سوشل میڈیا میں فیک نیوز کی بھرمار

عاصم سعید

روایتی پریس اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ اب سوشل میڈیا بھی ایک بڑی طاقت بن چکا ہے ۔جہاں دنیا بھر سے شائع ہونے والی خبریں اور معلومات شئیر کی جارہی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ ادارے اور ان کے پروردہ گروہ اپنے مفادات کے لیے فیک نیوز (جھوٹی خبریں) بھی دے رہے ہیں۔ اور یہ خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ ان پر اصل کا گمان ہوتا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اسے دھڑا دھڑ شئیر کرنا شروع کر دیتی ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ خبریں یا رپورٹیں درست بھی ہیں یا نہیں؟

کوئی بھی خبر درست سمجھنے سے پہلے دیکھ لیں کہ یہ خبر کہاں شائع ہوئی ہے، اس سلسلے میں،  ذیل میں  چند ایک  ایسی  ویب سائٹس اور اخباراتکا سرسری سا ذکر کیا گیا ہے جو کہ فیک نیوز پھیلانے میں ماہر ہیں اور ان کے تانے بانے وہیں جا ملتے ہیں، جہاں جاتے ہوئے اکثریت کے پر جلتے ہیں۔

۔۱۔ ڈیلی میل نیوز/ڈیلی میل نیوز آن لائن ،اس نام کا کوئی اخبار برطانیہ میں نہیں۔

اصلی اخبار کا نام ڈیلی میل ہے، ڈیلی میل نیوز یا ڈیلی میل نیوز آن لائن جو بھی ہے، وہ اسلام آباد سے چلائی جانے والی ایک ویب سائیٹ ہے۔

۔۲۔ دی ٹائمز آف اسلام آباد:.۔

یہ بھی کوئی اخبار نہیں بلکہ جھوٹے پراپیگنڈے پر مبنی ایک اور ویب سائٹ ہے جو کہ اسلام آباد سے چلائی جاتی ہے اور اس کی ڈومین نیم کا مالک کوئی سرگودھا کا شخص ہے اور انٹرنیٹ پر موجود ایڈریس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔اس کاکوئی دفتر نہیں، غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق یہ ویب سائیٹ ایک پاک فضائیہ سے ریٹائرڈ ایک افسر اور ان کی اہلیہ کی زیر نگرانی چل رہی ہے،  یہ خاتون ایک خاص سیاسی جماعت میں بہت سرگرم ہیں، جی وہی سیاسی جماعت جو حالیہ انتخابات میں جیتی ہے۔ 

اسی ویب سائٹ نے مشہور ادیب اور سماجی کارکن اروندھتی رائے کے بارے میں غلط خبر شائع کی کہ “70 لاکھ بھارتی فوج بھی مل کر کشمیریوں کو شکست نہیں دے سکتی، جس کی بنیاد پر  ہندوستان ہی کے مشہور مزاحیہ فلمی اداکار پریش راول نے اروندھتی رائے کے خلاف ٹویٹ کر ڈالی ، جس سے ٹوئیٹر پر طوفان برپا ہو گیا۔  اس خبر کی بنیاد پر  ہندوستان سے چھپنے والے دائیں بازو کے کئی اخبارات نے بھی پراپیگنڈا شروع کر دیا، اور تو اور پاکستان میں بھی دی نیوز اور جیو ٹی وی نے یہ خبر چلانا شروع کر دی۔

۔۳۔ سی جے پوسٹ۔ 

یہ ایک بدنام زمانہ منفی پراپیگنڈا کرنے والی ویب سائیٹ ہے، جو مختلف افراد کے خلاف جھوٹی اور بے بنیاد خبریں چھاپنے میں مہارت رکھتی ہے، یہ لوگ فری لانس ویب سائٹ فائیور کے ذریعے انگریزی بولنے والی گوری خواتین کو پیسے دیکر (گرین سکرین) پر ان سے اپنی مرضی کا سکرپٹ پڑھاتے ہیں۔

پھر ویڈیو ایڈیٹنگ سوفٹ وئیر استعمال کرتے ہوئے، کروما کیکی تکنیک کے ذریعے اپنی مرضی کا بیک گراونڈ لگا دیتے ہیں، اور ساتھ ہی لوگو بھی استعمال کرتے ہیں اور نیچے ہیڈ لائنز لکھی ہوئی ہوتی ہے، تاکہ نقلی پر بھی اصلی کا گمان ہو،۔

میرے ایک جاننے والے دوست  (جو کے ایک بین الاقوامی موقر خبر رساں ادارے سے وابستہ  ہیں)نے ان خواتین میں سے دو کا سراغ لگا لیا، اور انہوں نے مانا کہ انہیں اس کام کے بدلے ایک تنظیمنے فائیور کے ذریعے پیسے دے کر یہ سکرپٹ پڑھنے کو کہا تھا، لیکن انہیں تنظیم کی اصلیت معلوم ہونے کی وجہ سے وہ مزید بات کرنے سے انکاری ہیں، کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ اگر انہوں نے مزید بات کی تو ان کی جان کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

اسی ویب سائٹ نے ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈا شروع کیا کہ وہ وزیر اعظم  نواز شریف کے کہنے پر خفیہ طور سے افغانستان گئی تھیں اور پھر ہرات میں ہندوستانی سفارتخانے نے ان کی ملاقات وزیراعظم مودی سے کروائی، جس میں ڈاکٹر صاحبہ نے وزیراعظم  نواز شریف کا خفیہ پیغام وزیراعظم مودی کے حوالے کیا۔

۔۴۔ دی ٹائمز آف لندن۔اس نام کا بھی کوئی اخبار برطانیہ میں نہیں ہے۔

یہ بھی صرف انٹرنیٹ پر دستیاب ایک اخبار ہے، یہ ویب سائٹ بھی اسلام آباد سے چلائی جا رہی ہے، جس کا مقصد بھی منفی خبروں کا فروغ ہے، برطانیہ کے اصلی اخبار کا نام دی ٹائمزہے۔   یقین کی حد تک ممکن ہے کہ یہ بھی دی ٹائمز آف اسلام آبادوالوں کی سر پرستی میں ہی چل رہی ہو۔

۔۵۔ اے ڈبلیو ڈی نیوز

صرف انٹرنیٹ پر دستیاب، اس اخبارکا شمار بھی فیک نیوزمیں ہوتا ہے ، اور جھوٹی، بے بنیاد اور منفی پراپیگنڈے والی خبریں چھاپنے کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس اخبار نے ایک خبر چلائی تھی کہ اسرائیل نے پاکستان کو وارننگ دی ہے کہ وہ اسے منٹوں میں تباہ کر دے گا اگر اس نے شام کی حمایت کی، اس خبر کی بنیاد پر پاکستانی وزیر خارجہ (جو اس وقت وزیر دفاع تھے) خواجہ آصف نے فوری رد عمل دیا کہ  پاکستان اسرائیل کو چند سکینڈز میں تباہ کر سکتا ہے۔

۔۶۔ ڈیفنس پی کے و دیگران

پاکستان میں سوشل میڈیا پر سب سے فالو کیے جانے والے پیجز میں سے ایک ہے۔

جنوری 2017  میں  لا پتہ ہونے والے  بلاگرز  پر توہین مذہب اور توہین رسالت کی خبریں سب سے پہلے اس ویب سائٹ  نے شروع کی تھیں، بعد ازاں یہی پراپیگنڈا کئی ایک نیوز چینل نے شروع کر دیا، ان اینکرز کے نام کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہے۔ 

بول نیوز سے جناب عامر لیاقت حسین، انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ بلاگرز ،ہندوستان فرار ہو گئے ہیں اور وہاں اجیت دول کی سرپرستی میں پاکستان اور اسلام مخالف پراپیگنڈہ کررہے ہیں، اور یہ کہ ان کے پاس اس بات کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔ اس بھیڑ چال میں کئی اور اینکرز بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے ایسے پروگرام کرنے شروع کیے  جن سے ان بلاگرز کی جان اور ان کے خاندان والوں کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہو گئے۔

بعد ازاں عامر لیاقت نے مبہم انداز میں معافی بھی مانگی کہ انہوں نے یہ سب ادارے کے کہنے پر کیا تھا اور اب وہ ادارہ چھوڑ گئے ہیں ۔لیکن انھوں نے پھر وہی ادارہ دوبارہ جوائن کر لیا ۔ اب تو وہ تحریک انصاف کی سیٹ پر کراچی سے رکن قومی اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں۔

اسی ویب سائٹ نے ایک ہندوستانی خاتون کی جعلی تصویر شائع کی تھی جس میں وہ ہندوستانی حکومت کو برا بھلا کہہ رہی تھی، جب اس کے خلاف احتجاج کیا  گیا  تو فیس بک اور ٹوئیٹر نے ایکشن لیتے ہوئے اس پیج کو معطل یا بند کر دیا تھا۔

اگر ہم اوپر دیئے گئے تمام اخباراتاور خبر رساں اداروںکا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ ان میں ایک بات بہت مشترک ہے،  کہ وہ سب ایک ہی قسم کے پراپیگنڈہ میں مصروف ہیں، جس میں اکثریت سے اختلاف رائے رکھنے والے چند پاکستانیوں، چند سیاستدانوں، سکالرز اور لکھاریوں کو ملک دشمن دکھانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے اور  قارئین کی اکثریت بغیر سوچے سمجھے نہ صرف یہ کہ اسے سچ مان لیتی ہے، بلکہ مزید پھیلاتی بھی ہے، جس  سے ان لوگوں کے خلاف عوامی رائے عامہ ہموار کی جاتی ہے، ایک خاص قسم کے بیانیے کو فروغ دیا جاتا ہے۔

ہندوستان سے وابستہ چند مشہور افراد سے ایسے بیانات منسوب کیے جاتے ہیں جو انہوں نے کبھی دیئے ہی نہیں ہوتے تاکہ ہندوستان کے سکالرز کو بھی ہندوستان مخالف دکھایا جائے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ باقی دنیا میں ایسا نہیں ہو رہا، چونکہ میرا تعلق پاکستان سے ہے سو میں نے پاکستان سے متعلقہ جعلی خبریں پھیلانے والے چند ’’ ذرائع ‘‘کا ذکر کیا ہے۔ اب یہ سب کس کی منشا اور مرضی اور پیسوں سے ہو رہا ہے، اس کا سوال کا جواب میں قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔

میر ی قارئین سے گذارش ہے کہ براہ کرم کوئی بھی خبر دیکھ کر یا پڑھ کر اور اس پر یقین کرنے سے پہلے دیکھ لیں کہ اس کا ذریعہ کیا ہے، اس کا منبع کیا ہے، ایک گوگل سرچ آپ کو اور کئی معصوم افراد کی جان بچا سکتی ہے۔

♠♠

اس مضمون کو لکھنے میں چند دوستوں کی مصدقہ اور پہلے سے مطبوعہ خبروں اور  رپورٹس سے مدد لی گئی ہے، دو ذرائع ایسے ہیں جنہوں نے اپنا نام نہ لکھنے کی شرط پر چند معلومات دیں۔

Comments are closed.