پاکستانی ریاست اور خادم رضوی کا بیانیہ ایک ہے

لیاقت علی

پاکستان دوقومی نظریئے کی بنیاد پروجود میں آیا تھا۔جناح کا موقف تھا کہ مسلمان ہرلحاظ سے ہندووں اوردیگرمذاہب کے پیروکاروں سےمختلف اورمنفرد ہیں۔مسلمانوں اوران کےغیرمسلم ہم وطنوں کےمابین کوئی مشترکہ بندھن نہیں ہے۔اب اگر کوئی ملک مذہب کی بنیاد پرقائم ہوتا ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ وہ مذہب سے اپنا تعلق قائم نہ کرے۔یہ پاکستان کی مذہبی بنیادہی تھی جس کی بدولت قومی اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظورکی تھی۔

دوقومی نظریئے کے بعد قرار داد مقاصد وہ اہم بنیادی اورآئینی دستاویز تھی جس نے پاکستانی ریاست اورسیاست کومذہب کے نام پر استوار کرنےمیں اہم رول اداکیا۔ گذشتہ71سالوں سے ہماری ریاست اورسیاسی جماعتیں مذہبی سیاست کے گرداب میں غوطے کھارہی ہیں۔ مذہب کے نام پرفرقہ پرستی،عسکریت پسندی اوردہشت گردی نے پاکستانی ریاست اورسماج کی چولیں ہلادی ہیں۔

اس تمام ترمایوس کن صورت حال کے باوجود ہمارے حکمران ہوں یا دانشورابھی تک مذہبی سیاست کے واہمہ سے باہر نہیں نکل سکے۔ وہ ابھی تک مذہب کو سیاسی اورشخصی مقاصد کے حصول کے لئےبھرپوراندازمیں استعمال کررہے ہیں اورمستقبل قریب میں ایسا کوئی امکان نہیں ہے کہ وہ مذہبی سیاست سے ہاتھ اٹھالیں گے۔

لہذا پاکستان کی مشکلات کم ہونے کےامکانات نہ ہونے کے برابر ہیں تاآنکہ پاکستانی ریاست سیکولرازم کواپنا لےاورمذہب کو ہرشہری کا ذاتی معاملہ قراردیتے ہوئے اسے اپنی پسند کے مذہبی عقیدے پر عمل پیرا ہونے کا حق دے۔

آسیہ بی بی کیس کےفیصلے کے بعد پورے ملک میں جولاک ڈاون ہوا ہے اس کے محرکات اورپس پشت وجوہات کا سنجیدہ اورمعروضی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کچھ افراد کے نزدیک اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والےمولویوں اوران کے ہمنواوں کو طاقت کے زورپر تتر بترکردیاجائے۔

بلاشبہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں انتظامی اقدامات کی اہمیت اورضرورت بہت زیادہ ہوتی ہے لیکن کیا طاقت کے بل پراس مائنڈ سیٹ میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے جس کو ہماری ریاست اورمذہبی سیاسی جماعتوں نے گذشتہ اکہترسالوں میں پوری تندہی سے پروان چڑھایا ہے اورجس کی تشکیل میں ہماری حکمران اشرافیہ نے ریاستی وسائل کا بھرپوراستعمال کیا ہے۔

طاقت کے زورپروقتی طورپرتو صورت حال میں بہتری لائی جاسکتی ہے لیکن کوئی بھی مسئلہ طاقت کے بل پرمستقل بنیادوں پرحل نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کی ریاست بنیادی طور پر نظریاتی مخمصے کا شکار ہے۔ کیا پاکستانی ریاست کو ایک جدید،روشن خیال جمہوری ریاست بننا ہے یا پھر قرون وسطی کے منجمد فکری عقائد کا نگہباں؟

علامہ خادم حسین رضوی کے خلاف ایکشن کرنے سےعمران حکومت کیوں گریزاں ہے؟کیا اس کی وجہ مولوی کی طاقت اورمقبولیت ہے؟ایسا ہرگزنہیں ہے مولوی کے پیروکاروں کی تعداد اتنی نہیں کہ وہ ریاستی رٹ کا مقابلہ کرسکے۔ دراصل ہماری ریاست ،عمران حکومت اورخادم رضوی کا نظریاتی بیانیہ ایک ہی ہے۔

ہماری ریاست اورعمران حکومت کو مولوی رضوی سے زیادہ اس کے نظریاتی بیانیہ سے ہمدردی ہے۔ وہ مولوی رضوی کے نظریاتی بیانیہ کوکسی طورپر نقصان نہیں پہنچانا چاہتے۔ وہ مولوی رضوی سے زیادہ اس نظریاتی بیانیہ کو تحفظ دیناچاہتے ہیں تاکہ آنے والے دنوں میں حسب ضرورت عوام کو بے وقوف بنانے کے لئے اس بیانیہ کواستعمال کیا جاسکے۔

پاکستان کی بقا،استحکام اورخوشحالی ایک جدید جمہوری ریاست بننے میں مضمر ہےایک ایسی ریاست جواپنے تمام شہریوں کو مساوی آئینی اورقانونی حقوق دینے کی پابند ہو۔ ایک ریاست جو بلا لحاظ مذہب عقیدہ اوررنگ و نسل برابری کے اصول پر یقین رکھتی ہو۔ مذہبی سیاست کو طاقت کے بل پر نہیں نظریہ کے بل پر شکست دینے کی ضرورت ہےلیکن اس کے لئے خود ریاست کو بھی اپنی نظریاتی سمت درست کرنا ہوگی۔

پاکستانی ریاست کو سیاسی اور سفارتی فوائد کے حصول کے لئے مذہب کے استعمال کوچھوڑنا ہوگا اور ریاستی اداروں کو سیکولربنیادوں پراستوارکرنا ہوگا۔ جب تک پاکستانی ریاست مذہب کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنا جاری رکھے گی مولوی کی طاقت ۔اورقوت کو توڑنا ناممکن ہے۔

One Comment