کیا پاکستانی ریاست اپنے تزویراتی اثاثے ختم کرنے کو تیار ہے؟

امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے خلاف ’فیصلہ کن کارروائیاں‘ نہ کرنے کی وجہ سے تین سو ملین ڈالر کی امداد روکی جا سکتی ہے۔

ہفتے کے روز امریکی محکمہ دفاع پیٹاگون کی جانب سے کہا گیا ہےکہ خطے کے لیے امریکی پالیسی پر معاونت نہ کرنے اور اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف ’فیصلہ کن‘ کارروائیاں‘ نہ کرنے پر پاکستان کے لیے تین سو ملین ڈالر کی امداد روکنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

امریکا کی جانب سے پاکستان سے مسلسل مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر عسکریت پسندوں کے محفوظ ٹھکانوں کے خاتمے کے لیے کارروائیاں کرے۔ رواں برس کے آغاز پر امریکی حکام نے بتایا تھا کہ ممکنہ طور پر سن 2018ء میں پاکستان کو مجموعی طور پر قریب دو ارب ڈالر کی امریکی امداد نہ دی جائے۔

امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان لیفٹینیٹ کرنل کون فاؤلکنر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستان خطے میں امریکی پالیسی کی معاونت میں اقدامات نہیں کر رہا ہے۔ فاؤلکنر کا مزید کہنا تھا، ’’ہم پاکستان پر دباؤ ڈالتے رہیں گے کہ وہ تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف بلاتفریق کارروائیاں کرے‘‘۔انہوں نے بتایا کہ امداد کی اس کٹوتی کی بابت منصوبے کی توثیق امریکی کانگریس کرے گی۔

یہ بات اہم ہے کہ پاکستان نے اپنی سرزمین پر متعدد عسکریت پسند گروہوں کے خلاف فوجی آپریشنز کیے ہیں اور پاکستان کا موقف یہ ہے کہ شدت پسندی کے خلاف اس طویل جنگ میں وہ ہزاروں افراد کے علاوہ اربوں ڈالر کھو چکا ہے۔ تاہم امریکی حکام پاکستان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ان عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائیوں میں پیش و پس کا مظاہرہ کرتا ہے، جو سرحد عبور کر کے افغانستان میں دہشت گردانہ حملے کرتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کا الزام ہے کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی اور متعدد دیگر عسکری عناصر ایک طویل عرصے سے نظریاتی وجوہات کی بنا پر طالبان کو ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرتے آئے ہیں۔ امریکی حکام کے مطابق اس کی ایک وجہ افغانستان میں بھارتی اثرورسوخ کم کرنے کے لیے ان عسکری گروہوں کا استعمال بھی ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ افغانستان میں جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان ان عسکری گروہوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے، جو افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کا باعث ہیں۔

جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’تین سو ملین کی جو بات ہو رہی ہے وہ نہ تو امداد ہے نہ معاونت ہے۔ یہ وہ پیسہ ہے جو پاکستان نے ازخود دہشت گردی یا دہشت گردوں کے خلاف خرچ کیا۔ یہ وہ پیسہ ہے جو انھوں نے ہمیں ادا کرنا تھا جو وہ کر نہیں پا رہے یا کرنا نہیں چاہ رہے۔ اصولاً تو انھیں ادا کرنے چاہیے۔ یہ وہ خرچ ہے جو ہم ایک ایسے مقصد کے لیے خرچ کر چکے ہیں جو ہمارا مشترکہ مقصد ہے یعنی امن اور استحکام کا حصول اور دہشت گردی کا خاتمہ۔۔۔۔

مسلم لیگ نواز کے سینٹر مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ ’امریکہ کی طرف سے 30 کروڑ ڈالر کی کولیشن سپورٹ فنڈ ختم کرنے سے پومپیو کا اسلام آباد کا دورہ متاثر ہو گا، اور یہ انڈیا کے لیے نوالہ ہے کیوں کہ پومپیو پاکستان کے بہترین دوست چین کے خلاف امریکہ انڈیا محاذ مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے پہلے 50 کروڑ ڈالر کی امداد روک دی گئی تھی۔ یہ سب رقم امریکہ کے ذمہ واجب الادا ہے، امداد نہیں!‘۔

یاد رہے کہ یہ رقم پاکستان کو کولیشن سپورٹ فنڈز کی مد میں ملنا تھی جس کے بارے میں رواں سال کے آغاز میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’امریکہ نے 15 سالوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالر بطور امداد دے کر بےوقوفی کی۔ انھوں نے ہمیں سوائے جھوٹ اور دھوکے کے کچھ نہیں دیا۔‘۔

DW/BBC/News Desk

Comments are closed.