ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی !۔

طارق احمدمرزا

قارئین کرام،شاعر لوگ اپنے عہد کی آوازہوتے ہیں۔عام آدمی بحالتِ مجبوری خاموشی سے جوکچھ محسوس یا برداشت کررہا ہوتا ہے ،شاعر انہی احساسات اور مافی الضمیرکو اشعار کا روپ دے دیتے ہیں۔ہر عہد کے شعراء اس طریق سے اپنے عہد کی تاریخ کو بھی محفوظ کر رہے ہوتے ہیں۔ 

آج سے کوئی اکہتربہتّربرس پیشتربرصغیرکے مسلمانوں کو پاکستان کے روپ میں ایک آزادوطن کی نوید سنائی گئی تھی۔ان کے کانوں اور دلوں میں ان کے نفسیاتی،معاشی اور معاشرتی حالات میں ایک تبدیلی کی امید پیداکی گئی ۔بتایاگیا کہ ایک طویل اندھیری رات کے بعدایک نئی اور روشن صبح کااجالانمودارہونے والاہے لیکن جب وہ صبح طلوع ہوئی توفیض احمد فیض ؔ بے اختیاربول اٹھے کہ

یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحرتونہیں

فیض احمد فیض ؔ کوبہرحال ایک داغ داغ اجالا توکہیں سے نظرآگیا تھا،لیکن کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے انسانوں کواکہتربرس بعدیہ احساس شدت سے ستانے لگ چکا ہے کہ اب تو وہ داغ داغ اجالااور شب گزیدہ سحر بھی کہیں غائب ہوچکے ، اور یہی نہیں بلکہ اس داغداراجالے کے آنے سے پہلے والی وہ اندھیری رات بھی کہیں نظرنہیںآرہی ۔چنانچہ پاپولرؔ میرٹھی صاحب کیا خوب فرماتے ہیں کہ ؂
ایسی تبدیلی تو ہم نے کبھی دیکھی نہ سنی
اب اندھیرے نہ اجالے ہیں خدا خیر کرے

فیض صاحب نے اپنی بقیہ زندگی ایک حسین تصوراتی انقلاب کے خواب دیکھنے میں گزاردی۔مرتے دم تک اس دن کے انتظار میں جیتے رہے کہ جب تاج اچھالے جائیں گے،جب تخت گرائے جائیں گے۔ اور پھر یوں ہوتا رہا کہ جب بھی پاکستان میں کوئی حکومت بدلتی تو عوام اس تبدیلی سے یہی مراد لیتے کہ اب تاج اچھال دیا گیا ہے اور تخت بھی گرادیا گیا ہے۔کم ازکم ہر نئی حکومت عوام کو اسی تبدیلی کامژدہ سناتی ۔ 

لیکن جلد ہی عوام کو احساس ہوجاتاکہ یہ تبدیلی محض چہروں کی تبدیلی ہے،ان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ان کے سروں اور کندھوں پہ دھرابوجھ اتنا ہی ہے جتنا کہ پہلے تھا،تبدیل ہوا ہے تو محض وہ ٹوکراتبدیل ہوا ہے جس میں ان کا یہ بوجھ دھراہوتاتھا۔ایسا بوجھ جسے اٹھانے کی اجرت یہی نیا ٹوکراقرارپاتاہے۔تبدیلی جوبھی آتی ہے وہ نئے ٹوکرے کی تبدیلی ہوتی ہے ،عوام کے سروں پہ دھرابوجھ پرانا ہی رہتا ہے۔ مصطفیٰ ارباب ؔ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:۔

بوجھ اٹھانے کی اجرت
ٹوکروں کی تبدیلی ہے

یادش بخیر جناب سید نصیرشاہ ؔ صاحب نے قیام پاکستان سے لے کر اپنی وفات تک ایسی کتنی ہی تبدیلیاں اس ملک میں دیکھیں۔ہماری نئی نسل نے تونشرواشاعت،ذرائع ابلاغ کی فراوانی کے اس دورمیں ’’تبدیلی‘‘کا ایک ہی نعرہ سناہے،سید نصیرشاہ صاحب کی نسل تواب تک ایسی کتنی ہی نام نہادتبدیلیاں پٹابیٹھی ،چنانچہ فرماتے ہیں : ؂

آئی ہیں تبدیلیاں ٹوٹی نہیں۔تیری میری بیڑیاں ٹوٹی نہیں
چونچ تیتر کی لہو سے سرخ ہے۔پرقفس کی تیلیاں ٹوٹی نہیں
ریت کی دیوارحائل ہے ابھی۔تیرے میرے درمیاں ،ٹوٹی نہیں

جی ہاں پاکستانی معاشر ے کو ریت کی ایسی ناقابلِ تسخیردیواروں سے بانٹ دیا گیاہے کہ تبدیلی کی تمنا اب ان ریتلی دیواروں کوگرانے کی نہیں بلکہ اذہان وقلوب کی خواہشات کی تبدیلی میں بدل چکی ہے۔اس صورتحال کوسید صغیر صفی ؔ نے کچھ یوں بیان کیاہے :۔

تبدیلئ خواہش پر یہ ذہن بھی حیراں ہے
اب دل یہ محبت کے سائے سے گریزاں ہے

واضح رہے کہ تبدیلی کانعرہ لگانے والاہر سیاسی لیڈرخودکوعوام کا منظورنظراورمحبوب بنانے کافن بہت اچھی طرح جانتاہے۔لیکن اکہتربرسوں میں جتنے عوامی محبوب آئے،ان سے واسطہ پڑنے کے بعد دل نے محبت تو کیا اس کے سائے سے بھی گریزاں ہونا تو تھا۔اس قسم کے محبوب سے ہی مخاطب ہوکراسلم کولسری ؔ صاحب نے کو ئی لگی لپٹی رکھے بغیرصاف صاف کہہ دیا تھاکہ : ؂ 

وہی خوابیدہ خاموشی وہی تاریک تنہائی
تمہیں پاکربھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی

اسلم کولسری کو تو محبوب کے پانے کے بعد احساس ہوا کہ ان کے حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی لیکن کیا کہنے ملک احسانؔ صاحب کے جنہوں نے پہلے ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ : ۔

خیالوں کے سمندر میں نہ کچھ تبدیلی آئے گی
نہ کرداروں کے روزوشب میں کوئی فرق آئے گا

یہی نہیں اس سے بھی بڑھ کر کیا ہوگا؟۔یہ سرورارمانؔ صاحب سے پوچھئیے ،آپ فرماتے ہیں :۔

عدل کے معیار میں آجائیں گی تبدیلیاں
بے گناہی لائقِ تعزیرکردی جائے گی 

جس دیس میں بے گناہی لائقِ تعزیربن جائے تو اس دیس سے ہجرت کر سکنے والے اپنے دلوں پہ پتھررکھ کر دیس سے ہجرت کرجاتے ہیں اور پھر دیس سے آنے والے ہر شخص سے پوچھتے ہیں کہ :۔

کیا ظلم وستم رہ جائیں گے اب دنیا میں پہچانِ وطن؟
۔’اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن‘۔
اک ہم ہی نہیں چھنتے چھنتے جن کے سب حق معدوم ہوئے
رفتہ رفتہ آزادی سے سب اہل وطن محروم ہوئے
چلتا ہے وہاں اب کاروبار پہ سکّہ نوکرشاہی کا
اور کالے دھن کی فراوانی سے سب دھندے مجذوم ہوئے
آزاد کہاں وہ ملک جہاں قابض ہو سیاست پر ملّا
جو شاہ بنے بے تاج بنے،جو حاکم تھے محکوم ہوئے
اور گھرکے مالک ہی بن بیٹھے باوَردی دربانِ وطن
۔’اے دیس سے آنے والے بتا کس حال میں ہیں یارانِ وطن‘۔(میرزا طاہرؔ )۔
یہ ایک حقیقت اور ایک المیہ ہے کہ دمِ تحریریارانِ وطن اسی حال میں ہیں،اور سوچ رہے ہیں کہ حقیقی تبدیلی نجانے کب آئے گی؟۔

نوٹ:تبدیلی کے موضوع پرجملہ اشعارریختہ ڈاٹ آرگ سے لئے گئے ہیں

Comments are closed.