کیا جنسی زیادتی کا شکار بننے والی لڑکی کے لیے شرمندہ ہونا ضروری ہے؟

سبط حسن

بچوں کو سکول میں استاد سے مار پڑ جائے اور مار پیٹ کے نشان دیکھ کر کوئی ان سے ان نشانوں کے بارے میں پوچھ لے تووہ کبھی نہیں مانتے کہ اصل واقعہ کیا تھا۔ اسی طرح اگر گھر میں باپ سے پٹائی ہو جائے تو بچے سکول میں جا کر اپنے ساتھیوں کے سامنے اس مار پیٹ کا اقرار کرنے سے کتراتے ہیں۔ یہی حال بیاہی عورتوں کا ہے۔ اپنی کلائی پر یا آنکھ کے نیچے پڑے نیل کے بارے میں کبھی نہیں بتاتیں کہ یہ نشان ان کے شوہر کی مار پیٹ کی وجہ سے پڑے ہیں۔

کسی ظلم کو سہنا اور پھرمظلوم (Victim)ہونے کی شرمندگی کے ساتھ جینا کسی بھی فرد کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں بہترین حل یہ ہے کہ اس شرمندگی کے واقعے کو سرے سے مانا ہی نہ جائے۔ اگر ایسی شرمندگی کا با عث بننے والا واقعہ مثلاً جنسی زیادتی، علی الاعلان بہت سے گواہوں کی موجودگی میں ہو جائے تو پھر اس کی قیمت جان دے کر دینی پڑتی ہے کیونکہ ایسی شرمندگی کے ساتھ زندہ رہنا کسی انسان کی نفسیاتی استطاعت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی مصیبت کا شکار بننے والا یا بننے والی اپنی پہچان والوں سے دور کسی اجنبی جگہ پر چلی جائے اور خاموشی سے اپنی زندگی گزار لے۔ 

جب تقسیمِ ہندوستان کے وقت ہجرت ہوئی تو قتل و غارتگری کے دوران عورتوں کو ریپ کیا گیااوریہ سب ان کے عزیزوں کی گواہی میں ہوا۔ ان کے پستان کاٹ دیے گئے۔ ان کے جنسی اعضا کو لوٹا گیا۔ ایسی صورتحال میں وہ کہیں چھپ نہ سکتی تھیں۔ وہ تو اپنے گھر بار چھوڑ نے کے بعدویسے، پہلے سے ہی ا جڑ چکی تھیں۔ ان کے لیے کوئی نئی جگہ تلاش کرنا ممکن نہ تھاکیونکہ ہجرت کے اس سفر میں وہ آ نے والے ایک لمحے کے بارے میں بھی کچھ وثوق سے نہ کہہ سکتی تھیں۔ ایسی ذلت اور پھر شرمندگی کے ساتھ جینا ممکن نہ تھا اس لیے انھوں نے آسودگی یہی جانی کہ اپنی جان لے لیں۔( اس دور میں اپنی جان سے نجات کا طریقہ زہر خورانی نہ تھا کیونکہ عورتوں کے گھر میں محصور ہونے کے باعث اس کا بندوبست کرنا ممکن نہ تھا۔ اس دور میں آسان طریقہ اپنی کلائی کی نس کاٹنا تھا۔ نس گھر کے کسی مرد کے زیر استعمال بلیڈ سے کاٹی جاتی تھی۔ )۔ ہجرت کے سفر کے دوران ایسا سب ممکن نہ تھا۔ اس لیے عورتوں نے کنویں؍نہر ؍ دریامیں چھلانگ لگا کر اپنی جانوں کے دکھ سے نجات حاصل کر لی۔ مردوں نے بھی اپنی عورتوں کی ذلت کا اشارہ ملتے ہی ،اس سے پہلے کہ کوئی ان کی طرف بڑھتا ، پہلے اپنے پیاروں کو مار دیا اور پھر اپنی جان لے لی ۔ 

سوال یہ ہے کہ اذیت دینے والے کی بجائے ایک مظلوم ہی کیوں شرمندہ ہوتا ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جب کوئی مظلوم شرمندہ ہوتا ہے تو ظالم کے اندر جرم سے پیدا ہونے والی خلش یا سزا کا اندیشہ ختم ہو جاتا ہے؟کہیں ایسا تو نہیں کہ شرمندگی کا یہ نظام ایک معاشرہ مہیا کرتا ہے اور یہ نظام مجرم کے لیے توآسودگی مہیا کرتا ہے اور اس کے برعکس مظلوم کے لیے ذلت اور شرمندگی کا بندوبست کرتا ہے؟

2

انسان ایک جسم میں قید ہوتا ہے یا یہ کہہ لیں کہ انسان ہونے کے لیے ایک جسم ضروری ہے۔ویسے تو دیگر جاندار وں کے لیے بھی کوئی نہ کوئی جسم ہوناضروری ہوتا ہے۔ اسی جسم کی بدولت ان جانداروں کے فطرت کی طرف سے طے کردہ کردارکی نشاندہی ممکن ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ایک شیر ایک ہرن سے جسمانی طور پر مختلف ہے۔ یہ اختلاف ان کی جسمانی ساخت پر منحصر ہے ۔ اسی ساخت کی وجہ ایک شیر ، شیر ہونے کی حیثیت اور ایک ہرن ،ایک ہرن ہونے کی حیثیت حاصل کرتا ہے۔جسمانی ساخت جو ایک شیر کو ، شیر بناتی ہے وہ اس کے لمبے دانت، جسمانی طاقت اور شکار کرنے کی مہارت ہے۔ اسی طرح ایک ہرن کے جسم میں جسمانی طاقت نہ سہی ،بھاگنے کی طاقت ہے جو شیر کو میسر نہیں ۔ہرن اور شیر دونوں میں فطرت نے ایک پروگرام طے کردیا ہے جو ان دونوں میں جبلت کی صورت میں موجود ہے۔ دیگر جانوروں کی طرح یہ دونوں ، فطرت کے سامنے اسیر ہیں۔

اس کے بر عکس اگرچہ انسان ہونے کے لیے بھی ایک جسم کی ضرورت ہوتی ہے مگر انسان صرف فطرت کا اسیر نہیں ۔ انسان ہونے کے لیے ایک شعور درکار ہوتا ہے۔اس شعور کی نوعیت انسانوں کا سماج طے کرتا ہے۔ اس کے لیے جسم کی ساخت کو بنیادبناتے ہوئے ہی شعور طے کیا جاتا ہے۔آپ سوچیں گے کہ یہ تو وہی ہوا جو دیگر جانداروں میں ہوتا ہے ۔کیا انسان بھی فطرت کا اسیر ہے؟ تہذیب دراصل فطرت کے جبلی کنٹرول کی اسیری سے آزادی کا سفر ہے اور یہ سفر انسانوں کے سماجوں میں ابھی ادھورا ہے۔اسی لیے ان سماجوں میں عورت کا جسم ، ایک عورت کا شعور عطا کرتا ہے اور ایک مرد کا جسم ایک مرد کا شعور۔ جب جسم فنا ہو جا تا ہے توشعور کی یہ دونوں شکلیں بھی ختم ہو جاتا ہے۔ 

انسان ہونا ، کوئی میکانکی عمل نہیں ، اسی طرح کہ جیسے ایک گلاس میں پانی ڈال لیں اور جب چاہیں اسے پی لیں یا اسے کسی اوربرتن میں انڈیل دیں۔انسان سوچ سکتا ہے ۔ وہ محسوس کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ وہ کسی واقعے کو رونما ہوئے بغیر اپنے تخیل کی قوّت سے دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے۔یہی صلاحیتّیں اسے ایک منفرد مقام عطا کرتی ہیں اور وہ انھی صلاحیّتوں کی بدولت اپنی دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شیر کے جسم کو اس کی فطرت سے عطا کردہ کارکردگی کے لیے اس کی کھوپڑی کے دونوں طرف آنکھیں درکار تھیں۔ انسان بننے کے لیے آنکھوں کا ماتھے کے نیچے ہونا ضروری تھا۔اسی تبدیلی کی بدولت شیر اور انسان کی دنیا میں فرق آیا جو بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ 

کسی بھی فرد کی نفسیاتی اور جسمانی سلامتی اس کے جسم کے ساتھ منسلک رہتی ہے۔ اس بات کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب آپ اندھیرے میں ہوں۔ روشنی میں آپ اپنے جسم کے ارد گرد کی چیزوں اور لوگوں کے ساتھ ایک تال میل محسوس کر سکتے ہیں۔ اندھیرے میں یہ تال میل ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھیرے میں کوئی بھی فرد اپنے آپ کوزیادہ غیر محفوظ محسوس کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی معمولی سی بھی چیزاس کے جسم کے ساتھ ٹکرا جائے تو صدمے کی انتہائی صورت کا تجربہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرکوئی فرد اندھیرے سے ڈرتا ہے۔ 

انسانی جسم کے مختلف اعضاء مختلف سماجی معانی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ کی نظر آپ کے لیے حفاظتی اینٹینا کا کام کرتی ہے ۔ اگر کوئی فرد یا چیز ناپسندیدہ ہو تو آپ اس کی طرف دوسری نگاہ نہیں ڈالتے ۔اگر بلاجواز آنکھیں کسی سے الجھ رہی ہوں تو آنکھوں کو جھکانے میں ہی عافیت رہتی ہے۔ اگر پسندیدگی ہو تو آپ دوسرے کو دیکھتے چلے جاتے ہیں۔ آپ کی آنکھوں میں محبت یا شفقت کی نمی پیدا ہو جائے گی۔ اس کا مطلب قبولیت ہے اور آپ کا اس چیز یا فرد کے ساتھ تعلق آگے بڑھ سکتا ہے۔ آپ کے جسم کی دوسری دفاع لائن آپ کے ہاتھ ہیں ۔ اگر کوئی چیز آپ کو پسند آ جائے تو آپ اسے اٹھا کر اس پر اپنا ہاتھ پھیر کر اسے محسوس کریں گے ۔اگر کوئی دوست بن کے آئے تو یہی ہاتھ آگے بڑھتے ہیں اور اس سے مصافحہ کرتے ہوئے اسے خوش آمدید کہتے ہیں ۔ اگر ناپسندیدہ فرد ہو تو ہاتھ مصافحہ تو کیا اسے چھونا بھی پسند نہیں کرتے۔

اس کے بعد آپ کا جسم آتا ہے جوایک زرہ بکتر کی طرح آپ کی حفاظت کرتا ہے۔ اگر مصافحے کے بعد پسندیدگی ایک قدم اور آگے بڑھ جائے تو پھر عدم تحفظ کا اندیشہ نہیں رہتا۔ ایسی قبولیت کے بعد آپ اس فرد کو اپنے سینے سے لگا لیں گے۔ یہ قربت کی تیسری منزل ہے اور اس میںمحض جسمانی واقعات رونما نہیں ہوتے، جذبات کا ایک سلسلہ بھی دبے دبے انداز میں بہنے لگتا ہے۔ یعنی یہ کہ جسمانی روداد محض میکانکی عمل نہیں ہوتا۔ انسان اگر میکانکی عوامل کا ذریعہ ہی ہوتا تو پھر انسانی رشتوں اور انسانی رشتوں کی لذت ممکن نہ ہوتی۔ جذبات کا یہی بہائو پیار کی صورت جلوہ گر ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ کا جسم کسی دوسرے کے جسم میں حلول کر جانا چاہتا ہے۔ یہ عمل چھونے سے شروع ہوتا ہے اورجسمانی ارتفاع (Orgasm)تک جاتا ہے۔ فطرت نے اس عمل کو انسانی نسل ہی نہیں، انسانی جذبات کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا۔ 

3

ٓعام طور پر زندگی میں مختلف معاملات کو ایک ڈھنگ سے لیا جاتا ہے اور وہ طے کردہ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح جیسے ہمارے ارد گرد کا موسم ایک ترتیب اور نظام کے تحت چلتا ہے ۔ اگر اس نظام میں کوئی واقعہ معمول سے ہٹ کر ہو جائے تو گھبراہٹ شروع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایسی غیر معمولی صورتحال اس وقت پیش آسکتی ہے جب کوئی طوفان آجائے۔ طوفان میں اندھیرے کی طرح ہی آپ اپنے ارد گرد سے کٹ جاتے ہیں۔ آپ کو اپنے جسم کی سلامتی کا احساس ختم ہونے لگتا ہے۔

جب کسی کی مرضی کے خلاف ، اس پر زبردستی یا تشدد کر کے یا بھلا پھسلا کر یا روایت کا حوالہ دے کر جب اس کے جسم پر دراندازی کی جاتی ہے تو اس وقت وہ فرداپنے آپ کو ایک طوفان میں گھرا، غیر محفوظ ،بے بس اور شکست خوردہ محسوس کرتا ہے۔ جب کسی پر تشدد کیا جاتا ہے یا جنسی حملہ کیا جاتا ہے تواس کا شکار بننے والے کااپنے جسم پر اختیار ختم ہو جاتا ہے ۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جس میں اس کے جسم کا اس کے ساتھ رشتہ ٹوٹنے لگتا جاتا ہے ۔ اسے اپنے آپ اور اپنی دنیا کے درمیان تعلق کی ترتیب ختم ہوتی نظر آتی ہے ۔ اسے اپنے احساسات اور ان کی وساطت سے اس کی دنیا کے ساتھ تعلق بے معنی ہو جاتا ہے۔

طلوع ہوتے سورج کو دیکھ کر یا ایک بچے کی مسکراہٹ کو دیکھ کر جو احساسات اس کے دل میں ارتعاش پیدا کرتے تھے ، وہ سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ وہ یہ سب دیکھ رہا ہوتا ہے مگر یہ سب اسے اجنبی سالگتا ہے۔ اگر اس صورتحال کی تصویر کشی کی جائے توایک ایسا شخص سامنے آتا ہے جو نیند اوربیداری کی درمیانی صورتحال میں کچھ محسوس تو کر رہا ہے مگر وہ انھیں بیان کرنے سے قاصر ہے۔ وہ بولنا تو چاہتا ہے مگر اس کا جسم اس کیفیت میں منجمد ہو چکا ہے۔ وہ بول نہیں سکتا۔ اس کے اعصاب شل ہو چکے ہیں اور وہ انھیں ذرا برابر بھی جنبش نہیں دے سکتا۔ اسے لگتا ہے کہ وہ ،وہ فرد نہیں جو اس رات سویا تھا۔ اسے لگتا ہے کہ جیسے یہ سب اس کے ساتھ نہیں بلکہ کسی اور کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اس طرح ایک بے بسی کی صورتحال میں اس کا جسم جو اس کی زیست کی پہچان تھا اب اس کے سامنے کٹا پھٹا پڑا ہوتاہے اور وہ اس کو پہچان بھی نہیں پاتا۔ اس سے اس کے انسان ہونے کا اختیار بھی چھین لیا جاتا ہے۔ تشدد سہنے کی اس صورتحال میں ، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ انسان اپنے آپ کو کس قدر تنہا محسوس کرتا ہے۔ جس طرح کسی جسمانی روگ میں کوئی فرد اپنے جسم کادرد اکیلے ہی سہتا ہے اور اس کے ارد گرد اس کے عزیز بڑے خلوص اور دردمندی سے اس کی مدد کرنے کی خواہش کے باوجود بھی اس کی مدد کرنے کی اہلیت کھو دیتے ہیں ،اسی طرح جب کوئی فرد تشدد سہتا ہے تو وہ بالکل اکیلا ہی ہوتا ہے۔ 

4

اب سوال پیدا ہو تا ہے کہ آخر وہ کونسے حالات ہیں کہ جن کی وجہ سے مرد ہی عورتوں پر جنسی زیادتیاں کرتے ہیں ، عورتیں کیوں ایسا نہیں کرتیں؟ آخر وہ کون سے اسباب ہیں کہ جن کی وجہ سے مرد چھوٹی معصوم بچیوں اور بچوں کو بھی اپنے تشدد کا نشانہ اس طرح بنا دیتے ہیں کہ جیسے انھوں نے کوئی ضروری روزمرہ کا کام انجام دے دیا ہو۔ 

اگر یہ کہا جائے کہ ایک تخلیق کرنے والے فنکار او ر ایک بد انسان میں کوئی مشترکہ چیز ہے تو آپ اسے سرے سے ہی ردّ کردیں گے۔ آپ مانے یا نہ مانیں دونوں میں ایک خاصیّت مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں تخلیق کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دونوں اسی تخلیقی قوّت کی بنیاد پر دنیا کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی جانب دیکھے۔اسی طرح جیسے ایک تماشا کرنے والا ایک جدت کا دعویٰ کرکے یا اس کی جھلک دکھا کر یا اس کا ایک شائبہ سا پیدا کر کے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے۔ دونوں ایسا کرنے سے پہلے کسی تخلیق کے ہلکے سے شائبے کو بہت خفیف سے اشارے میں محسوس کرتے ہیں۔ اس اشارے یا شائبے کی نمائندگی یا اس کے اظہا ر کے لیے اس وقت کوئی علامت ، خیال یا چیز ارد گرد کی دنیا میں موجود نہیں ہوتی۔ دونوں اپنے سابقہ تجربات اور تکنیکی تربیت کی بنیاد پر ایسے شائبے کے ممکن ہونے کا اشارہ پاتے ہیں ۔

یہ ویسی ہی صورتحال ہے جو خصوصی بچے (Autistic Children)اپنی دنیا کے ساتھ ربط بنا نے میں محسوس کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں اپنی ارد گرد کی دنیا کے ساتھ ایک تعلق بنانے کی تحریک تو محسوس کرتے ہیں مگر اس دنیا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ کوئی مرد جنسی تشدد ؍زیادتی کرنے سے پہلے ایسی ہی کیفیت محسوس کرتا ہے اور اس کے پیچھے و ہ تمام نظریات اور مثالیں ہوتی ہیں جو اس کا مضبوط حوالہ یاتحریک بنتی ہیں۔ جس طرح ایک فنکار یا مجرم کے اندر پیدا ہونے والی تحریک ایک شائبے سے ایک ٹھوس حقیقت بننے کے لیے سماجی حوالوں کی محتاج ہوتی ہے اسی طرح ایک مرد جنسی تشدد کی تحریک کو عملی روپ دینے کے لیے سماجی طور پرسازگار ماحول کا متقاضی ہوتا ہے۔

اس کی مثال ہٹلر کے فاشزم سے دی جاسکتی ہے۔ اس نے اپنے اندر اٹھنے والی انسان دشمن تحریکات کو ایک سماجی و سیاسی نظام کی صورت میں ڈھالنے کی کوشش کی اسی نے ایک فاشزم کی صورت اختیار کر لی۔ اس تناظر میںیہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت پر ہونے والی زیادتیاں دراصل اس دنیا میں اس کے لیے طے کردہ شعور کے باعث ہوتی ہیں۔ اس شعور کے تحت مرد کو ہر عورت کے جسم میںچھپی کوئی جنسی کشش محسوس ہوتی ہے۔ صرف یہی نہیں اس کو یہ سمجھایا جاتا ہے کہ یہ سامان مرودں کی آسودگی کے لیے ہوتا ہے۔ (یہی وجہ ہے کہ ایک جاہل مرد کوایک ننھی بچی کے جسم میں بھی ایک عورت نظر آتی ہے اور وہ اس پر مجرمانہ حملہ کرنے سے نہیں چُوکتا۔) حالانکہ جنسی تلذذ کا ارتفاع ، اس میں شامل فریقین کی شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہوتا اور بصورت ِ دیگر یہ ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔

5

ہر اس معاشرے میںجہاں مردوں کی حکمرانی ہے ، عورتوں کو ریپ کرنا، ان کی تذلیل کرنا اور انھیں ادنیٰ سمجھنا ایک معمول سمجھا جاتا ہے۔ ایسا اس وقت ممکن ہوا جب عورتوں کی ممکنہ حفاظت کے لیے مامور اخلاقی رکاوٹوں کو ترک کر دیا گیا۔مثال کے طور پر یہ کہ معاشرہ مردوں کو یہ اختیار دیتا (Authorization)ہے کہ وہ ایسا کر لیں ۔ چونکہ اس اختیار کی تفویض کا تعلق مردوں کی خواہش سے ہوتا ہے ، اس لیے مردایسا کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ اگرزیادہ سنجیدگی سے سوال کیا جائے تو جواب یہ ہو گا کہ دراصل عورت نے مرد کو بھلایا پھسلایا تو ایسا ہوا۔ اس نے ترغیب دی تو مرد کے جذبات بھڑکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کا اپنی اخلاقی قوّت پر کنٹرول اس قدر کمزور ہے کہ وہ عورت کے محض جسمانی وجود سے ہی ختم ہو جاتا ہے۔

ویسے بھی ، اگر کوئی لڑکا عورتوں کے ساتھ دست درازی کرتا ہے تو اس پر سوال اٹھانے والوں کو محض یہ کہہ کر چپ کروا دیا جاتا ہے کہ آخر تو وہ ایک مرد ہے۔ عورتوں کے ساتھ بد سلوکی کو روزمرہ کا معمول سمجھتے ہوئے اسے قبولیت (Routinization)دے دی گئی ہے۔ اگر کسی عورت کے ساتھ بد سلوکی کا کوئی واقعہ ہو جائے تو اول تووہ اپنے آپ کو یہ سمجھا کر خاموش ہو جاتی ہے کہ ایسا کون سا پہلی بار ہوا ہے وگرنہ اسی دلیل کی بنیاد پر ارد گرد کے لوگ اسے چپ رہنے پر مجبور کر دیں گے۔ کسی ادنیٰ جرم یا کسی گھنائونے جرم کو اگر روز مرہ کا معمول سمجھ لیا جائے تو اس جرم کی قبولیت بھی معمول بن جاتی ہے۔

اس سلسلے میں تیسری وجہ انسانوں کے کچھ گروہوں کو غیرجاندار بنا دینے کا عمل(Dehumanization) ہے۔ مثال کے طور پر آپ اپنے دشمن کو اس وقت تک قتل نہیں کرسکتے جب تک آپ اس کے انسان ہونے کی نفی نہ کر دیں۔ جب آپ کسی پرندے کو بندوق سے مارتے ہیں تو آپ کے ذہن میں اس کے جاندار ہونے کا وجود اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ آپ کی خوراک بننے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس طرح آپ اس کے اپنی ذات میں جاندار ہونے کے جواز کو ختم کردیتے ہیں۔ اسی طرح جب یہ سمجھا جائے کہ عورتوں کو جب مرودں کی آسائش اور خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور ان کا وجود اسی پرندے کی سطح پر آجاتا ہے جسے کسی خلش یا اخلاقی دباوکے بغیر مارا جا سکتا ہے۔

اس صورتحال میں کسی جاندارکو ایک استعمال کرنے والی شئے کی سطح پردھکیل دیا جاتا ہے۔ جب آپ کسی کو انسان سمجھتے ہیں تو آپ اس فرد کا قانونی یا اخلاقی طور پر زیست کا حق تسلیم کر لیتے ہیں۔ کسی کی انسانی حیثیت کی نفی کا مطلب اس کی انسانی حیثیت میں ،ایک معاشرے میں رہتے ہوئے، اس کو ملنے والے قانونی اور اخلاقی جواز کو سلب کرنا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی فردآپ کی ترتیب دی ہوئی ،انسان ہونے کی تعریف یا خصائص کا ساجھے دار نہیں رہتا،اسے سماج سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ 

اسی پس منظر میں ایک مرد ہر وقت کسی عورت کے ساتھ زیادتی کا ایک اشارہ اور ایک تحریک اپنے ساتھ لیے گھومتا ہے۔ وہ اس شائبے کو ٹھوس صورتحال میں ایک حقیقت کی صورت میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی طرح جس طرح ایک تخلیق کا ر اپنے اندر ایک تخلیقی ارتعاش کو محسوس کرکے اس کو ایک صورت دینے کی کوشش کرتا ہے یا ایک خصوصی بچہ اپنے اندر جنم لیتے خیالات کو اپنی دنیا کے ساتھ جوڑ کر معانی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک تخلیق کار ، اپنے تخلیقی ارتعاش کی جب جلوہ گری کرتا ہے تو وہ ممکنہ طور پر الفاظ ، رنگوں ، سروں یا کسی اور ذریعے کو استعمال کرتا ہے۔ بد انسان اپنے ارتعاش کو حقیقت دینے کے لیے دوسروں کی حدود میں پھلانگتا ہے ۔ یہ حدود خواہ چاردیواری ہوں یا انسانی جسم کی زرہ بکتر، وہ ان میں دخل اندازی کرکے اپنے ہونے کااظہار کرتا ہے۔ 

6

شرمندگی اور فخر کے جذبات ایسے ہتھیارہیں جنھیں بنیادی طور پر سماج کی روایات کو دوام دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سماجی روایات کو دوام دینے کا مطلب انھیں تکرار سے جاری رکھنا ہے تا کہ کسی قسم کے ان دیکھے نتائج سے سماج کو محفوظ رکھا جاسکے۔اگر کوئی فرد روایات پر پورا عمل کرتا ہے تو سماج اسے اپنے آپ پر فخر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ اگر کوئی ان روایات پر تندہی سے عمل نہیں کرتا تو اس کوشرم دلائی جاتی ہے ۔ اس ہتھیار میں ایک شرمندہ کرنے والا ہوتا ہو اور ایک شرمندہ ہونے والا۔ جب کسی کو شرمندگی کی صورتحال کا سامنا ہو تا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فرد کسی رویے یا فعل سے سماج کی روایت کو خطرہ پہنچا رہا ہے۔ بچے میں شرم کے احساس کی تربیت ، اس کی رسمی تعلیم و تربیت سے پہلے ہی شروع کردی جاتی ہے۔اسی تربیت کے نتیجے میں ایک عورت اور ایک مرد بنتا ہے۔

مثال کے طور پرلڑکوں کو اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔وہ کسی بھی درد کو ظاہر نہیں کر سکتے کیونکہ اگر وہ ایسا کریں تو انھیں شرم دلائی جاتی ہے کہ وہ عورتوں کی طرح جذباتی ہو گئے ہیں۔لڑکیاں کھلے دل کے ساتھ قہقہہ نہیں لگا سکتیں۔ وہ اپنے جسم کو کھلے طور پر آرام نہیں دے سکتیں ۔ اگر ایسا کیا جائے تو فوراًانھیں شرم دلائی جائے گی۔ اس طرح شرم کے اس ہتھیار کی بدولت بچیوں کے کردار کوایک سانچے میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جسم کے مختلف اعضاء کی سماجی نمائش بھی شرم کے ضابطے کے تحت آتی ہے اور یہ مردوں اور عورتوں میں ایک واضح تفریق کی وجہ بن جاتی ہے۔ ایسے ضابطے مختلف معاشروں میں مختلف ہیں۔ 

7

شرم کے نظام ِ شرمندگی کے پیچھے عورت کے روپ کو تراشا گیا ہے ۔ اس روپ میں عورت کے لیے اپنی ممتا سے متعلق اعضاء ( مردوں کے نقطہ نظر سے اس کے جنسی اعضا) کی حفاظت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس لیے بھی کہ مرد زمانہء قدیم سے اپنے نطفے کی حفاظت کے تحت ہمیشہ یہ چاہتا رہا ہے کہ عورت اس کا ہی بچہ پیدا کرے۔ یہ معاملہ کنبے کی بنیاد بھی بنا۔ عورت کی ذات کا جوہر اس کی ممتا ٹھہری اورجب معاشرے نے اس کی جسمانی تشریح کی تو انھی اعضائے ممتا کو عورت کا جوہر قرار دے دیا۔اس بات کو ہر علاقے اور ہرسماج کے لوگوں نے تسلیم کیا اور یہ بھی کہ دوسروں سے نطفے کی حفاظت کا حق چھیننے کے لیے دشمنوں نے انھی اعضاء کی حرمت کو پامال کیا۔ 

یہ بات بھی غور طلب ہے کہ انسانوں میں جنسی ؍صنفی تقسیم میں اپنی ذات میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ اس تقسیم کی بنیاد دوسری صنف کے ساتھ تضاد پر رکھی گئی ہے۔ یعنی یہ کہ کوئی مرد اپنی خصوصیات کے اعتبار اپنے طور پر کچھ نہیں ہے، وہ عورت کی صفات کی ضدّ ہے۔ اگر عورت دکھ میں روتی ہے تو مرد کو دکھ میں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ مرد جسمانی طور پر عورت کے مقابلے میںطاقتور ہے۔ اس لیے طاقت کا معیار جسمانی طاقت ٹھہراتا کہ عورت کو کمزور ٹھہرایا جاسکے۔ حالانکہ صلاحیت کا معیاراس کے بر عکس ہو سکتا ہے۔ عورت میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، مرد میں نہیں۔مگر اس صلاحیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ صنفی تفریق ایک دوسرے کے متضاد ہونے پر منحصر ہے، تاہم ان دونوں کی شناخت کا انحصار بھی ایک دوسرے پر ہے۔ اسی شناخت کی بنیاد پر دونوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے ترغیب موجود ہے۔ اسی ترغیب کی بنیاد پر ایک مرد اپنی شناخت کے خفیف سے احساس کو ٹٹولنے کے لیے اپنے ارد گرد علامتی اور ٹھوس اشیاء کی تلاش کرتا ہے۔

ہمارے معاشروں میںبچوں میں سوچنے اور کرنے کے درمیان تفریق کی اہلیت پیدا نہیں کی جاتی کیونکہ اسے منفی جذبات کے اظہار کی اجازت نہیں ہوتی ۔ یہ بات اس کی تربیت کا حصہ ہوتی ہے۔ بچپن میں اگربچہ حسد، رشک ، نفرت یا ایسے منفی جذبات کی سماجی شناخت نہ کر پائے تو وہ ان کے سماجی اثرات سے بھی ناواقف رہتا ہے۔ اگر بچہ ایسے جذبات کا اظہار کرتا ہے اور اس کے ساتھ بات چیت کر کے اسے یہ بات سمجھا دینی چاہیے کہ ایسے جذبات کا پیدا ہونا سماجی رشتوںمیں قدرتی بات ہے ۔

البتہ ، ان کو جیسے محسوس کیا جاتا ہے ، ویسے ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ اس طرح کی تربیت کی وساطت سے بچہ سمجھ جاتا ہے کہ کچھ باتیں فکری طور پر دماغ میں تو ضرور آ سکتی ہیںمگر ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ ایسے معاشروں میں جو عورت کو مردوں کی آسودگی کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہاں عورت ایک مجرد اکائی (Abstract Entity) سمجھی جاتی ہے۔ جب اس کی رضامندی کے بغیر اس پر جنسی تشدد کیا جاتا ہے تو وہ اس وقت جیتی جاگتی جاندار نہیں ہوتی ۔ اس کا وجود محض جنسی آسودگی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے جس کا حق ایک سماج دیتا ہے۔ 

8

جب کسی عورت کا ریپ ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے آپ کو اپنے جسم کی بے حرمتی پر بالکل تنہا محسوس کرتی ہے۔ وہ اس ذلت کے باعث اپنی توقیر کو ختم ہوتے محسوس کر سکتی ہے۔توقیر کسی بھی فرد کی زیست کی بنیاد ہوتا ہے۔ وہ ایسے محسوس کرتی ہے کہ جیسے اس کے جسم پر کوئی غیر مرئی کالک پوتھ دی گئی ہو جو سالوں نہانے کے بعد بھی نہ دھل سکے گی۔ اس صورتحال کو صرف جسمانی تشدد تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ جسم کی بے حرمتی کایہ درد اس کی ذات کے بہت اندر اتر جاتا ہے۔ یہ ایسا تجربہ ہے کہ جس کے لیے کوئی لفظ ابھی تک سنور نہیں سکا کیونکہ آج تک انسانی سماج کو مردوں کا سماج ہی سمجھا گیا ہے۔ آج تک جو بھی احساسات تراشے گئے ہیں وہ دراصل مردوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔

یہ ایسا ہی ہے کہ کسی زبان میں گہرے سبز رنگ کے لیے کوئی لفظ نہ ہو۔ اگر اس زبان کے بولنے والے سے یہ کہا جائے کہ وہ گہرے سبز رنگ کو نیلے رنگ یا عام سبز رنگ میں سے جس کے قریب سمجھے ، اس کے ساتھ جوڑ دے تووہ گہرے سبز رنگ کو نیلے رنگ کے ساتھ جوڑ دے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ شخص چونکہ گہرے سبز رنگ کو کوئی نام نہیں دے سکتا تھا اس لیے اس کے نزدیک اس کا وجود اپنے طور پر کچھ نہیں۔ چونکہ گہرا سبز رنگ ، نیلے رنگ کے قریب ہوتا ہے اس لیے اس نے اسے نیلے کے ساتھ ملا دیا۔ رنگوں کی نازک انواع کی طرح جذبات و احساسات کی بھی انگنت نازک پرچھائیاں ہیں۔ ان کے ادراک کے لیے چونکہ الفاظ کی کمک کافی نہیں، اس لیے ان کو پہچان ہی نہیں ملتی۔ یہ انسانوں کے بہت اندر لہروں کی مانند بہتے رہتے ہیں ۔

عورت جب ریپ یا جنسی تشددکا شکار بنتی ہے تو وہ اپنے آپ کو سمجھاتی ہے کہ اس کے ساتھ سرے کچھ نہیں ہوا۔ اس کے بعد وہ یہ کہہ کر اپنے آپ کو تسلی دیتی ہے کہ ایسا پہلی بار فقط اس کے ساتھ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی بہت سی عورتیں اس دکھ کا شکار رہی ہیں۔ایساسننے کے بعد اسے اپنے دکھ کے ساتھ جینے کی سکت مل جاتی ہے۔ایسا بڑا دکھ ہمیشہ ہرا رہتا ہے۔ اس کے لیے ایسے دکھ کی تذلیل اوراس سے پیدا ہونے والی شرمندگی کے باعث زندہ رہنا ممکن ہی نہیں رہتا۔

وہ اول تو ایسے واقعے کی سچائی سے انکار کرنے کے بہانے تراشتی ہے اور اس کے لیے اس کے سامنے سب سے بڑا ذریعہ خاموشی ہوتا ہے۔ جب ایسی عورت شرمندگی کے زہر کو پی لیتی ہے تو ریپ کرنے والا سمجھتا ہے کہ وہ اس الزام سے بری ہو گیا ۔ حالانکہ وہ عورت اس سماجی شرمندگی کے سانچے سے خوفزدہ اپنے ریپ ہو جانے یاجنسی ہراسگی کی بات نہیں کرتی کیونکہ اس سانچے کے تحت شرمندگی کا بوجھ عورت پر ہی پڑنا ہوتا ہے۔ اس لیے کہ اسے گناہ اور برائی کا سرچشمہ سمجھا جاتا ہے۔اس روایت کے تحت مر دمعصوم عن الخطاء ہے اور عورت ہی اسے بہکا تی ہے۔ آپ سوچ اور محسوس کر سکتے ہیںکہ ایسے معاشروں میں عورت بن کر رہنا کتنا مشکل ہے۔ 

Comments are closed.