اسلامی تاریخ مولانا طارق جمیل اور مفتی منیب الرحمٰن کی نظر سے

اصغر علی بھٹی  مغربی افریقہ

      نیشنل ٹاسک فورس فار ایجوکیشن کا اجلاس زیر صدارت مکرم شفقت محمود صاحب وفاقی وزیر تعلیم  10 ستمبرکو اسلام آباد میں ہوا جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کراچی کے دفتر سے بذریعہ ویڈیولنک جناب مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو بھی شامل کر لیا گیا۔آپ نےاپنی ان پٹ دیتےہوئے تاریخ پاکستان کے حوالے سے فرمایا  ’’اول تو ہماری قومی تاریخ متفق علیہ نہیں بلکہ متنازعہ ہے مزید یہ کہ تاریخ پڑھائی ہی نہیں جارہی۔آپ مطالعہ پاکستان کا نصاب اُٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں آپ کو ملک کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں ملے گا‘‘۔

بہرحال پاکستان کے دوسرے دیہاتی طلباء کی طرح پریشانی تو بنتی تھی  سووہ  ہمیں بھی ہوئی کہ ہم جو بچپن سے صبح صبح اپنا بستہ اُٹھائے اوس پڑے کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے 2 کلومیٹر دور اپنے پرائمری سکول پہنچتے جہاں ہمارے واحد استاد ماسٹر اللہ رکھا صاحب ہمارے استقبال کے لئے موجود ہوتے ہم لوگ بستے رکھتے اور جھاڑو اُٹھاکر صفائی میں لگ جاتے اور پھر اپنی اپنی بوری بچھاکر کلاس روم کھڑا کر لیتے ۔یعنی کیکر کے نیچے پہلی، ٹاہلی کے نیچے دوسری  ،برگد کے نیچے تیسری اورچوتھی  جبکہ پانچویں کلاس وی آئی پی تھی یعنی اکلوتے کمرے میں۔ دھوپ  اور سائےکے ساتھ ساتھ پیریڈ اور کلاس کی جگہ بدلتی رہتی۔

رٹے میں بچپن سے ماٹھے تھے جبکہ مطالعہ پاکستان میں رٹا بہت ضروری تھا اس لئے نہ صرف ماسٹر صاحب کے عتاب کے مئورد  رہتے  بلکہ ماسٹر صاحب کی گھر میں شکائیت پر گھر سے بھی جھاڑ پھونک ہو جاتی یوں ہم نے میٹرک تک مطالعہ پاکستان  پڑھا بھی،رٹا بھی اور اپنےٹیچر کی ’’صحت‘‘ کے لئے خاص دعا ئیں بھی کیں۔اب آج مفتی صاحب کا بیان پڑھا ہے تو اُن سب ڈنڈوں کی یاد تازہ ہو گئی ہے  جو ہم نے مطالعہ پاکستان کے نام پر کھائے اور آپ ہیں کہ آرام سے فرما گئے ہیں کہ تاریخ پڑھائی ہی نہیں جارہی اگر مطالعہ پاکستان پڑھایا ہی نہیں جاتا توہم دس سال سکول میں کس چیز کا پرچہ دیتے رہے اورکس کام  پر ڈنڈے کھاتے رہےکاش آپ کا بھی کوئی ٹیچر ماسٹر اللہ رکھا ہوتا ؟۔

  خیریہ تو ہمارا جذباتی بیان ہو گیا لیکن مجھے یاد ہے جب تک نجم سیٹھی صاحب اقتدار کی غلام گردشوں میں نہیں پھنسے تھے وہ بھی منیب کو مخاطب کرکے تاریخ کے بارے میں ایسا ہی فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے بچوں کو مسخ شدہ تاریخ پڑھا رہے ہیں جو دراصل تاریخ کم اور نسیم حجازی کا ناول زیادہ ہے۔برصغیر کی مسلم تاریخ کے دو  راوی ہیں ایک مسلم علماء اور دوسرے مئورخین۔اب ان دونوں کے بیان شدہ حالات و کواکب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

ہمارے مطالعہ پاکستان پر اکثراعترض اٹھایا جاتا ہے کہ یہ علماء اور سرکاری یا درباری مئورخین کی کہی سنی ہے جسے اصلی تاریخ سے  دور کا بھی واسطہ نہیں۔ چنانچہ اس سرکاری تاریخ کےمطابق  راجہ داہر کے بحری قزاقوں نے ایک مسلم جہاز لوٹ لیا جس میں موجود ایک مسلم عورت نے فریاد کی اور مدد کے لئے پکارا ۔یہ آواز حجاج بن یوسف تک پہنچی اُنہوں نے فوری محمد بن قاسم کی سرکردگی میں اسلامی فوج روانہ کردی جنہوں نے  راجہ داہر کو شکست دے کر ملتان تک کا علاقہ فتح کر لیا ۔

اس کے بعد بغداد اور غزنی سے آئے صوفیاء نے تبلیغ سے برصغیر میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کئے اور ہندئوں کی طاقت توڑ دی اور سومنات کا مندر فتح کر لیا۔احمد شاہ ابدالی نے مرہٹوں کا گھمنڈ ملیا میٹ کیا ، مغلوں نے امن و انصاف کے سمندر بہا دئیے اور پھر عیار انگریز تجارت کے نام پر داخل ہوا۔استعمار نے دھوکے سے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔1857 میں مسلمانوں نے جنگ آزادی لڑی مگر غداروں کی وجہ سے ناکام ہو گئی۔

اس کے بعد علامہ اقبال  نے خواب دیکھا اور قائد اعظم نے اس کی تعبیر کرکے ہمارے لئے پاکستان بنادیا۔ یہ تو سب ہم نے پڑھا اور روز ہمیں پڑھایا جا رہا ہے اور یہی ہمارے نصاب میں شامل ہے تو وہ پھر کون سی تاریخ ہے جو مفتی صاحب جیسے عالم دین ہمیں پڑھانا چاہتے ہیں اور جو ابھی بھی نصاب کا حصہ نہیں بنی۔

ابھی حال ہی میں26 جنوری 2018 کوایک اور معروف عالم دین اور تبلیغی جماعت کے سربراہ جناب مولاناطارق جمیل صاحب ،برصغیر کی تاریخ اور استعمار کے حوالے سے کچھ اور ہی روایات سامنے لے آئے ہیں آپ کہیں  اُن کو تو نصاب کا حصہ نہیں بنانا چاہتے ؟ آپ نے فرمایا’’انگریز  جہاں کب داخل ہوا جب ہم زوال کا شکار ہو گئے۔صرف دو لاکھ کے ساتھ۔ کبھی دولاکھ سے زیادہ گورا اس ملک میں نہیں رہا۔اور 20 کروڑ انسانوں پر اس نے حکومت کی۔ کہ وہ آپس ہی میں لڑ مر رہے تھے اور اجتماعی سوچ ختم ہو گئی تھی۔اہلیت ختم ہو گئی تھی۔ تو 1757 میں سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور وہ اس کا حق دار تھا کہ اُسے شکست ہوتی۔سازش تو ایک چھوٹا سا بہانہ تھا۔سازش ہوئی میر جعفر صادق مل گیا۔ لیکن میر جعفر کا ملنا شکست کا سبب نہیں ہے۔ سبب نا اہلی ہے۔

سراج الدولہ پورے بنگال کا بادشاہ 12 بجے سو کر اُٹھتا تھا۔ اور اس کے مقابلے میں لارڈ کلائیو وہ اس کی کلرک کی حیثیت تھی وہ دن چڑھنے سے پہلے گھوڑے پر سوار ہوتا اور دن چھپنے کے بعد گھوڑے  سے اترتا تھا ۔وہ سارا دن گھوڑے کی پشت پر  اور وہ سارا دن بسترپر۔ رات کنیزوں اور لونڈیوں کے درمیان اور دن 12 بجے اُٹھیں گےتو پھر شکست تو مقدر ہے۔میدان اُن کے ہاتھ میں ہوتا ہے جو میدان میں کھڑے رہتے ہیں ۔۔برصغیر کے سارے حکمران ڈوبے ہوئے تھے سارنگیوں میں تو اللہ نے انگریز کو بھیجا۔ جائو ان سب کو جوتے مارو اور ان کو تخت سے کان سےپکڑ کر اتاردو۔ آخری ٹیپو سلطان تھا لیکن جب کوئی قوم ڈوبتی ہے تو کوئی ایک فرد مشکل سے ہی کنارے لگا سکتا ہے۔وہ اپنی جان کی قربانی کر گئے۔

چارمئی 1799 دریائے توی بہتا ہے ۔ اپریل کے آخر پر وہاں سیلاب شرع ہو جاتے ہیں اور فوجیں رک جاتی ہیں مگر میرے اللہ کو مسلمانوں کا اقتدار ختم کرنا تھا تو وہ اس سال موجیں ہی نہیں آئیں ۔سیلاب ہی نہیں آیا ۔دریا خشک پڑا تھااور انگریز کی مدد کرنے والے کون تھے نظام الدین حیدرآباد کے حکمران۔جب ضمیر سوتا ہے تو پھر ایسے ہوتا ہے۔تو انہیں ڈوبنا چاہیے۔ انہیں مرنا چاہیے۔ انہیں غلامی کا طوق پہننا ہو گا۔

یہ رب کا نظام اور کا قانون ہے کہ یہاں نااہل کو نہیں بٹھایا جا سکتا۔۔دلی شاہ شاہ عالم ثانی کے زمانے میں انگریز داخل ہو گیا اور پھر بہادر شاہ ظفر 1857  کی جنگ آزادی۔  وہ ایسے جیسے یہ ہمارا جلوس نہیں ہوتا۔ان جلوسوں نے کبھی کچھ کیا ہے؟   جلوسوں سے کچھ نہیں ہوتا۔سوائے اس کے دو چار گاڑیاں جلادو۔ دو چار سائن بورڈ توڑدو۔ اور دو چار جاتے  مسافروں کی جیبیں لوٹ لو۔ تو وہ ایک ایسا جلوس تھا۔نہ کوئی نظم ۔نہ کوئی ترتیب تھی۔اور ظلم کا جواب ظلم نہیں ہوتا ۔ جب انہوں نے دلی پر قبضہ کیا تو وہاں 70 انگریز عورتیں تھیں 30 عورتیں اور 40 بچے ۔ انہوں نے سب کو ذبح کر دیا ۔ کیا ان کے ساتھ اللہ ہو گا جو عورتوں کو ذبح کرتے ہیں ۔ جو بچوں کو ذبح کرتے ہیں۔انہوں نے ناکام ہونا ہی تھا مگر الہی بخش ،نجف خان اور نواب شجاع الدولہ  یہ تین آدمی اس میں ذریعہ بنے۔

لیکن اگر وہ ذریعہ نہ بھی بنتے تو زوال کا معاملہ ہونا ہی تھا 4 دن بعد ہو جاتا  ہونا ہی تھا‘‘   بصد احترام عرض ہے کہ اگر برصغیر کی اسلامی تاریخ کا خلاصہ یہی ہے تو پھر تو ہماری  برصغیر کی ساری مذہبی تاریخ بد ل جائے گی ۔ مورخ پاکستان ڈاکٹر مبارک علی صاحب کو دی جانے والی تمام گالیاں فتوے اور وطن دشمن  اوراسلام دشمن کے سرٹیفیکٹ بھی واپس لینا پڑیں گے۔ہم تو یہی جانتے ہیں کہ انگریز شاطر اور چالاک و مکار تھا، عیاری سے ہمارے وطن میں داخل ہوا  اور ظلم و بر بریت کے پہاڑ توڑتے ہوئے ہم پر غاصبانہ قابض ہو گیا۔علماء اور عوام جذبہ جہاد سے سرشار دیوانہ وار 1857 کی جنگ  آزادی میں نکلے  اور بہادری کی داستانیں رقم کیں۔

اور انگریز اس جذبہ جہاد سے اس قدر خائف تھے کہ  بقول مولانا  ڈاکٹر خالد محمود ’’ 1870میں وہائٹ ہا ئوس لندن میں کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کمیشن مذکورہ کے نمائندگان کے علاوہ ہندوستان میں متعین مشنری کے پادری بھی دعوت خاص پر شریک ہوئے۔ اس میں دونوں نے علیحدہ علیحدہ رپورٹ پیش کی جو ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا  کے نام سے شائع کی گئی کمیشن کےسربراہ سر ولئیم نے رپورٹ دی کہ  مسلمانوں کا مذہباعقیدہ ہے کہ وہ کسی غیر ملکی حکومت کے زیر سایہ نہیں رہ سکتے اور ان کے لئے غیر ملکی حکومت کے خلاف جہاد کرنا ضروری ہے ۔ جہاد کے اس تصور سے مسلمانوں میں ایک جوش اور ولولہ ہے اور وہ جہاد کے لئے ہرلمحہ تیار ہیں ۔ ان کی کیفیت کسی وقت بھی انہیں حکومت کے خلاف اُبھار سکتی ہے ‘‘ ( اقتباس  از مطبوعہ رپورٹ کانفرنس وہائٹ ہائوس لندن منعقدہ 1870  دی ارائیول آف برٹش ایمپائر ان انڈیا) ( ماہنامہ   الرشید   دیوبند نمبر ص 106 و 107  فروری مارچ 1976)۔

لیکن ابھی مولانا طارق جمیل صاحب بتا رہے ہیں کہ وہ جہاد نہیں تھا ایک چھوٹا سا غیر منظم  ،غیر تربیت یافتہ  ظالموں کا ایک چھوٹا سا جلوس تھا  اور’’ سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور وہ اس کا حق  دار تھا کہ اُسے شکست ہوتی‘‘   ’’سراج الدولہ پورے بنگال کا بادشاہ 12 بجے سو کر اُٹھتا تھا‘‘   ’’سارا دن بسترپر۔ رات کنیزوں اور لونڈیوں کے درمیان‘‘    ’’برصغیر کے سارے حکمران ڈوبے ہوئے تھے سارنگیوں میں تو اللہ نے انگریز کو بھیجا۔ جائو ان سب کو جوتے مارو اور ان کو تخت سے کان سےپکڑ کر اتاردو‘‘   ’’میرے اللہ کو مسلمانوں کا اقتدار ختم کرنا تھا تو وہ اس سال موجیں ہی نہیں آئیں‘‘  ’’جب ضمیر سوتا ہے تو پھر ایسے ہوتا ہے۔تو انہیں ڈوبنا چاہئیے۔ انہیں مرنا چاہئیے۔ انہیں غلامی کا طوق پہننا ہو گا ‘‘۔’’  1857  کی جنگ آزادی۔  وہ ایسے جیسے یہ ہمارا جلوس نہیں ہوتا۔ان جلوسوں نے کبھی کچھ کیا ہے؟   جلوسوں سے کچھ نہیں ہوتا۔سوائے اس کے دو چار گاڑیاں جلادو ‘‘   ’’ جب انہوں نے دلی پر قبضہ کیا تو وہاں 70 انگریز عورتیں تھیں 30 عورتیں اور 40 بچے ۔ انہوں نے سب کو ذبح کر دیا ۔ کیا ان کے ساتھ اللہ ہو گا جو عورتوں کو ذبح کرتے ہیں ۔ جو بچوں کو ذبح کرتے ہیں۔انہوں نے ناکام ہونا ہی تھا ‘‘۔

یعنی مسلمان بادشاہ شرابی زانی بد مست لونڈیوں کے رسیا۔اللہ نے خود انگریز کو بھیجا کہ ان کو کان سے پکڑ کر اتارو اور باہر پھینکو،اللہ نے عذاباً دریائے توی کو بھی روک دیا۔1857 ایک چھوٹا سا جلوس ،اور 1857 میں حصہ لینے والے ظالم عورتوں بچوں کو ذبح کرنے والے  اللہ کے دشمن ۔ اگر یہ برصغیر کی اسلامی تاریخ کا خلاصہ ہے تو  پھرتو مفتی منیب الر حمٰن صاحب کی بات درست ہے کہ ’’   تاریخ پڑھائی ہی نہیں جارہی۔آپ مطالعہ پاکستان کا نصاب اُٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں آپ کو ملک کی تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں ملے گا ‘‘.؎۔

Comments are closed.