راہگزر اور بھی ہیں اس گزر گاہ کے سوا

بیرسٹر حمید باشانی

کرتارپور گزرگاہ پر ابھی گفتگو جاری ہے۔ اورایسا لگتا ہے آنے والے دنوں میں جاری رہےگی۔ اس گفتگو میں ایک اضافہ نریندر مودی نے کیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے کہا کہ سال 1947میں کرتار پور کو پاکستان کے حوالے کرناکانگریس کی غلطی تھی۔ اوروہ ان غلطیوں کو درست کر رہے ہیں ، جوکانگرس نے گزشتہ ستر سالوں میں کی ہیں۔انہوں نے کہا کہ کرتار پور جیسا مقدس کامکرنامیرے مقدر میں لکھا تھا۔ تقسیم کےوقت کانگرس نے سکھوں کے اس مقدس مقام پرذرہ بھر بھی توجہ نہیں دی، جو سرحد سے صرف چند کلومیٹر کے فیصلے پرتھا ۔

 
بھارت میں انتخابات کے ہنگام میں مودی صاحب کرتار پور کو د دھاری تلوار کی طرح چلا رہے ہیں۔ ایک طرف وہ کرتار پورراہداری کا پورا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ اوردوسری طرف کانگرس کے چہرے پر کالک ملنےکی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ محض انتخابات کیبات نہیں۔ حقیقت میں بر صغیر میں آج بھیکئی ایسے مسائل موجود ہیں، جو تقسیم سےجڑے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کے پیدا ہونے کی ذمہ دار آل انڈیا نیشنل کانگرس کو بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ تقسیم کے عمل میں اس کا کردار بڑابنیادیاور فیصلہ کن تھا۔۔

 
مودی صاحب کی بات سے اتفاق کیا جا سکتاہے۔کانگرس کو شاید اس غلطیاور اور اس سے جڑی دوسری کئی سنگین غلطیوں کا زمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے۔ مگر بھارتی وزیر اعظم کو بھی یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ تقسیم کے وقت کانگرس اور مسلم لیگ کے ذہن میں تقسیم کا جونقشہ تھا ، وہ اس نقشے سے قطعی طور پر مختلف تھا ، جو بعد میں عملی طور پر ابھر کر سامنےآیا۔ تقسیم کے بارے میں اس وقت کسی کے ذہن میں وہ تصورات بھی نہیں تھے، جو تقسیم کےبعد ہندو قوم پرستوں کے دل و دماغ میں پیداہوئے ۔ یاجوآج پاکستان اوربھارت کے مذہبی انتہا پسندو ں اور شدت پسندوں کے ذہنوں میں کلبلارہے ہیں۔

 
تقسیم کا عمل بے شک نا خوشگوار ماحول میں شروع ہوا۔ مگر بد قسمتی سے یہ نا خوشگوار ماحول تقسیم کے عمل کے دوران المناک شکل اختیارکر گیا۔ لیکن اس کی ابتدا میں ایسا نہیں تھا۔ اگرچہ ناگواری کے جذبات موجود تھے، لیکن شروعات تمام فریقین کی با ہمی رضامندی سے ہوئی۔ کانگر یس، مسلم لیگ اور انگریز حکمرانوں کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد بلاخریہ طے کیا گیا کہ بر صغیر کو تقسیم ہو جاناچاہیے۔ اس طویل مذاکراتیعمل کے دوران بے شمار خدشات اور تحفظات پر غور و فکر کیا گیا۔ کئی جانے اور انجانےخطرات پر بات ہوئی۔

اسکے باوجود کچھ چیزیں ایسی تھیں، جن کےبارے میں ان تینوں فریقوں میں سے کوئی بھیپورا تصور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انناخوشگور واقعات میں ایک تقسیم کے دورانہونے والا خون خرابہ بھی تھا۔ کچھ لوگوںکو یہ خدشہ ضرور تھا کہ تقسیم کے دورانفسادات ہو سکتے ہیں، مگر یہ کوئی بھی نہیںسوچ سکتا تھا کہ یہ فسادات اس قدر بھیانکشکل بھی اختیار کر سکتے ہیں کہ لاکھوں لوگاس کی لپیٹ میں آسکتے ہیں۔ چنانچہ فساداتکی اس شدت اور نا قابل تصور تباہی پر کانگرساور مسلم لیگ کے لیڈر سخت حیرت اور صدمےسے دوچار ہوئے۔ 

فسادات کے بعد دوسرا بڑا حیران کن مسئلہ بڑے پیمانے پرہجرت اور نقل مکانی تھا۔کسی حد تک سب رہنماوں کو اندازہ تھا کہتقسیم کے وقت آبادی کا کچھ تبادلہ ہوگا۔اس کے لیے کچھ بنیادی اصول بھی طے کر لیےگئے تھے۔ لیکن جس پیمانے پر آبادی کاتبادلہ ہوا۔ اور فسادات کی وجہ سے اس میںجو تیزی اور شدت آئی، وہ بھی بہت سو ں کےلیے حیرت کا باعث تھی۔ دونوں اطراف کیلیڈر شپ نے اس کو روکنے کی کوشش بھی کی۔مگر بد قسمتی سے جب تک وہ اس کوشش میںکامیاب ہوتے ، اس وقت تک بہت خون بہہ چکاتھا۔


کانگرس اور مسلم لیگ کے رہنماوں کے ذہنمیں تقسیم کا تصور مختلف تھا۔ تقسیم کےاس تصور میں آبادی کی بہت چھوٹے پیمانےپر پر امن منتقلی اور دونوں ممالک کےدرمیان انتہائی نرم سرحدوں کے قیام کاتصور تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ تقسیم اورنقل مکانی کے باوجود لوگ پوری آزادی سےبر صغیر میں آتے جاتے رہیں گے۔ یہاں تک کےسر حد پار کرنے کے لیے ویزے کی بھی ضرورتنہیں ہو گی۔ یہ ان کے وہم و گمان میں بھینہ تھا کہ رفتہ رفتہ دونوں ملکوں کے درمیان دشمنی کی فضا پیدا ہو جائے گی، جس کا اظہارکئی کھلی اور خفیہ جنگوں کی صورت میں ہوگا۔ سرحدیں بند ہو جائیں گی۔ کئی خاردارباڑیں لگیں گی اورکئی دیواریں بنائی جائیںگی۔ اور ایک دن عام لوگوں کے لیے دونوںملکوں کے درمیاں سفر ایک مشکل کام بن جائےگا۔ یہاں تک کہ ان عام لوگوں کے لیے بھی جو رشتے داروں سے ملاقات، علاج معالجے یامقدس مقامات کی زیارت کے لیے آر پار جاناچاہتے ہوں۔

تقسیم کے وقت آگ و خون کے اس ہیبت ناک کھیل کےباوجود اس وقت کے رہنماوں نے حالات کومعمول پر لانے کی کوشش کی۔ تقسیم کا حتمیفیصلہ ہونے کے بعد قائد اعظم محمد علیجناح نے کئی موقعوں پر پاکستان بھارت کےدرمیان سافٹ باڈرز اور برادارنہ تعلقاتکی بات کی۔ تقسیم کے بعد بطور گورنر جنرلامریکی سفیر پال ایلنگ کے ساتھ کراچی کےساحل سمندرپر چہل قدمی کرتے ہوئے قائداعظم نے کہا تھاکہ ان کی خواہش ہے کہپاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات ایسےہوں جو امریکہ اورکینیڈا کے درمیان ہیں۔ان دنوں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان مثالی تعلقات تھے۔ دونوں ملکوں کے درمیان دنیا کی طویل ترین سرحد یں تھی، جن پر کوئیمحافظ تعینات نہیں تھا۔ ان کے درمیان کچھ مشترک شہر تھے۔ اور سرحدوں کے آر پار لوگبلا روک ٹوک آزادی سے آ جا سکتے تھے۔ اگرچہنائن الیون کے بعد اس صورت حال میں تھوڑیبہت تبدیلی آئی ہے، مگر اب بھی دونوں ملکوںکے درمیان بے مثال تعلق اور رشتہ ہے۔ 

قائداعظم کا خیال تھا کہ جب تقسیم کے طوفان کی گرد بیٹھ جائے گی۔ فسادات میں لگے زخم بھرجائیں گے تو حالات واپس معمول پر آ جائیںگے۔ چنانچہ سات اگست کو اپنا بمبئی والابنگلہ خالی کرتے وقت قائد اعظم نے بی جیکھر کو ہدایت کی کہ وہ ان کے گھر کا خیالرکھیں، اور وہ جلد ہی یہاں اپنی چھٹیاں گزارنے پاکستان سے واپس آئیں گے۔ قائداعظم کوڈھائی ایکڑ پر تعمیریہ محل نما گھر بہت پسند تھا۔ جسے وہ تقسیم کے بعد بھی فروخت کرنے کو تیار نہ تھے۔ 

مون داس کرم چند گاندھی کے پوتے راج موہنگاندھی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ستمبر1947سےہی گاندھی جی پاکستان کا دورہ کرنا چاہتےتھے۔ انہوں نے اپنی خواہش کا اظہار محمدعلی جناح سے تحریری طور پر کیا۔ جناح صاحبنے رضا مندی اور خوشی کا اظہار کیا ۔ چنانچہ گاندھی کے دورہ پاکستان کے لیے فروری آٹھاور نو کی تاریخیں طے ہوئیں۔ مگر اس سےپہلے ہی جنوری تیس کو ایک ہندو بنیاد پرستگاڈسے نے گاندھی جی کو گولی مار دی ۔

بہت سوں کا خیال ہے کہ موہن داس کرم چند گاندھی اور محمد علی جناح کو اگر کچھ موقع ملتاتو شائد وہ لوگوں کے کچھ زخم بھرنے میںکامیاب ہو جاتے۔ مگر ایسا ہو نہ سکا۔گاندھی جی تیس جنوری انیس اڑتالیس کو قتلکر دئیے گئے۔ اور محمد علی جناح گیارہستمبر 1948کواس جہاں سے کوچ کر گئے۔ تب سے بر صغیر کےاربوں لوگ جنگ و امن کے سوال کے درمیانمعلق ہیں۔ دونوں ملک تین جنگیں لڑ چکےہیں۔ اور جنگ نہ ہو تو وہ سرد جنگ میں منجمدکھڑے رہتے ہیں۔

کشمیران کے درمیان شروع دن سے ہی بڑامسئلہ رہا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ کئی اور چھوٹےبڑے مسائل بھی جڑے ہوئے ہیں ، جو دونوں ملکوں کے درمیان امن کی راہ میں حائل ہیں۔چنانچہ کرتار پور گزرگاہ جیسا اقدامتاریخی اورنیک شگون ہے۔ یہ امن کی طرف ایک بڑا قدم ہے ۔ یہ قدم کشمیر سمیت دوسرےمقامات پر مزید گزر گا ہیںاور راہ گزر کھولنے کا نقطہ آغاز بن سکتاہے۔

Comments are closed.