پاکستان کے پابلو نرودا زیر عتاب ہیں



سید چراغ حسین شاہ

نواز شریف کے ساتھ ساتھ ان کے ممدوح نامور کالم نگار اور مزاح نگار، عطاالحق قاسمی بھی زیر عتاب ہیں۔ عدالت عالیہ نے ان پر کرپشن کا الزام لگاتے ہوئے انہیں بھاری جرمانے کی سزاسنائی ہے۔ ان کے ممدوحین کا کہنا ہے کہ سزا کے ساتھ ساتھ ان کا میڈیا ٹرائل بھی ہورہا ہے جو کہ سراسر ’’ علم و فضل‘‘ کی توہین ہے۔ یہ درست ہے کہ عطاالحق قاسمی کا جرم نواز شریف کا ہمنواہونا ہے۔ اگر تو واقعی یہ جرم ہے تو پھر یہ قاسمی صاحب کے ساتھ صریحاً زیادتی ہے۔ ان پر کرپشن کے الزامات یقیناًبے بنیاد ہیں اور یہ واقعی ایک قابل مذمت فیصلہ ہے۔ پاکستانی ریاست اپنے سیاستدانوں، لکھاریوں اور دانشوروں کو ان جرائم کی سزا دیتی ہے جن کے وہ کبھی مرتکب ہی نہیں ہوتے۔

عطاالحق قاسمی کوئی چار دہائیوں سے صحافت سے منسلک ہیں انھوں نے 70 کی دہائی میں نوائے وقت سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا اور پھر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچے۔ سنہ 2008 میں موصوف گورنر پنجاب کے امیدوار بھی تھے،لیکن برادر خورد ، جو آصف زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بڑھکیں مار رہے تھے، کہنے لگے کہ اب ہمیں اپنے ہی درباری کو سیلیوٹ بھی کرنا پڑے گا؟ لہذا انہیں لاہور آرٹس کونسل کی سربراہی پر اکتفا کرنا پڑا۔

قاسمی صاحب بنیادی طور پر ایک مذہبی سوچ رکھنے والے شخص ہیں جنہوں نے اپنی تمام صحافتی زندگی میں ترقی پسند اور روشن خیال لکھاریوں کے ’’علم وفضل ‘‘ کی توہین کرتے ہوئے گزاری ہے۔ستر اور اسی کی دہائی میں انجمن ترقی پسند کے ارکان، جو ریاستی جبر کا شکار تھے، کے خلاف، جماعتی غنڈوں کی طرح ، لٹھ لے کر پیچھا کرتے تھے۔ انھوں نے بھٹو کی پھانسی پر اطمینان کا اظہار کیا تھا اور امیر المومینن ضیا الحق کے بابرکت دور کی خوبیوں سے آگاہ کیا۔ جب جمہوری عمل کا آغاز ہوا تو حسب معمول ریاست نے پیپلز پارٹی کے خلاف ایک زہریلا پراپیگنڈہ شروع کیا تو وہ اس کا پارٹ اینڈ پارسل تھے اور اپنا کام عبادت سمجھ کر کرتے تھے۔

موصوف انتہائی کاری گر لکھاری ہیں ۔ بنیاد پرستی کے دور میں بنیاد پرست تھے اوراب روشن خیالی کے دور میں ان سے بڑا کوئی روشن خیال دکھائی نہیں دے رہا۔ مرحوم احمد بشیر نے لکھا تھا کہ آج کل عطا الحق قاسمی نے ضیا مخالفت کا دعویٰ کرکے ساری جگہ گھیر رکھی ہے مجھے تو کہیں کھڑا ہونے کی جگہ نہیں مل رہی۔ یاد رہے کہ ضیا الحق کے دور میں احمد بشیر کی تحریروں پر اخبارات نے پابندی لگا دی تو وہ نام بدل بدل کر (کبھی بلھے شاہ، کہیں شاہ عنایت اور کبھی احمد شاہ کھرل)انگریزی میں کالم لکھتے تھے۔ اس وقت بھی قاسمی صاحب کاطوطی بولتاتھا۔ انھوں نے نوائے وقت میں اپنے کالم میں ترقی پسند لکھاریوں اور سیاست دانوں کی بھد اڑاتے ہوئے لکھا تھا کہ یہ ’’ بلھے شاہ‘‘ کون کھوتے دا پتر ہے ۔

عطا الحق قاسمی اور دوسرے اسلامسٹ لکھار یوں کو جمہوریت سے روشنا س کرانے اور ضرورت کے مطابق روشن خیال بنانے میں اصل کنٹری بیوشن نواز شریف کا ہے ۔ جیسے جیسے نواز شریف روشن خیال ہوتے گئے یہ حضرات بھی جمہوریت پسند اور ’’ لبرل ‘‘ہوتے گئے۔ اگرنواز شریف سیاست کو سمجھنے میں کچھ سال اور لگا دیتے تو قاسمی صاحب بھی ذہنی طور پر ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے۔ لیکن آج جمہوریت کے لیے ان کی اتنی خدمات ہیں کہ بائیں بازو کے سیاسی کارکن پرویز رشید ان کے آگے پانی بھرتے ہیں۔

فقیر کی آخری ملاقات ،جنوری 2009 میں اسلام آباد میں ایک مذاکرے میں ہوئی۔ حسب معمول وہ اپنے خوشامدی حلقہ احباب کے درمیان تشریف فرما تھے اور ان کی گفتگو کا موضوع نومنتخب صدر آصف علی زرداری کی شخصیت تھی ۔ انھیں اس بات کا شدید رنج تھا کہ ایک چور اور لٹیرا ملک کا صدر بن گیا ہے اور پھر ان کے متعلق اسی قسم کے لطیفے اور ’’سچے واقعات‘‘ سنانے شروع کیے جو آج کل نوازشریف کے خلاف عام ہیں۔ 

فقیر نے تھوڑی سی جرات کرکے انہیںCTBT یعنی چھوٹی ٹنڈ و بڑی ٹنڈ ( شہباز شریف اور نواز شریف )کے متعلق کچھ کہنے کی عرض کی تو پاس ہی بیٹھے موصوف کے ہونہار فرزند، یاسر پیرزادہ، جو ان دنوں روزنامہ جنگ میں اپنے ابا جی کے زیر تربیت ، تربیتی کالم لکھ رہے تھے غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ آپ کیسے ایک کرپٹ صدر کا میاں نواز شریف سے موازنہ کر رہے ہیں۔ ابا جی بہر حال سیانے تھے، میرے جواب دینے سے پہلے ہی انہوں نے اپنے ہونہار بیٹے کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور کہنے لگے چھڈو جی روٹی کھاؤ ، اج تے روٹی وی بڑی مزے دی بنی ہے۔

اگر سینکڑوں افراد کے قاتل احسان اللہ احسان کو ان کے ممدوح’’ شاعر‘‘ قرار دیں، مولانا پین دی سری کو’’ اپنے لوگ ‘‘قرار د یا جائے تو قاسمی صاحب کو ’’پاکستان کا پابلونرودا‘‘ قرار دینا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ہو سکتا ہے جب ان کے ممدوح نے انہیں پابلو نرودا کا خطاب دیا ہو گا تو انہوں نے کم ازکم دل میں یہ ضرور سوچا ہوگا کہ وجاہت نے مٹھا کجھ زیادہ نہیں پا دتا ۔

Comments are closed.