قادیانی مسئلہ: محمد اظہار الحق صاحب کی تجاویز اور مغالطے

چوہدری نعیم احمدباجوہ 

معروف کالم نگار محمد اظہار الحق صاحب نے اپنے مستقل کالم’’ تلخ نوائی ‘‘ میں احمدیوں کے مسئلے پر بعض تجاویز دی ہیں۔ یہ کالم روزنامہ92 میں8 ستمبر 2018 کی اشاعت میں شائع ہو اہے۔ محمد اظہار الحق صاحب کے متعلق خوش فہمی یہی تھی کہ علمی اور ٹھوس بات کرنے کے روا دار ہیں۔دانشور ابن دانشور ہیں۔ کوئی کچی بات ان کو زیب دیتی نہیں ۔ لیکن بے سرو پا باتیں کرکے بھرم توڑ دیا۔ خاموشی واقعی بہت بڑی نعمت ہے عیب چھپے رہتے ہیں ۔ 

لکھتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کو باہر سے فنڈز مل رہے ہیں۔ محترمی! آپ نے ستر برس کی عمر میں اپنے اوپر ایک ایسا قرض چڑھا لیا جس کے ثبوت لانے میں اگر آپ اگلے ستر برس بھی لگے رہیں تو لا نہ سکیں گے۔ قوم منتظر رہے گی اور آپ پرقرض واجب الادا رہے گا۔ ثبوتوں سمیت باہر سے فنڈز ملنے کا معاملہ سامنے لے آئیے۔ ہاںیہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض اوقات افریقہ میں دیگر مسلمان اپنی زکوۃ جماعت احمدیہ کو دے جاتے ہیں وجہ یہ کہ اپنے آئمہ پر اعتماد نہیں۔ 

احمدیوں کا سارا مالی نظام ممبران کے چندے پر مشتمل ہے ۔ سوال مگر یہ ہے کہ لوگ دیتے کیوں ہیں ۔؟ اور ایک صدی سے زائد عرصے سے دیتے کیوں چلے جا رہے ہیں ۔ وجہ صاف ہے اعتماد ہے کہ ایک پائی بھی ضائع نہ ہوگی ۔ جس اعتماد کے لئے وزیر اعظم صاحب بار بار اعلان کر رہے ہیں ۔ جماعت احمدیہ سو سال قبل یہ اعتماد لوگوں کودے چکی۔ صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں یہ اعتماد قائم کر چکی۔ اب معاملہ یوں ہے کہ بعض اوقات کسی فرد کی اصلاح کے لئے سزا یہ تجویز ہوتی ہے کہ اس سے چندہ لینا بند کر دیا جاتا ہے۔ اموال کی پاکیزگی کا یہ عالم کہ مغربی ممالک میں حالت اضطراب میں کسی ممنوعہ ریسورنٹ پر کام کرنے والے سے چندہ لیا ہی نہیں جاتا۔

خدمت خلق میں احمدی رضار کا ر افریقہ کے ان دور دراز علاقوں تک چلے گئے ہیں جہاں تک جانے میں واقعی لفظاً و معناً ہاتھ پیر اور پر جلتے ہیں۔ باہر سے فنڈز لینے کی بات کہاں سے آگئی ،صاف پانی ، تعلیم ، بجلی ، میڈیکل کی سہولتیں دینے کے لئے جماعت احمدیہ دونوں ہاتھوں سے فنڈز لٹارہی ہے ۔ حکومت کینیڈا کی طرف سے دئیے گئے فنڈز شکریہ کے ساتھ واپس کرنے کی مثال بھی صرف جماعت احمدیہ ہی قائم کر سکی کہ اس رقم کو ہماری طرف سے ضرورت مندوں پر صرف کر دیجئے۔ 

جناب والا ! اکیسویں صدی کے اس دور جدید میں عقائد سے عوام اورخاص طو رپر مغرب میں پروان چڑھتی نوجوان نسل کو لا علم رکھنے کی بات کر کے واقعی آپ نے اپنی لاعلمی کا پول کھول دیا۔ آج یہ ممکن کیسے ہے ۔؟ احمدیوں کا سارا لٹریچر میسرہے۔ کئی ایک ویب سائیٹس مختلف زبانوں میں یہ کتب مہیا کررہی ہیں۔ جماعت احمدیہ کے کئی ٹی وی چینلز ، کئی ریڈیو چینلز، بیسیوں اخبارات ، رسائل ،ہزاروں کتب، دنیا بھر میں احمدیوں کے کئی پریس مسلسل لاکھوں کی تعداد میں پرنٹنگ کر رہے ہیں ۔ کیا اسے عقائد کو چھپانا کہا جاسکتا ہے۔ 

کہا آپ نے ’’قادیانی خاندانی نظام مربوط اور مضبوط برادری سسٹم پر قائم ہے‘‘ ۔ حضرت شعیب سے بھی یہی کہا گیا تھا ’’ لو لا رھطک ‘‘ یعنی اگر تیری برادری مضبوط نہ ہوتی تو ہم تجھے سنگسار کر دیتے۔ (سورہ ہود ) آج وہی بات آپ کر رہے ہیں کہ احمدی مربوط برداری سسٹم کی وجہ سے ترقی کر گئے ہیں ۔ یا للعجب۔ فاعتبروا یااولیٰ الابصار ۔

سوچنے کی بات یہ کہ احمدیہ مخالف مسلمان جن کو تعلیم ہی اخوت کی ہے مربوط نظام کیوں نہ بناسکے۔؟ وسائل کی کمی تھی نہ علما ء کی۔ حکومت بھی تھی دولت بھی ۔ عاشقان ، محبان ، فدائیان بھی کم پیدا نہیں ہوئے۔تنظیمیں بھی کم قائم نہیں ہوئیں۔ احمدی کوئی آسمان سے تو اترے نہیں تھے۔ یہیں سے ہر برادری سے نکل نکل کر احمدیت میں داخل ہوئے۔ آپ کے سامنے قطرہ قطرہ دریا کیا سمندر بن گیا۔فرد فرد آیا اور قافلہ بنتا چلا گیا۔ 

اگر سن سکیں تو اصل کہانی تنظیم نہ بننے اور احمدیوں کے مد مقابل ناکامی کا اقرارمولانا عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب 1892-1961)) کی زبانی سن لیجئے ۔ وہ ساری عمر احمدیوں کو گندی گالیاں دیتے رہے ۔ ہر قسم کی تعلی کے باوجود حسرت و یاس لیے ملتان کی مٹی میں جا سوئے۔پر جاتے جاتے اپنے مشن کی ناکامی کا اظہا رضرور کرگئے۔ سچ بات ان کے منہ سے ادا ہوگئی ۔کرلاتی روح کے ساتھ شاہ صاحب کے دل کی گہرائیوں سے نکلے حسرت و ناکامی کے یہ الفاظ تاریخ کا حصہ ہیں
۔’’
ہمارا سرمایہ خوب تھا لیکن نسل ناخوب تھی ، نتیجہ ظاہر ہے ۔ آبائی ورثہ بھی کھویا ، اپنی کمائی بھی گنوائی اور مستقل کو بھی مخدوش بنا دیا۔‘‘( آواز دوست از مختار مسعود ص 132 )۔

آج بھی علماء پاکستان دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ چاند تک بھی قادیانیت کا پیچھا کریں گے۔ بھول مگر یہ جاتے ہیں کہ چاند پر کمند ڈالنے والا پہلا کون ہے۔ یہ گروہ عاشقاں قادیانیوں سے پہلے چاند تک پہنچنے میں ہر دفعہ کیوں ناکام رہتا ہے ۔ آپ نے کہا’’ قومی اسمبلی میں غیر مسلم قرا ردے دیا تو ا سکے بعد ترغیب ۔ تحریص ۔ اور تبلیغ کا دور آجانا چاہئے تھا‘‘۔

بالکل ایسا ہی کرنا چاہئے تھا۔ اور ابتدا سے ہی یہ رویہ ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ا س کے لئے شہر طائف میں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ہاتھ میں پتھر اٹھائے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے نہیں۔ پتھر کھاتے ہوئے بہتے لہو کے ساتھ۔ لبوں پر دل کی اتھا ہ گہرائیوں سے دعا دیتے ہوئے ۔ اور عین حالت تکلیف میں خون صاف کرتے ہوئے اختیار ملنے کے باوجود معاف کرنے کا پہاڑوں سے بلند حوصلہ چاہئے ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ ہمیں ہمارے آقا و مولیٰ نے سکھایا ۔ لیکن آج اس پر عمل پیرا کو ن ہے ۔ وہی احمدی جو بدترین کافر ٹھرائے گئے ہیں۔آپ کہاں سے لائیں گے ایسے بلند حوصلہ لعل و جواہر۔؟ ہاں مگر ایک ہی دن میں لاہور میں سو کے قریب لاشے اٹھانے والے احمدیوں نے یہ ثابت ضرور کر دیا کہ انہیں ترقی کیوں ملنی چاہئے۔ دودھ پینے والے مجنوں کون ہیں اور خون دینے والے کون۔ اور خون کے پیاسے درندے کون۔؟اپنی عمر کے ستر برسوں میں کوئی دھرنا ، ہڑتال، ہنگامہ آرائی ، قتل و غارت ، روڈ بلاک اور ٹریفک جام احمدیوں کی طرف سے بھی کبھی دیکھا آپ نے؟

آپ نے ایک سو فیصد سچا واقعہ سنایا ۔ آپ کے بیان کردہ اس شمالی امریکہ ماڈل کو احمدی ویلکم کہیں گے۔ ضرور لے آئیے۔ اور پاکستان کے قریہ قریہ میں اس کو آزمائیے۔ وہاں تو ایک مجاہد نے چند ملاقاتوں میں ایک ’’ گمراہ ‘‘ کو بچا لیا ۔پاکستان میں تو مومنین یہ کام بآسانی سر انجام دے کر اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لئے حل کر سکتے ہیں۔نئی احمدی نسل کا ایک سو فیصد سچا واقعہ آپ بھی سنتے جائیے۔ 
گڑھی شاہو میں احمدیہ بیت الذکر پر 2010 میں ہونے والے حملے میں ایک احمدی مارا گیا۔ اگلے جمعہ اس کی بیوہ نے اپنے بیٹے کو نہلا دھلا کر جمعہ کے لئے تیا رکیا اور نصیحت کی بیٹا اسی جگہ پر جا کر کھڑے ہونا جہاں تمھارا باپ مارا گیا ۔ یہ ہے نوجوان احمدی نسل جو احمدی ماؤں کی گودوں میں پروان چڑھ رہی ہے۔ اور ماڈل ٹاؤن میں نشانہ بننے والوں میں سے والدین کا اکلوتا بیٹا جب جان کی بازی ہار گیا تو والدین نے کہا ہم نے اپنا بیٹا اپنی گود سے اٹھا کے خد اکی گود میں رکھ دیا ۔ ہم بھی جان دینے کے لئے تیا رہیں۔ کیا بند فرقے (کلٹ) ایسی تبدیلیاں پید ا کر سکتے ہیں۔ 

فرق صرف یہ ہے کہ غازیان نے تو تلوا راٹھا لی اور احمدیوں نے کلمہ و نماز کو حرز جان بناکر اپنی الگ پہچان بنا لی ۔ اپنے ہمسائے، کالم نگار اور اینکر پرسن جاوید چوہدری کا بیان کردہ صرف ایک چھوٹا سا نمونہ ملاحظہ ہو۔ لکھتے ہیں۔

’’ ہم شک، پروپیگنڈے اور کسی کو تسلیم نہ کرنے کی بدعت کے اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ ہم اب لوگوں کی نمازوں تک میں کیڑے نکال لیتے ہیں۔ مجھے ایک صاحب کسی کے بارے میں بتا رہے تھے وہ قادیانی ہے ۔ میں نے پوچھاتمہیں کیسے پتا چلا ۔ اس نے جواب دیا ۔ وہ بار بار کلمہ پڑھتا ہے اور ایسا کرنے والے لوگ قادیانی ہوتے ہیں ۔میں سر پکڑ کربیٹھ گیا۔ ‘‘ ( زیرو پوائنٹ ۔ ایکسپریس 14 جون2012 )

آپ نے مثال بہائی ازم کی دی ہے ۔ بہاء اللہ کا دعویٰ جماعت احمدیہ کے قیام سے 26 سال پہلے سامنے آیا ۔ آج بہائیت کہاں ہے اور احمدیت کہاں کھڑی ہے ۔ اگر معاملہ صرف مار کٹائی کا ہوتا تو وہ عالمی سطح پر احمدیت سے آگے کھڑے ہوتے۔ 

اگراحمدیوں کے عقائد غیر منطقی اور کمزور ہیں تو مسئلہ آسان ہونا چاہئے تھانہ کہ مشکل ۔ گلی گلی مفت ختم نبوت کورسز پڑھانے والے ہزاروں علماء اور مدرسے قادیانیوں کے غیر منطقی عقائد سے خائف کیوں ہیں ۔ خائف ہونے کا ثبوت یہ کہ بات دلیل سے نہیں کرتے مار کٹائی کی زبان بولتے ہیں۔ جبکہ تعلیم ’’ ان کے ساتھ احسن طریق پر مجادلہ کر ‘‘ کی پڑھتے ہیں۔خدائی کے دعویدار فرعون سے تو نرم بات کرنے کا حکم کلیم اللہ کو ملا۔ لیکن یہ اکثریت مسئلہ نبوت پر نرم بات رد کر کے گولی کی زبان بولتے ہوئے بڑی خدائی کا دعویٰ کرنے پر مصر کیوں ہے۔؟ حالانکہ مسئلہ توحید بہر حال مسئلہ نبوت سے پہلے ہے ۔

چلیں احمدی تو بد ترین کافر ٹھرائے گئے ۔ ان کا قصور تو بہت بڑا ہے ۔ ان کے ساتھ نرم بات کرنے کے روادار نہیں ہوناچاہتے لیکن باقی فرقے ایک دوسرے کی جان کے دشمن کیوں ہیں۔ پاکستان میں بیسیوں ایسی مساجد ہیں جن کے صدر دروازے پر یہ تحریر آویزاں ہے کہ یہ فلاں خاص فرقے کی مسجد ہے اس میں فلاں فلاں فرقے کے لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔ 

یہ آپ کا مغالطہ ہے کہ آج کے علماء تحریص ترغیب اور تبلیغ سے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ کیونکہ ایسا کرنے سے مفادات پر زد پڑتی ہے ۔ اگرحوصلہ ہو تو دل تھام کر دیکھ لیجئے کہ مشہور اہلحدیث عالم نواب صدیق حسن خاں صاحب کے فرزند مولوی نورالحسن خاں صاحب کیا لکھتے ہیں :

’’یہ بڑے بڑے فقہیہ ، یہ بڑے بڑے مدرس، یہ بڑے بڑے درویش ، جو ڈنکا دینداری ، خد اپرستی کا بجا رہے ہیں ردّ حق تائید باطل تقلید مذہب وتقید مشرب میں مخدومِ عوام کالانعام ہیں ۔ سچ پوچھو تو دراصل پیٹ کے بندے ، نفس کے مرید ، ابلیس کے شاگرد ہیں ۔ چندیں شکل از برائے اکل ان کی دوستی دشمنی ان کے باہم کا ردّ و کد فقط اسی حسدو کینہ کے لئے ہے نہ خد اکے لئے نہ امام کے لئے نہ رسول کے لئے ۔ علم میں مجتہد مجدد ہیں ۔ لاکن حق ، باطل ، حلال ، حرام ، میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ غیبت ، سب و شتم ، خدیعت و زور ، کذب و فجور ، افترا ء کو گویا صالحات باقیات سمجھ کر رات دن بذریعہ بیان و زبان ، خلق میں اشاعت فرماتے ہیں ‘‘ (اقتراب الساعۃ۔ ص ۸ مطبع سعید المطابع الکائنہ بنارس

ہاں اگر ترغیب ، تحریص اور تبلیغ کرنا چاہیں تو احمدیوں کے امام تو پہلے ہی سے یہ صدا لگا رہے ہیں : ۔

دنیا کے بہترین دماغوں میں شمار کیا جانے والا عاطف میاں کئی سال کی تحقیق اور مطالعہ کے بعد 2002 میں احمدی ہوا۔کس لالچ ، کس آمریت اور نگرانی نے انہیں باند ھ رکھا ہے ۔ان کا اپنا بیان ریکارڈ پر ہے شاید اسے بھی آپ جیسے صاحبان علم آمریت کی وجہ سے دیا گیا بیان کہیں گے۔ خدا را احمدیت کی مخالفت میں اتنا آگے نہ جائیں کہ زد کہیں اور جا پڑے ۔ آنحضرت کی طرف سے حضرت کعب بن مالکؓ او رآپ کے ساتھیوں کے ساتھ کیے جانے والے مقاطعہ کو کوئی غیر مسلم آمریت کہے تو آپ کیا جواب ارشاد فرمائیں گے۔ افسوس آپ کا مبلغ العلم صرف اتنا ہی نکلا کہ بس احمدیوں پر تہمت لگا نا ہے ا س کے نتائج بے شک کتنے ہی بھیانک کیوں نہ نکل رہے ہوں ۔ 

2 Comments