to that of vegetables. (Tariq Ali, The Clashes of Fundamentalism, 2002, page 62)
ترجمہ: پہلا مسلمان فلا سفر جس نے سنجیدگی سے عورتوں کے متعلق اسلام کے نقص کو بیان کیا وہ قرطبہ کا ابن رشد تھا۔ اس کو اکثر زندیق کہہ کر مذمت کی گئی لیکن عورتوں کے متعلق وہ اپنا نقطہ نظر سے کبھی بھی باز گرد نہ ہؤا۔ اس کی فکر یورپ سے بہت پہلے کی تھی اور اسلئے یہ آزادی فکر کی تحریک یورپ سے نہیں آئی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ یورپ پہنچی جو نشاۃ ثانیہ سے وجود میں آیا تھا۔ ابن رشد نے دلیل دی کہ پانچ سو سال کی علیحدگی نے عورت کا مقام محض ترکاری تک محدود کر دیا تھا۔ 

اندلس کے معاشرے میں عورت مرد کی جائیداد تصور کی جاتی تھی۔ مرد ایک سے زیادہ شادیاں کر سکتا اور جب چاہے طلاق دے سکتا تھا۔ عورت کیلئے خلع لینا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ عورتوں میں علمی کام کرنے کی استعداد مفقود ہو چکی تھی۔ کوئی عورت فقیہ، قاضی، استاد، مصنف یا حکمراں کہیں ڈھونڈے سے بھی ملتی نہ تھی۔ ابن رشد نے حقوق نسواں اور آزادی نسواں کاعلم ایک ہزار سال قبل بلند کیا تھا۔ جس وقت حکومت، عدلیہ، انتظامیہ میں مرد ہی مرد تھے۔ خلیفہ گویا مطلق العنان حکمراں تھا۔ آمریت اور فسطائیت کا دور دورہ تھا۔ حقوق نسواں کی بات کر کے ابن رشدنے فریڈم آف سپیچ (آزادی فکر)کا اعلان اور جرات رندانہ کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ اپنے دور میں رہتے ہوئے ایک ہزار سال وقت سے آگے تھے۔ 

عورت اور موسیقی میں تعلق
عورتوں کے بارے میں ابن رشد کے آئیڈیاز ان کی کتاب بداےۃ المجتہد اور افلاطون کی کتاب سیاست کی شرح میں پائے جاتے ہیں۔مثلاََ تلخیص السیاسۃ لافلاطون (بیروت1998ء) میں وہ افلاطون کا نام لئے بغیر ایسی باتیں کہتے جن کو ان سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔تا ھم انہوں نے افلاطون کے تمام نظریات سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ درج ذیل اقتباس سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک عورتیں ہی موسیقی کو سمجھ سکتیں اور اس کا بہتر مصرف پیدا کر سکتیں۔ عورتوں میں شاندار موسیقار بھی پیدا ہو سکتے بلکہ عورتوں میں موسیقی کو سمجھنے کی بہتر صلاحیت موجود ہے۔ کتاب میں صفحہ 96، باب14 میں وہ عورت اور موسیقی میں مشابہت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

جہاں تک سرتال یا آہنگ کا تعلق ہے بہتر ہے کہ اس کو عورتوں اور دوسرے عوام سے منتخب کیا جائے اور اس سرتال کو روح میں 
جوش و لولہ کو مزید تقویت دینے میں استعمال کیا جائے۔ اگرچہ یہ سرتال افلاطون کے دور میں معین ہو چکے تھے، تا ھم لازمی ہے 
کہ ہم ان کی تلاش اپنے دور میں بھی کریں۔ 
“Concerning rhythm it is appropriate to choose that which is selected from women and other people, and use
that thythm to enhance the courage of the soul. And even if those rhythms are more defined in Plato’s time,
it is however, important that we search for it in our time.” (section 14, page 96)

پھر تلخیص کے باب 26صفحہ123میں وہ کسی معاشرے میں نیکیوں کے اقسام بیان کرنے کے بعد وہ زعماء کے مقام ، نیز یہ کہ آیا شہر کے اکابرین اپنی عورتوں کی ایسی مخصوص کمیونٹی ہونی چا ہئے جن میں سے وہ بچے پیدا کر سکیں، ابن رشد اپنا نقطہ نظر پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اگر ہم اکابرین کی کوالٹی کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں ان بچوں کی ولادت کے ذریعہ جو ان سے مشابہت رکھتے ہیں، تو ایسا کرنا محال ہوگاکہ  وہ بالفعل ان بچوں کو ہرکس و ناقص عورت سے حاصل کر لیں۔ اس کے برعکس ان کو صرف ایسی عورتوں سے شادی رچانی چاہئے جو قابلیت  میں ان جیسی ہوں، اور ان کی پرورش ان کے جیسے ماحول میں ہوئی ہو۔ اس کا اطلاق صرف علی الخصوص اکابرین پرہی نہیں ہوتا بلکہ ریاستکے تمام عوام الناس پرہوتا ہے۔ 

اسکے بعد ابن رشد عورتوں کے قابلیت کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ وہ عورتوں کی قابلیت کو مردوں کی قابلیت کے مساوی قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک عورت جنگ میں حصہ لے سکتی ، عدالت میں فیصلے دی سکتی، حکومت کی سربراہ ہو سکتی۔ 

ابن رشد کی تصنیف بداےۃ المجتھد کے مطالعہ سے معلوم ہوتا کہ ان کے تمام عدالتی فیصلے،تجزئے اور فتاویٰ جمہور العلماء (اسلامک سکالرز) سے متفق الرائے تھے۔ لیکن ایسے فیصلے جن کا تعلق عورتوں سے تھاان میں ماڈریشن پائی جاتی ہے۔ فیصلہ دیتے ہوئے وہ کسی بھی موضوع پر تمام آراء کو پیش کرتے لیکن آخری الفاظ میں وہ دلائل بھی دے دیتے۔ ابن رشد کو سیاست سے کوئی لگاؤ نہیں تھا ان کا اصل مشن تو فلسفہ تھا۔ افلاطون کی کتاب ری پبلک کی تلخیص میں افلاطون کے نظریات کیساتھ انہوں نے اپنے سیاسی خیالات پیش کئے تھے۔ دراصل اس تلخیص کے ذریعہ انہوں نے اس دور کے اسلامی معاشرے میں پائے جانیوالے مسائل سے اتفاق یا ان سے اختلاف رائے کا اظہار کیا تھا۔ اس شرح میں ان کو موقعہ مل گیا کہ وہ غیر اسلامی نقطہ ہائے نظر کو بھی افلاطون کے نظریات پیش کرتے ہوئے بیان کر سکے۔ 

عورت الغزالی کی نظر میں 

ارسطو اور غزالی کے نقطہ نظر کے مطابق مرد کو عورت پر فوقیت حاصل ہے۔ ارسطو اور ابو حمید الغزالی کی نگاہ میں عورت کا معاشرے میں سب اچھا کردار بچوں کی نگہداشت کرناہے، اور یہ کہ گھر کے کام کاج کیلئے عورت ہی زیادہ موزوں ہے۔ ارسطو نے اس لحاظ سے عورت کو مثبت رول دیا تھا جبکہ الغزالی کے نزدیک یہ رول منفی تھا۔ حجۃ الاسلام کے نزدیک عورت مرد کے ماتحت ہوتی ، ان کے نزدیک شادی کے بعد عورت مرد کی غلام ہو جاتی ہے۔ ارسطو کے نزدیک ایک اچھے خاندان کی بنیاد عورت ہوتی ہے۔ جبکہ غزالی کے خیال میں گھرانے میں صرف ایک ماسٹر ہو سکتا اورتابعدار بیوی۔ غزالی کے نزدیک عورت کیلئے تعلیم بے سود تھی اسلئے گھر سے باہر عورت کے مفروضہ کام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ غزالی اپنی تالیف نصیحۃ الملوک میں فرماتے ہیں:

جب تک کوئی عورت خدا کے احکامات پر عمل کرتی اور اپنے شوہر کی تابعدا ر ہوتی، وہ چرخے کو ہاتھ میں پکڑتی اور چلاتی، یہ ایسا ہے جیسے وہ اللہ کے اسماء حسنیٰ کا ورد کررہی ہو، نماز میں شامل ہو رہی ہو اورغیر مسلموں کے خلاف جدال میں مصروف ہو۔ جب تک کوئی عورت چرخہ کاتتی رہتی گویا اس کے گناہ دھو دئے گئے۔ چرخہ کاتنا عورت کیلئے جائے پناہ اور محفوظ مقام ہے۔ تین قسم کی صدائیں
اللہ کے عرش تک پہنچتی ہیں ۔ (۱) کافروں کے خلاف تیرکمان تیار کرنے کی صدا (۲)عالم کے قلم کی صدا (۳)نیک عورتوں کے چرخہ کاتنے کی صدا۔ Nasihatul Maluk, pp 158-173 Eng. Trans.

نصیحتہ الملوک کے آخری باب ہفتمعورتوں کے اچھے اور برے پہلو ‘(فارسی: اندر صفت زنان و خیر و شر ایشان) میں غزالی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا کی اکثریت عورتوں پر انحصار کرتی کیونکہ وہ اولاد جنم دیتی ہیں، نسل انسانی ان سے چلتی ہے۔ لیکن یہ مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ رفیق حیات کے انتخاب اور بیٹیوں کو شادی میں دیتے وقت تحفظ کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھیں۔ بادشاہ کو نصائح کرتے ہوئے وہ عورتوں کی تشبیہ کے ذریعہ اخلاق اور کردار سازی کے معاملات کی وضاحت کرتے جیسے بخیلی، بددلی، غصے میں آجانا، اور عورتوں کی شہوت بازی۔ کتاب کے شروع میں وہ مردوں کو عورتوں سے متعلق تنبیہ کرتے اور ضرر ونقصان جو ان کے ذریعہ پہنچ سکتا۔ منفی اوصاف کی مثالیں دیتے ہوئے وہ بادشاہ کو نصیحت کرتے کہ اگر وہ ان اوصاف کا حامل ہوگا تو اسکا رویہ عورتوں کی طرح ہوگا۔
فارسی: خداوند کتاب گوید کہ آبادانی جہان و نسل آدمی از زنان است۔ و آبادانی ھرگز بی رای و تدبیر راست نیاید، و گفتہ اندکہ شاوروھن و خالفوھن۔ و واجب است ہر مردم دانا و ھشیار کہ احتیاط کند درکار زن خواستن و دختر بہ شوھر دان، خاصہ کہ دختر رسیدہ گشت تا بہ عار و عیب و درد سر نیفتد۔ 
(
نصیحتہ االملوک ، تہران1989، چاپ اول جامی ، صفحات219-222)

اسی کتاب کے صفحہ227 پریہ تحریر پڑہئے اور شرم سے سر جھکا دیجئے: آپ لکھتے ہیں:
عورتوں میں دس جانوروں کے مزاج اور صفات ہوتے ہیں جیسے سؤر، سگ، چوہے، عقرب، فاختہ، بھیڑیا اور بھیڑ۔ (فارسی: چون خوک، چون کپی، چون سگ، چون مار، چون استر، چون کژدم، چون موش، چون کبوتر، چون روباہ، چون گو سفند) ۔ 

عربی میں لکھی کتاب کسر الشہواتین میں صفحہ12پر لکھتے ہیں:
عورتیں شیطان کا پھندہ ہیں، اگر (مرد) میں یہ جنسی خواہش نہ ہوتی توعورتیں مردوں پر کبھی بھی حکمرانی نہ حاصل کر سکتیں۔ 

شیخ احمد سر ہندی کا ارشاد 
ہندی صوفی عالم دین شیخ احمد سر ہندی (1624) نے خدا تعالیٰ کی طرف سے مردوں پر خصوصی عنایات کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے مردوں کو چار عورتوں سے شادی کرنے، حسب منشاء لونڈیاں رکھنے، اور طلاق کے ہتھکنڈے کو استعمال کرتے ہوئے بیویوں کو بدلنے کی اجازت دی۔ کیونکہ عورتیں کی ساری زینت باری تعالیٰ کی جناب سے محض مردوں کے لطف اندوز ہونے کی غرض سے عطا کی گئی ہے۔ ۔۔ چونکہ عورتوں کی فطرت اتنی مکار ہے اس لئے ہر حرام کاری (adultry)میں عورت ہی کو بڑا مجرم گرداننا چاہئے اور یہ کہ اس کی رضامندی کے بغیر یہ عمل نا ممکن ہوتا ہے۔ ( قرآن نے جرم کی مذمت کرتے ہوئے زانیہ کو سزاپہلے اور زانی کو بعد میں رکھا ہے24:2 )
شیخ احمد سر ہندی ، مکتوبات امام ربانی جلد اول، مکتوب نمبر192 ۔ نول کشور ایڈیشن، تاریخ اشاعت ندارد لکھنو اول، صفحات 190-91)

بادشاہ جہانگیر (1605-1627) 
مغل بادشاہ جہانگیر سے منسوب اخلاقی مواعظ کا نسخہ درج ذیل ہدایات پر مبنی ہے: “بیٹیوں کی موت پر آزردہ مت ہو، عورتوں کی نصیحت پر عمل نہ کرو، ان کی دلجوئی نہ کرو، ان کے فریب، اور چالبازی سے کبھی غافل نہ ہو ” (پند نامہ جہانگیری، خواجہ نعمت اللہ الحراوی کی کتاب کا ضمیمہ، ڈھاکہ1962، صفحہ703) اگرچہ اس طرح کے نصائح خود جہانگیر کی اپنی یاد داشتوں میں نہیں پا ئے جاتے۔ 

عورت اگر کمزاور اور جاہل گردانی گئی تو یہ فطرت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ یہ مرد کا استبداد تھا۔ اگر عورت کو تعلیم کی ہر سہولت سے محروم رکھا جائے اور پھر تو قع کی جائے کہ وہ علم و ادب میں مناسب اضافہ کرے تو یہ سراسر ظلم ہے۔ ہندوستان میں1891کی مردم شماری کے مطابق ہر23تعلیم یافتہ مردو ں کے مقابلے میں ایک عورت خواندہ تھی۔ 

قارئین عالم اسلام کے ان دیوقامت سکالرز کے خیالات کا آپ نے موازنہ اور قدرے جائزہ دیکھ لیا۔ غزالی کے خیالات اسلامی دنیا میں زیادہ مقبول ہوئے مگر ابن رشد کے خیالات کو کسی نے درخور اعتنا نہ سمجھا۔ ہاں یورپ والوں نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور تسلیم کرکے ان کو اپنانا شروع کر دیا۔ اسلامی دنیا میںآج عورتوں کی حالت پر آٹھ آٹھ آنسو بہانے کو جی کرتا ہے۔ عراق میں داعش کے داعی جس قدر بھیانک طریق سے شیعہ اور یزیدی عورتوں سے وحشیانہ جنسی سلوک کر رہے ہیں انسان کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔جی کرتا ہے زمین پھٹ جائے اور انسان اس کے اندر گر جائے۔ اسلامی دنیا میں عورت کا بطور انسان کوئی تشخص نہیں اسکا جسم، اس کی روح اور خیالات اس کے اپنے نہیں بلکہ وہ اس کے باپ، بھائی، خاوند یا دیگر مرد رشتہ داروں کے ہوتے ہیں۔ وہ گھر سے باہر اکیلے نہیں جا سکتی، اپنی مرضی سے ولی کی رضاکے بغیر شادی کیلئے رضا مندی کااظہارنہیں کر سکتی، جائیدا د میں اس کا حصہ بیٹوں کے برابر کا نہیں ہوتا، اسلامی ممالک میں عورت کی شہادت نصف مگر مغربی ممالک میں اس کی شہادت مرد کے مسا وی ہوتی۔ اگر کسی شخص کی صرف ایک ہی بیٹی ہو تب دوسرے مرد رشتہ دار وراثت میں حصہ لینے آ جاتے ہیں۔ 

ان میں سے کئی نا انصافیوں کا تعلق کلچر سے ہے مذہب سے نہیں۔ دیکھا جائے تو ہر معاشرے میں عورت کیساتھ غیر منصفانہ سلوک ہی کیا جاتا رہا ہے۔ ماں کی تو بہت عزت کی جاتی مگر بطور بیوی کے اس پر تمام ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ نوجواں عورت جب مسجد جاتی تو اس کا وکیل یا ولی اس کی طرف سے نکاح کی رضامندی کا اظہار منظو رہے کہہ کر کرتا ہے لیکن جب یہی نوجوان عورت ڈاکٹر، ٹیچر، نرس، یا پائلٹ یا پولیس آفیسربن جاتی تو وہ اپنی مرضی سے کام کرتی اور اپنی لیاقت کا لو ہا منواتی ہے۔ ہاں مسجد میں وہ اس لائق نہیں کہ حاضرین کے سامنے بلند آوازمیں منظور ہے کہہ سکے۔ 
کاش کہ ہم نے اسلامی دنیا میں ابن رشد کے خیالات اور نظریات کو زیادہ وقعت دی ہوتی تو ہم بھی فخر سے کہہ سکتے کہ ہماری عورتیں بھی خلاء کی تسخیر میں حصہ لے رہی ہیں، ان میں سائنسد ان ہیں، ان میں پائلٹ ہیں، ان میں تمام قسم کی صلا حتیں موجود ہیں۔ ان میں وہ تمام روحانی اور دانشی صلاحتیں ہیں جو تمام انسانوں میں پائی جاتی ہیں۔ 

کتابیات 
۱۔ سوانح ابن رشد، زکریاورک ،پبلشر شعیب عادل، نیا زمانہ پبلی کیشنز لاہور ۔ 
۲۔ امام محمد غزالی، نصیحتہ الملوک ، تہران 
۳۔ نادیہ ہر ہرہاشNadia Harhash انٹر نیٹ پر مضمونابن رشد ویوز آن ویمن ۔ 
۴۔ بر صغیر میں تاریخ کا سفر، ترجمہ ڈاکٹر انور شاہین، فکشن ہاؤس لاہور ۲۰۱۴ مضمون۔ قرون وسطیٰ کی صنفی تاریخ کی تلاش عرفان حبیب 

 

Comments are closed.