سپریم کورٹ ۔ جماعت الدعوۃ کو اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت

مالی اور معاشی مشکلات میں گھرے پاکستان کو ایک اور جھٹکا آج اس وقت لگا جب ملک کی سپریم کورٹ نے جماعت الدعوة کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔

لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت جماعت الدعوة اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو عارضی طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی گئی تھی۔

جماعت الدعوة کو لشکر طیبہ کی مدر تنظیم سمجھا جاتا ہے جب کہ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کو جماعت الدعوة کی فلاحی تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

ماہرین کے خیال میں حکومت اس مسئلہ کے حوالے سے ایک ایسا فیصلہ چاہتی تھی، جو فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے مطالبات پر عمل درآمد کو آسان بنائے لیکن تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ سیاست دان، حقوق انسانی کی تنظیمیں اور کئی تجزیہ نگار اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار احسن رضا کے خیال میں اب ایف اے ٹی ایف کے سامنے پاکستان کی پوزیشن مزید کمزور ہوگی:۔ ’’پاکستان کو پیسے کی شدید ضرورت ہے اور اگر ہم نے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن نہیں کیا تو ملک پر مختلف طرح کی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔ میرے خیال میں عدالتوں کو بھی یہ بات پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ ان کے فیصلوں کے ملک کے معاشی، سیاسی اور مالی ڈھانچے اور معاملات پر کس طرح کے اثرات پڑ سکتے ہیں‘‘۔

حکومت کو فور ی طور پر نو ارب ڈالرز کی ضرورت ہے اور سالانہ تقریبا چوبیس بلین ڈالرز قرضوں کی اقساط اور دوسری ضروریات کے لیے چاہییں۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے پاکستان کی معاشی صورتحال اور ابتر ہو سکتی ہے۔ پلاننگ کمیشن کے ایک عہدیدار نے جو مالی معاملات کے حوالے سے باخبر ہیں،  ڈی ڈبلیو کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’حکومت کی پوری کوشش ہے کہ ہم ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کریں لیکن اس فیصلے سے کالعدم تنظیمیں پھر جگہ جگہ آزادی سے گھومیں گی۔ مغربی ذرائع ابلاغ اس کا خوب واویلا کریں گے اور اس کا نقصان پاکستان کو ہو گا۔ جو پہلے ہی مشکلات میں گھرا ہوا ہے‘‘۔

سیاست دانوں کے خیال میں سپریم کورٹ کے فیصلوں نے پہلے بھی پاکستان کی مالی معاملات میں بگاڑ پیدا کیا ہے، جس سے پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ہزیمت اٹھانا پڑی۔ معروف سیاست دان اور نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل خان بزنجو نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’عدالت نے پہلے ریکوڈِک اور رینٹل پاور پر بھی فیصلے دیے تھے، جس کی وجہ سے ہمیں مصالحتی اداروں میں جانا پڑا، جہاں ہم پر بھاری جرمانہ عائد کیا گیا۔ ملک پہلے ہی معاشی مسائل میں گھرا ہوا ہے۔ اب ہم یہ جرمانہ کیسے ادا کریں گے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ پاکستان کی معاشی و مالی حالت کے لیے بہت منفی ہے: ’’یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پیسہ آپ کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور بین الاقوامی برادری سے چاہیے لیکن ان کی سننا بالکل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کالعدم تنظیموں کو لگام دیں آپ ان کو انتخابات لڑواتے ہیں اور ان کی سیاسی جماعتیں بنواتے ہیں۔ اس طرح کی پالیسی نہ صرف معیشت کو نقصان پہنچائے گی بلکہ ملک کی سماجی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دے گی‘‘۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ اب مختلف ادارے بھی دائیں بازو کی مذہبی تنظیموں کے دباؤ میں نظر آتے ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن سے تعلق رکھنے والے اسد بٹ کا کہنا ہے اس فیصلے سے یورپی یونین میں ملنے والی رعایات بھی ختم ہو سکتی ہیں: ’’کس کو پتہ نہیں کہ یہ تنظیمیں دہشت گرد ہیں۔ پہلے حکومت نے لبیک والوں کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ اب جماعت الدعوة کے حق میں فیصلہ آگیا۔ اس سے مذہبی تنظیموں کا اثر رسوخ مزید بڑھے گا اور پاکستان بین الاقوامی برادری میں مزید تنہائی کا شکار ہوگا۔ ایک طرف امریکا پابندیاں لگائے گا، دوسری طرف یورپی یونین جی ایس پی ختم کرے گا۔ اس سے ملکی معیشت پر کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ سمجھنا کوئی اتنا دشوار نہیں ہے‘‘۔

DW

Comments are closed.