راجہ صاحب محمود آباد، قائداعظم اور سرظفراللہ خان

آصف جیلانی 

راجہ صاحب محمود آباد 1931سے آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے پاکستان کی تحریک کے ممتاز رہنماتھے۔ یہی نہیں ان کے خاندان کے قائد اعظم محمد علی جناح سے بے حد قریبی تعلقات تھے۔ قائد اعظم کی شادی پر ان کی دلہن رتی بائی کو راجہ صاحب کے والد مہاراجہ سر محمد علی محمد خان نے قیمتی انگھوٹھی کا تحفہ دیا تھا۔ 

راجہ صاحب محمود آبادنے ،قیام پاکستان سے پہلے 1945میں ترک وطن کر کے عراق میں سکونت اختیار کر لی تھی، 1954میں پاکستان میں مختصر قیام کے بعد وہ لندن منتقل ہوگئے تھے۔یہاں انہیں لندن کے اسلامک ثقافتی مرکز کاپہلاڈائرکٹر مقرر کیا گیا۔سن 70ء کے اوائل میں راجہ صاحب سے پاکستا ن کی تحریک اور خاص طور پر ان کے اور ان کے خاندان کی قائد اعظم سے قربت کے بارے میں بات چیت ہورہی تھی ۔ میں نے راجہ صاحب سے پوچھا کہ قائد اعظم پاکستان کو کس نوعیت کی مملکت بنانے کے خواہش مند تھے۔

میرے سوال پر راجہ صاحب نے لمبی گہری سانس لی، مجھے ایسا لگا کہ یہ گہری سانس وقت کی سرحدیں پھلانگ کر انہیں قائد اعظم کی زندگی کے دور تک لے گئی ہے۔ وہ سامنے وسیع ریجنٹ پارک کے آسمان کی طرف جس طرح دیکھ رہے تھے ،یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اپنی پرانی یادوں کو تلاش کر رہے ہیں۔

اچانک انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میں آپ کو نہایت اہم واقعہ بتاتا ہوں۔ کہنے لگے جنوری 1931کی بات ہے میرے والد حیات تھے، ان کی صدارت میں محمود آباد میں مسلم لیگ کا جلسہ ہورہا تھا۔ قائد اعظم ان کے برابر بیٹھے تھے۔ 

راجہ صاحب نے کہا کہ جب میری تقریر کی باری آئی تو میں نے دھواں دھار تقریر شروع کی کہ پاکستان میں اسلامی شرعی ریاست قائم ہوگی جو ساری دنیا کے لئے اسلامی ریاست کا نمونہ ثابت ہوگی۔
راجہ صاحب نے کہا کہ میں ہکا بکا رہ گیا جب تقریر کے دوران جناح صاحب نے بڑے زور سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اورمجھے تقریر کرنے سے روک دیا۔ کہنے لگے کہ یہ ہرگز مسلم لیگ کا موقف نہیں ہے ۔ ہم پاکستان کوہرگز   مذہبی مملکت (تھیو کریٹک)نہیں بنانا چاہتے ہیں ۔ 

ایک طویل وقفہ کے بعد راجہ صاحب نے کہا کہ اس وقت میری عمر سترہ سا ل تھی، پاکستان کے قیام کے مقصد کے بارے میں قائد اعظم کے اس بیان نے مجھے ہلا کر تو رکھ دیا لیکن اس کی بدولت مجھے قائد کے سیاسی فلسفہ اور ان کی منزل مقصود کے بارے میں ادراک میں مدد ملی۔ راجہ صاحب کہنے لگے کہ قائد اعظم در اصل بر صغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست حاصل کرنا چاہتے تھے اور ان کا موقف تھا کہ اس ریاست کے حصول کے بعد پاکستان کے عوام یہ طے کریں گے کہ وہ کس نوعیت کا آئین اور نظام رائج کرنا چاہتے ہیں۔ 

راجہ صاحب کا کہنا تھا کہ قائد کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ پاکستان میں اگر شریعت کے نفاذ کی بات کی گئی تو سوال یہ پیدا ہوگا کہ کون سی شریعت ۔ پھر کس فقہ کی شریعت ، یوں ایک پنڈورہ بکس کھل جائے گا اور پاکستان ایسی دلدل میں دھنس جائے گا جس سے نکل کر اسے ترقی کی راہ پر چلنا محال ہوجائے گا۔ 

راجہ صاحب اس موضوع پر تفصیل سے لکھنے کاارادہ رکھتے تھے لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا اور محض اٹھاون برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ 

چوہدری سر ظفر اللہ ۔
چوہدری سر ظفر اللہ خان، احمدی جماعت کے ممتاز رکن تھے۔ان کے والد چوہدری نصراللہ ، احمدی جماعت کے بانی مرزا غلام احمد کے قریبی ساتھی تھے۔قائد اعظم کی ایماء اور اصرار پر سر ظفراللہ خان نے 1930میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی اور 1831اور 1932میں مسلم لیگ کے صدر رہے۔ 1935سے1945تک قائد اعظم کی آشیر باد اور خواہش کے مطابق ، سر ظفر اللہ وایسرائے کی ایگزٹیو کاونسل میں مسلمانوں کے نمایندہ کی حیثیت سے فرایض انجام دیتے رہے۔ جولائی 1947میں قاید اعظم نے سر ظفر اللہ خان کو ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے تعین کے لئے ریڈ کلف کمیشن میں مسلم لیگ کی نمایندگی سونپی ۔ اکتوبر 1947میں سر ظفر اللہ خان کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستان کا نمایندہ مقرر کیا گیاتھا۔ اور اسی سال قائد اعظم نے سر ظفر اللہ خان کو پاکستان کا پہلا وزیر خارجہ مقرر کیا۔

وزیر خارجہ کی حیثیت سے سر ظفر اللہ خان نے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں مشہور تاریخی قرار دادمقاصدپر بحث میں بھرپور طور سے حصہ لیا تھا۔اس قرارداد میں پیمان کیا گیا ہے کہ اسلام میں جمہوریت، آزادی ، مساوات ، قوت برداشت اور سماجی انصاف کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے اس پر عمل کیا جائے گا۔ اور پاکستان میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کے جایز حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ 
سر ظفر اللہ خان،لیاقت علی خان، خواجہ ناظم الدین اور محمد علی بوگرہ کی کابیناوں میں وزیر خارجہ رہے ۔ اس عہدہ پر وہ 1948سے 1954تک فایز رہے جس کے بعد انہیں بین الاقوامی عدالت انصاف کا نایب صدر مقرر کیا گیا۔

وزیر خارجہ کے عہدہ سے سبک دوش ہونے کے بعد مارچ 1958میں ظفراللہ خان نے عمرہ ادا کیا ۔ اس دوران وہ سعودی فرما روا ابن سعود کے خاص مہمان تھے ۔ 1967میں سر ظفر اللہ خان نے فریضہ حج اد کیا۔

♦ 

3 Comments