کپتان ڈرتا ہے اور نہ ہی بھاگتا ہے

چوہدری نعیم احمدباجوہ 

صوفی ازم میں ایک ایسے فرقے نے بھی جنم لیا ہے جس نے اشیاء کے خارجی وجود کا سرے سے انکار ہی کر دیا تھا ۔ یعنی جو بھی ہے سب ہمارا وہم ہے اور حقیقت میں کوئی مادی شئے موجود ہی نہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مادی وجود سے بھی انکار کر بیٹھے ۔ اس فرقہ کے ایک صوفی راہنما کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ بعض سرکردہ علماء سے مناظرہ کے لئے اسے بادشاہ کے دربار میں طلب کیا گیا۔ لیکن حاضرین کی حیرت کی انتہا ء نہ رہی جب بحث کا نتیجہ توقعات کے بالکل برعکس نکلا ۔ سوال و جواب کے آغاز میں ہی علماء حواس باختہ ہوگئے ۔ اور دلائل کے لئے ہاتھ پیرمارنے لگے لیکن کچھ بن نہ آئی۔ علماء اس صوفی کی ماورائی سوچ اور باریک منطق کا مقابلہ نہ کر سکے۔ ا س موقع پر بادشاہ کو ایک عجیب خیال سوجھا ۔ اس نے فیل خانہ کے مہاوت کو حکم دیاکہ سب سے خونخوارہاتھی محل کے احاطے میں لایا جائے ۔

یہ ہاتھی دیوانگی کا شکا رتھا جو شاید صوفی کی دیوانگی سے کسی طو رکم نہ تھی ۔ اگر فرق تھا تو صرف اتنا کہ صوفی صاحب فقط خارجی اشیاء کے وجود کے منکر تھے جبکہ ہاتھی خارج کی موجودات کو تباہ کرنے کے درپے تھا۔چنانچہ ایک طرف تو صوفی صاحب کو کھلے میدان میں لا کھڑا کیاگیا اور دوسری جانب ہاتھی کو کھلا چھوڑ د یاگیا ۔دیوانے ہاتھی کو اپنی طرف آتے دیکھ کر صوفی صاحب حواس باختہ ہو گئے اورجان بچانے کے لئے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ بادشاہ بھی یہ منظر دیکھ رہا تھا ۔ صوفی کو جان بچانے کے لئے بھاگتا دیکھ کر بولا : صوفی صاحب! آپ کو اس موہوم ہاتھی کو دیکھ کر بھاگنے کی کیا ضروت ہے یہ تو محض آپ کے تصور کا واہمہ ہے ۔ ہاتھی کا تو کوئی خارجی وجود ہی نہیں۔ صوفی بھاگتے ہوئے بولا: بھاگ کون کم بخت رہا ہے ۔ یہ آپ کے تصور کا واہمہ ہے کہ میں بھاگ رہا ہوں۔

فواد چوہدری صاحب نے پھر اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے سب طبقات کو ساتھ لے کر چلنا ہے ۔ یقیناًدرست فرمایا ہے ۔کون کہتا ہے کہ ایک طبقے سے امتیازی سلوک کیا گیا ہے ۔ جب عزت مآب وزیر کہ رہے ہیں کہ سب کو ساتھ لے کر چلیں گے تو چلیں گے نا! ایک تو آپ لوگوں کو کوئی بھی بات سمجھاناجان جوکھو ں کا کام ہے۔ خواہ مخواہ کی چخ چخ لگا رکھی ہے ۔ یہ پاک سر زمین ہے۔ یہ نیا پاکستان ہے ۔ یہ میرا پاکستان ہے یہ تیرا پاکستان ہے ۔ میں بھی پاکستان ہوں ۔ تو بھی پاکستان ہے ۔ یہ سب کا پاکستان ہے۔ سب گاؤ اور شاد رہو۔

خاص طو رپر جب محترم وزیر اعظم صاحب نے اپنا ماڈل ریاست مدینہ کو بنایا ہے تو پھر ان کے اخلاص و وفا اورنیت پر شک کرنے والوں کے پاس کوئی جواز نہیں رہتا۔ کپتان ہمیشہ اپنی بات پر قائم رہتا ہے ۔ کپتان ڈٹا رہتا ہے۔ کپتان لڑنا جانتا ہے ۔ کپتان فیصلہ میرٹ پر کرتا ہے ۔ کبھی مخالفت سے خائف نہیں ہوتا ۔ ساری زندگی کی جدو جہد اسی رنگ میں رنگین ہے ۔ کپتان آج تک بھاگا نہیں۔ آپ لوگ کس خیال میں ہیں ۔

اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ کپتان ریاست مدینہ کے بنیادی ماڈل سے منحرف ہو گیا ہے ۔

اگر آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ کپتان اقلیتوں کی حفاظت کے لئے ناکام ہو گیا ہے ۔ اور انہیں پہلے سے زیادہ مجاہدوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ۔ 

اگر آپ محسوس کرتے ہیں کہ قائد کا پاکستان کھڑا ہونے سے قبل ہی دھٹرم سے نیچے آگر اہے اور کرچی کرچی ہو گیا ہے ۔ 

اگر آپ دیکھتے ہیں کہ شدت پسند جیت گئے ہیں اور کپتان جھک گیاہے ۔ 

اگر آ پ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئندہ بھی کپتان ڈھول بجتے ہی اپنے فیصلے بدل دے گا ۔

اگر آپ یہ تبصرہ کر رہے ہیں تبدیلی کا نعرہ کھوکھلا ہو گیا اور صرف پھٹا ہوا ڈھول ہوا باقی رہ گیا ہے ۔ 

اگر آپ یہ ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ کپتان نے مست ہاتھی اپنی طرف آتے دیکھ کر اپنی جان بچانے کے لئے دوڑ لگا دی ہے ۔

اگر آپ یہ سب سوچتے کہتے اور بولتے ہیں تو سمجھ لیں یہ سب آپ کا وہم ہے۔ ان باتوں کا کوئی وجود نہیں۔ ان باتوں کے خارجی امکانات صفر ہیں۔یہ سب آپ کے واہمے ہیں۔کپتان قائم ہے ۔ کپتان ڈر کر بھا گ نہیں رہا ۔کوئی مست ہاتھی کپتان کو مارنے اور پٹخ پٹخ کر مارنے کے لئے موٹر وے پر نہیں آرہا ۔ 

یہ الگ بات ہے کہ بچپن میں کھیلتے ہوئے سب سے زیادہ ٹانگیں اسی بچے کی کانپ رہی ہوتی تھیں اور پکڑے جانے کے خوف سے سب سے پہلے وہی بھاگتا تھا جو پکے پیریں کہہ رہا ہوتا تھا کہ میں تے  نہیں جے  ڈر دا۔

Comments are closed.