ریاستِ مدینہ نہیں ،مہذّب اور منصفانہ  فلاحی ریاست

آصف جاوید

جمعہ کے جمعہ مولوی کا خطبہ سننے اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں سے تاریخ کا علم حاصل کرنے والوں سے جب یہ کہا جاتا ہے کہ بھائی تاریخ میں ریاست مدینہ کا کو ئی وجود نہیں پایا جاتا ۔مدینہ تو کوئی ریاست ہی نہیں تھی   تو ان کو شدید حیرانگی  ہوتی ہے۔ صحرائے عرب تو ایک قبائلی معاشرہ تھا،  ہر قبیلے کا ایک سربراہ ہوتا تھا۔  ہر قبیلہ  کے اپنے اصول ہوتے تھے۔ قبائلی معاشرے کبھی ریاستی اصولوں پر قائم نہیں ہوتے۔ قبائلی معاشروں میں طاقت کو مرکزی  اہمیت حاصل ہوتی ہے۔

چودہ سو  1400 سال قبل کا صحرائے عرب  کا قبائلی  معاشرہ اتنا ترقی پسند ہر گز نہیں تھا کہ وہ قبائلی رسم و رواج کو چھوڑ کر آج کے جدید دور کے مہذّب ریاستی  اصولوں پر اپنے معاشرے کو استوار کرتا۔  وہاں تو ہر مسئلہ کا حل تلوار ہوتی تھی۔ تلوار ہی بڑی بڑی جنگوں کا فیصلہ کرتی تھی۔ جو طاقتور ہوتا، فیصلہ بھی اس ہی کا ہوتا تھا۔  مدینہ میں تو آج بھی آلِ سعود کی بادشاہت قائم ہے، جہاں  تلوار ہی ہر مسئلہ  حل  کرتی ہے۔

نبی کریم صلعم نے مدینہ میں کوئی ریاست قائم نہیں کی تھی،  ایک اسلامی معاشرہ اور بھائی چارہ قائم کیا تھا۔ انبیاء شریعت قائم کرنےآتے ہیں ، ریاست قائم کرنے نہیں آتے۔ اور نہ ہی اللہّ تعالینے کسی نبی  کو ریاست یا سلطنت قائم کرنےکے لئے بھیجا تھا ۔ریاست یا سلطنت قائم کرنا انبیاء کا کام ہی نہیں ہوتا۔ یہ انبیاء پر بہتان ہے۔  یہ جو ہمارے مولوی اور تاریخ سے نابلد سیاستداں بار بار ریاستِ مدینہ کا ذکرکرتے ہیں ۔  یہ ایک  خیالی جنّت (یوٹوپیا) کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ ہمارے مذہبی پیشواوں، ملّاوں اور مذہبی جماعتوں سے تعلّق رکھنے والے  سیاستدانوں نے عام پاکستانیوں کے ذہن میں  ریاستِ مدینہ کا ایسا نقشہ پیش کیا ہے کہ وہ ہمیں ایک خیالی جنّت(یوٹوپیا) ، اور پاکستان کے ہر مسئلے کا حل نظر آتی ہے۔

مکہ سے ہجرت کے بعد  پیغمبر اسلام  مدینہ میں جو معاشرہ قائم کیا تھا۔ وہ صرف  41 ہجری تک قائم رہ سکا تھا۔  تاریخ شاہد ہے کہ مدینے کی ریاست مسلسل غیرمستحکم اورخانہ جنگی کا شکار رہی ہے۔ نبی کریم صلعم کے وصال کے بعد تیس 30، سالوں میں چار میں سے تین خلیفہ قتل (شہید) ہوئے ہیں۔ پچاس 50، سال کے قلیل عرصے میں نواسہ رسول امام حسین رضی اللہّ تعالیعنہ  کو آل و عیال سمیت ہجرت کرکے کوفہ جانا پڑا جہاں انہیں ان کے خاندان سمیت  بے دردی سے قتل(شہید) کردیا گیا۔

  سوال یہ ہے کہ اگر یہی مدینہ کی فلاحی ریاست تھی اور جہاں کےحکمران  بھی محفوظ نہیں تھے اور خانہ جنگی کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے قتل ہورہے تھے،   تووہاں عوام کو کونسی فلاح نصیب ہوسکتی تھی؟  فلاح تو ایک سماجی اصطلاح ہے۔ فلاح کا تعلّق معاشی و اقتصادی سرگرمیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دولت سے  ریاست کے شہریوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے۔

 اس تناظر میں میرا پاکستانی عوام سے سوال ہے کہ ریاستِ مدینہ کا ڈھنڈورا پیٹنے والی حکومت  کیا پاکستان میں  عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کررہی ہے؟

پاکستانی قوم کی بدقسمتی یہ رہی کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستانی کی نئی نسل کو کبھی آزاد تاریخ پڑھنے ہی نہیں دی گئی، 1971 سے پہلے پورے پاکستان میں پرائمری اسکولوں میں سوشل اسٹڈیز کے نام سے آزاد تاریخ، جغرافیہ اور شہریت پڑھائی جاتی تھی۔ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پاکستان کے پالیسی سازوں نے قوم کی آنکھوں کے سامنے  تقدیس کا پردہ  تان دیا۔ سوشل اسٹڈیز کا مضمون  ہی ختم کردیا گیا، تاکہ نئی نسل کو آزاد تاریخ  پڑھنے تک رسائی ہی  حاصل نہ ہوسکے، اور سوشل اسٹدیزکی جگہ  مطالعہ پاکستان کے نام سے تقدیس میں لپٹی ہوئی  نرگسیت زدہ خود ساختہ تاریخ درجہ بہ درجہ گھڑ گھڑ کر پڑھائی جاتی رہی۔

  باقی کسر جمعہ کے جمعہ مولویوں کے خطبات نے پوری کردی۔  اور اسکا نتیجہ یہ نکلا کہ موجودہ نسل کو آج تک یہ پتہ نہیں ہے کہ بنگلہ دیش جو کبھی مشرقی پاکستان کے نام سے پاکستان کا حصّہ تھا اور بٹوارے کے نتیجے میں ریاستِ پاکستان کے حصّے میں آیا تھا، کیوں پاکستان سے علیحدہ ہوا؟، اسکی بجائے کشمیر جو کبھی بٹوارے میں پاکستان کو ملا ہی نہ تھا اور نہ ہی  ریاستِ کشمیر نے پاکستان کے ساتھ کبھی کسی قسم  کے الحاق کا وعدہ کیا تھا، اس کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دے کر پاکستان انڈیا سے چار جنگیں لڑ چکا ہے۔

اکہتر سال سے پاکستان کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنایا ہوا ہے،  تمام قومی وسائل عسکری طاقت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے پر جھونکے ہوئےہیں۔  ترقّیاتی کاموں اور انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کا پیسہ بھی فوجی طاقت پر لگایا جارہا ہے۔  70 فیصد سے زائد عوام پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں، ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ ڈھائی کروڑ سے زیادہ بچّوں نے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ عوام زندگی کی بنیادی سہولتوں کو ترس رہے ہیں۔  تعلیم اور صحت پر لگانے کے لئے بجٹ میں کچھ پیسہ ہی نہیں بچتا ہے۔

پاکستانی عوام کو کسی خیالی جنّت کی نہیں بلکہ ایک حقیقی فلاحی ریاست کی ضرورت ہے،  ایسی ریاست جہاں عوام کو  زندگی کی بنیادی سہولیات بلا امتیاز میسّر ہوں۔ فلاحی ریاست کی بنیادی ذمّہ داریوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی،  روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار، پبلک ٹرانسپورٹ، سینی ٹیشن، سیوریج، اسکول، کالجز، یونیورسٹیز،  فنّی تعلیم اور ٹیکنیکی تربیت کے ادارے، مراکزصحت، ہسپتال، دوائیں، چائلڈ کیئر، بیروزگاری الائونس، معذوری الائونس، سوشل سیکیورٹی، اولڈ ایج بینیفٹ، ریٹائرڈمنٹ پنشن، وغیرہ شامل ہیں۔

  فلاحی ریاست  کا بنیادی اصول ہر شہری کو بلا امتیاز مذہب، عقیدہ، زبان، لسّانیت، قومیت، رنگ و نسل مساوی شہری حقوق  اور انصاف  کی فراہمی ہے۔ فلاحی ریاست کے ڈھانچے میں محروم طبقات  کے لئے ، مساوی شہری حقوق، دولت کی مساوی تقسیم، وسائل  میں منصفانہ شراکت،، سماجی ذمّہ داریوں کی منصفانہ تقسیم، طبقاتی فرق کا خاتمہ ،  اور انسانی برابری   کو یقینی بنانے کے لئے نظام وضع کئے جاتے ہیں۔   اور اِن مقاصد کے حصول  لئے پاکستان کو مدینہ کی ریاست  بنانے کی بجائے  ایک سوشل ڈیموکریٹک  نظامِ جمہوریت اور فری مارکیٹ اکانومی معیشت  کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔ ریاستِ مدینہ کا راستہ مذہبی جنونیت، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور  داعش کی اسلامی خلافت ،  قتل و غارت گری اور خون و فساد کا راستہ ہے۔ اس راستے سے اجتناب کیا جائے۔

One Comment