امریکی اوپیرا، بھٹو اور دکھ کا بلیک ہول

حسن مجتبیٰ

امریکی اوپیرا، جہاں وکٹر ہیوگو کا ’لے مضراب‘، اسکاٹ جوپلن کا ’ٹریمونیشا‘ اور ’مادام بٹرفلائی‘ جیسے شو کئی برسوں بلکہ عشروں سے دکھائے جا رہے ہوں، وہاں ’بھٹو‘ نام کا اوپیرا راہ جاتے یا دیکھنے والوں کے لیے ہے نہ عجب بات!۔

جی ہاں، ایسے عجب اوپیرا ’بھٹو‘ کا، جس میں اونچے پایے  کے اداکار اور موسیقار کام کر رہے ہیں، کا گزشتہ ہفتے امریکی ریاست پینسلوانیا کے شہر پٹس برگ کے مشہور تھٹیر ’پٹس برگ اوپیرا‘میں ایک پریمئر دکھایا گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ دکھ کا ایک بلیک ہول یا  روزن سیاہ ہے جو ہر آدمی کے اندر میں ہے اور اسی طرح انسان کو انسان سے جوڑے رکھتا ہے۔ جیسے فیض نے کہا:۔

بڑا ہے درد کا رشتہ یہ دل غریب سہی

تمہارے نام پر آئیں گے غم گسار چلے

کیونکہ اس سے کچھ روز قبل اسی شہر پٹس برگ  میں یہودیوں کی قدیم عبادت گاہ، یعنی سیناگوگ پر ایک دہشت گردانہ حملے میں سات عبادت گزار ہلاک ہوئے تھے۔ امریکا میں ایسے بھی سیناگوگ اور گرجا گھر ہیں جو اپنے پڑوسی مسلمانوں کو رمضان کی تراویح اور محرم کا عشرہ منانے کو جگہ دیتے ہیں۔

ہاں تو اسی شہر پٹس برگ میں اب پاکستان کے بھٹوؤں، یعنی دونوں باپ اور بیٹی وزرائے اعظموں کی زندگیوں اور اموات پر ایک اوپیرا ہو رہا ہے۔ آپ بھٹو یا بھٹووں کی ذات اور سیاست کو شدید پسند اور ناپسند کرسکتے ہیں۔ میں بھی ان کا اتنا زبردست مداح نہیں، لیکن کچھ تو ان میں ہے نا کہ ورلڈ اسٹیج پر ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ جیسے میرے ایک دوست نے کہا کہ کچھ تو ان میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی خونی زد میں رہتے ہیں۔

لیکن البتہ میری شاعری کی بینظیر اس بینظیر سے مختلف ہے جو جب بھی اقتدار میں ہوتی تھی، بطور صحافی مجھے اس پر تنقید کرتے بے حد خوشی ہوتی تھی۔

یہ اوپیرا ہمارے لاجواب لکھاری اور ناول نگار محمد حنیف نے عرب نژاد نوجوان موسیقار محمد فیروز کے ساتھ مل کر لکھا ہے۔ یہ اوپیرا موسیقار محمد فیروز ہی کی موسیقی کی زبان اور محمد حنیف کی تخلیق ہے۔

موسیقار محمد فیروز ہے کون؟

تین برس قبل محمد فیروز نے نیویارک کے علاقے چیلسی میں اپنے اپارٹمنٹ سے محمد حنیف کو کراچی فون کیا تھا کہ اس نے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کے بارے اس کا معرکہ آرا ناول ’اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز‘ پڑھا ہے، لیکن وہ اس جیسے ہی ایک کردار ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی پر اوپیرا کرنا چاہتا ہے، کیا وہ اسکے لیے لکھنا چاہے گا۔ حنیف نے حامی بھر لی۔ اس سے پہلے محمد فیروز نے اس اوپیرا بھٹو‘ کو تصنیف کرنے کو بینظیر بھٹو کے واشنگٹن میں لابیسٹ مارک سیگل کو مقرر کیا تھا۔

پھر سال 2015 سے لے کر میں نے کئی بار نیویارک میں محمد حنیف اور محمد فیروز کو بھٹو اوپیرا‘ پر کام کرتے، ریہرسلز کرتے، فیروز کو اس کے اپارٹمنٹ میں موسیقی ترتیب دیتے، گرما گرم بحث و تکرار کرتے قریب سے دیکھا ہے۔

پھر اسی طرح بھٹو‘ محمد حنیف کے قلم اور محمد فیروز کی سمفنیز سے تخلیق ہوتا ہے جس میں ذوالفقار علی بھٹو کے بطور وزیراعظم حلف اٹھانے سے لے کر اس کی جنرل ضیا اور اس کی فوج کے ہاتھوں معزولی، بے نظیر کے ہمراہی ہندوستان سے بات چیت اور جنگی قیدیوں کی واپسی، بھٹو کے دھڑن تختے، بے نظیر کی اپنے والد کے ساتھ جیل کی کوٹھری میں جیلر کے ساتھ آخری ملاقات، بے نظیر کی جلاوطنی سے واپسی پر جشن، استقبال، وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے، اور پھر ماضی پر خطاب اور مستقبل کا اعادہ، سب چودہ سین  دو ایکٹ پر مشتمل اس اوپیرا میں ہیں۔

اوپیرا میں ذولفقار علی بھٹو کا  کردار امریکی اوپیرا کے معروف اداکار نیتھن گن (نیتھن یونیورسٹی آف شکاگو آربانا شیمپین میں آواز کا پروفیسر ہے اور خود بھی آواز میں ڈاکٹوریٹ رکھتا ہے) ضیا کا کردار ٹیرینس چین لوئی، اور بینظیر کا کردار لورین سمرجین اور بنجامن ٹیلر نے آصف علی زرداری کا کردار ادا کیا ہے۔

کرداروں میں ایک کوا بھی ہے جو بینظیر کی جلاوطنی پر  محو کلام  ہوتا ہے ان کی واپسی، وزیر اعظم بننے، بھائی کے قتل کی خبر، اور ان کی موت کی بھی پیشن گوئی کرتا ہے۔ یہ کردار نیتھن گن نے ادا کیا ہے، ایک چرواہا بھی ہے جو بہاولپور کے صحرا میں فضا سے ایک شعلہ لپکتا دیکھتا ہے جو بعد میں فوجی آمر صدر جنرل محمد ضیا الحق کا طیارہ فضا میں پھٹنے‘ کے اعلان پر منتج ہوتا ہے۔

ایک ہاری (کسان) ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کو اچھی حکومت کا مشورہ دیتا دکھائی دیتا ہے۔ مولانا وہسکی نام کا کردار بھی ہے، ضیا الحق کے ساتھ ہلاک ہونے والے سابق امریکی سفیر آرنولڈ رافیل بھی ہے اور جنرل اختر عبدالرحمان بھی۔ اور یہ سب کردار اکثر موسیقی اور اوپیرا میں ہیں۔

بھٹو‘ کے عنوان سے اس اوپیرا (جو پبلک کے لیے آئندہ سال نومبر2020میں پٹس برگ میں دکھایا جانا ہے) میں امریکی اور عالمی کلاسک بننے کا تمام بندوبست موجود ہے۔

DW

Comments are closed.