مگر یہ داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی

منیر سامی

اردو ادب کی اہم ترین خاتون شاعرہ فہمیدہ ؔ ریاض کے انتقال پر اگر جون ؔ ایلیا زندہ ہوتے تو شاید وہ اُن کو خراجِ تحسین پیش کرتے وقت اپنا صرف یہ مصرعہ ان کی نذر کرکے ان کے نصب العین کو سمو دیتے کہ، ’مانا نہیں ہے ہم نے غلط بند وبست کو ‘۔ آج فہمیدہ ؔ ریاض کو یاد کرتے وقت ہم نے عالمِ رجایئت میں یہ فرض کر لیا ہے کہ انہیں بنگلہ دیش کے بعد والے پاکستان کے سب قاری بالخصوص نوجوان قاری خوب اچھی طرح جانتے ہوں گے۔ اور بالخصوص ہماری نوجوان نسل کی وہ خواتین جو عمران خان کی دیوانی ہیں۔

یہ مفروضہ اس لیے بھی اہم ہے کہ فہمید ہ ریاض کے مخاطب بھی یہی تھے، اوروہ ان ہی کے لیئے ایک منصفانہ اور آزاد معاشرے کے خواب دیکھتی تھیں۔ ان کی تمام تر شاعری ایک ایسے معاشرے کی امید دلاتی ہے جس میں ہماری خواتین نہ صرف یہ کہ معاشرہ میں مساوی حق رکھتی ہوں بلکہ اپنی ہر بات کہنے کے لیے آزاد ہوں۔ سو ہم آج فہمیدہ ریاض کو یاد کرتے وقت ان کی کتابوں کی فہرست بھی نہیں گِنوایئں گے، اس امید کے ساتھ کہ قارئین ان سے استفادہ کر تے رہے ہوں گے۔

ہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ فہمیدہ ریاض کے انتقال پر کم از کم دو ایسے مضامین لکھے گئے، جو ان کے فن، زندگی ، اور ان کی جہدو جہد کا کماحقہا احاطہ کرتے ہیں۔ یہ مضامین ممتاز دانشورائوں ، ڈاکٹر عائشہؔ صدیقہ اور ڈاکٹر رخشندہ ؔ جلیل کے ہیں جو انٹرنیٹ کے ان پتوں پر پڑھے جا سکتے ہیں:

عائشہ صدیقہ؛ https://tinyurl.com/y7ubka67

رخشندہ جلیل ؛ https://tinyurl.com/yd64euvp

فہمیدہ ؔ ریاض نے اپنے معاشرے میں منصفانہ حقوق کی جدو جہد کے لیئے جو طرزِ فغان اختیار کی تھی اس پر لازم تھا کہ ان پر بغاوت اور کفر کے الزام لگیں، ضیا الحق ؔ نے ہمارے معاشرے کے افراد کو ’’ اللہ حافظ ثقافت ‘‘ کے جو زود اثر اور دیرپا ٹیکے لگائے تھے اس کے نتیجہ میں حق اور انصاف کا ہر طلبگار باغی اور قابلِ گردن زدنی ٹھہر تا تھا۔ فہمید ہ ریاض کے لیئے بھی یہی ہوا۔ وہ چونکہ اکثر فیضؔ سے استفادہ کرتی تھیں سو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان پر بھی سنگِ دشنام کی بارش ہوئی اور وہ الزام کے تیروں کی زد میں بھی رہیں۔

وہ یہ سب جانتی تھیں ، سو انہوں نے اپنے انتقال سے پہلے ہی جو وصیت حرفِ آخر کے طور پر لکھ دی تھی ، اس کی کچھ سطور یوں ہیں :

’’یارو بس اتنا کرم کرنا

پسِ مرگ نہ مجھ پہ ستم کرنا

مجھے کوئی سند نہ عطا کرنا دیں داری کی

مت کہنا جوشِ خطابت میں

در اصل یہ عورت مومن تھی

مت اٹھنا ثابت کرنے کو ملک و ملت سے وفاداری،

مت کوشش کرنا اپنا لیں ،حکام کم از کم نعش مری۔۔۔

یاراں یاراں کم ظرفوں کے دشنام تو ہیں اعزاز مرے۔۔

تم شاید جس کو کہہ نہ سکو وہ سچائی،

یہ لاش ہے ایسی عورت کی، جو اپنی کہنی کر گزری

تا عمر نہ ہر گز پچھتائی۔‘‘

فہمیدہ ؔ ریاض حق پرستوں اور عمل پرستوں کے جس گروہ کی سرخیل تھیں اس کا منصب مسلسل جدو جہد کرناتھا ۔اس گروہ کے اس منصب کی تاریخ کو سمیٹتے ہوئے کسی شاعر نے جن کا نام اس وقت مجھے یا د نہیں رہا اس طرح کہا تھا، ’’ نوعِ انسان کی زندگی کے لیے، روشنی کے لیے، آگہی کے لیے ، کتنے سقراط و منصور مارے گئے، کتنے عیسیٰ اسی مد میں وارے گئے‘‘۔ یہ وہ گروہ ہے کہ جو ہمیشہ شکست کو شکست دینے کی کوشش میں پر امید رہتا ہے۔ اور اپنی مشعلِ جان بجھتے ہوئے روشنی دوسری مشعلوں کو منتقل کرتا ہے۔ میں بھی اپنا یہ شعر ان کی نذر کرتا ہوں :

’’ ہمارے خوں میں ضو فشاں تھا اک محیطِ روشنی

جہاں جہاں طلب ہوئی ، دیئے جلاد یئے گئے ‘‘۔

یہی مشعل ِ امید انہوں نے آئیندگاں کو جب بھی عطا کی تھی جب افغان جہاد کے بعد کروڑوں پاکستانی روس میں لینن کا مجسمہ گرتا دیکھ کر ضیائیؔ سحر میں واہ واہ کر رہے تھے، اور تالیاں پیٹ رہے تھے۔ جب بھی فہمیدہؔ ریاض نے بلند آواز میں کہا تھا کہ،

’’ مجسمہ گرادیا

مگر یہ داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی

کئی ورق سفید ہیں ، لکھے گا جن پہ آدمی

، اک اور بابِ جستجوکہ حُسن کی تلاش میں

کہ منصفی کی آس میں پھری ہے خلق کوُ بکُو۔۔

دکاں میں کتنا مال ہے،دکاں میں دلبری نہیں

دکاں میں منصفی نہیں،ابھی پہر ڈھلا نہیں

ابھی رواں ہے کارواں،دلوں میں نصب ہیں نشاں۔۔

مجسمہ گرا مگر

زمیں پہ زندگی دکاں کے نام تو نہیں ہوئی،

ہماری داستاں ابھی تمام تو نہیں ہوئی‘‘

حق وا نصاف کے جن موضوعات پر فہمید ہ نے آواز اٹھائی تھی وہ پاکستان میں ہمیشہ ہی نا گفتہ بہ رہے ہیں۔ اور اب تو ان کے ذکر پر نہ صرف زبان کٹتی ہے بلکہ جان بھی جاتی ہے۔ ان کی چند نظموں کے صرف عنوانات ہی اربابِ جبر و قہر کو برَ افروختہ کرتے ہیں۔ چند عنوان ملاحظہ ہوں: ایاز سموں جیسے بیٹوں کے نام، ایک منظر (نظیرؔ عباسی کی شہادت پر مقدمہ)، باروچہ ، اور ایسی ہی کئی نظمیں۔ باروچہؔ کی چند سطریں ملاحظہ کریں ، اور خود ہی سوچیں کہ یہ سطریں لکھنے کی کسی اور نے جسارت کیوں نہیں کی،:

’’ ویرانے میں پیر پیادہ کرتی گھات بلوچ کی

اک پنھل کی کارن میں تو باندی ذات بلوچ کی۔۔

مرے پنھل کو کیا روکے گی زنداں کی دیوار

بھور سمے آکاش کی لالی دیتی ہے دیدار،

کیچ کوٹ میں بھڑک بھڑک کر بیتی رات بلوچ کی۔۔

سب کا ہوگا بھور اندھیارا کالی رات بلوچ کی

اس دھرتی کو یاد رہے گی ساری رات بلوچ کی

سَسی سہاگ بنے گی تیرا بھاری رات بلوچ کیـ‘‘

آخر میں فہمیدہ ریاض کی نظم ’’کوتوال بیٹھا ہے ‘‘ کی چند سطریں ملاحظہ ہوں جس میں وہ جب کے، اب کے ،اور آیندہ کے کوتوالوں کو تنبیہ کرتی ہیں:

’’ کوتوال بیٹھاہے، کیا بیان دیں اس کو

لو بیان دیتے ہیں، ہاں لکھو کہ سب سچ ہے

سب درست الزامات ، اپنا جرم ثابت ہے

جو کیا بہت کم تھا، بس یہی ندامت ہے

۔۔۔۔ یہ کر و اضافہ اب، جب تلک ہے دم میں دم

، پھر وہی کریں گے ہم

ہو سکا تو کچھ بڑھ کر، پھر وہ حرف لکھیں گے۔۔

وقت آنے والا ہے ، احتساب ہم لیں گے

، جب حساب ہم لیں گے

پر جواب دینے کو، تم مگر کہاں ہو گے

خار و خس سے کم تر ہو، راستے کے کنکر ہو

جس نے راہ گھیری ہے، وہ تمہارا آقا ہے

ہم نے دل میں ٹھانی ہے، راہ صاف کر دیں گے

تم کہ صرف نوکر ہو، تم کو معاف کر دیں گے‘‘

One Comment