پشتون تحفظ موومینٹ اور ریاستی رویہ 

ایمل خٹک 

پشتون تحفظ موومنٹ کا بیانیہ عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں سے متاثرہ علاقوں کا بیانیہ ہے ۔ یہ ہر پشتون کا بیانیہ ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ پشتون بیلٹ کے اکثر علاقے بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر جاری شورش سے متاثر ہوچکے ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستانی ریاستی ادارے اس شورش کے ایک اھم شراکت دارہیں۔ چاہے شورش زدہ علاقوں میں ریاست کے پروردہ عسکریت پسند گروپوں کے مظالم ہوں یا آپریشنوں کے دوران انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں پاکستان کے ریاستی ادارے اپنے آپ کو اس سے بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ 

موجودہ پشتون بیانیے میں تلخی اور جذباتیت کو سمجھنے کیلئے اس کو پاکستان کی سیاسی سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے درپردہ عوامل اور وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کی جمہوریت مخالف اور غیر سیاسی کردار اور رویوں کو سمجھنا ھوگا۔ اسٹبلشمنٹ کی علاقائی رقابتوں اور سامراج کی ریشہ دوانیوں کو سمجھنا ہوگا ۔  اور اسٹبلشمنٹ کی ناعاقبت اندیش اور غلط پالیسیوں کو سمجھنا ہوگا۔خاص کر بعض قومیتوں یا قوم پرست سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ان کی مخاصمانہ رویوں اور شکوک وشبھات کو سمجھنا ہوگا ۔ 

برصغیر پاک و ھند کی تقسیم کے بعد پاکستانی اسٹبلشمنٹ نے مغربی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے اپنی جیواسٹرٹیجک پوزیشن کو مارکیٹ کرنا شروع کیا اور مغربی قوتوں کی حمایت اور مدد حاصل کرنے کیلئے پاکستان کو فرنٹ لائین اسٹیٹ قرار دینے کا بیانیہ پیش کیا ۔ اسلئے پہلے روز سے اسٹبلشمنٹ کی پالیسیاں داخلی کی ساتھ ساتھ بیرونی ایجنڈا کی تابع بنتی گئی ۔ داخلی ایجنڈا ناعاقبت اندیش داخلی اور خارجہ پالیسیوں کو چیلنج کرنے والی جمہوری قوتوں کو کمزور کرنا٫ انڈیا دشمنی ، ڈیورینڈ لائن کے مسلے پر افغانستان سے کشیدگی اور جمہوریت سے گریز اور بیرونی ایجنڈا سرد جنگ کے دوران کمیونزم مخالف کیمپ کا حصہ بننا اور علاقے میں مغربی ممالک کی مفادات کا تحفظ اور ان کی ہم نوائی تھی ۔ 

چاہے مسلم لیگ کی قیادت ہو یا سول اور ملٹری بیورکریسی کی اکثریت ان علاقوں سے تعلق رکھتی تھی جو ان علاقوں سےہجرت کرکے آئی جو تقسیم ھند کے بعد  نئی ریاست پاکستان کے حصے میں نہیں آئے ۔ مطلب وہ نئے وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں نوارد تھے اور ان علاقوں میں ان کی کوئی مضبوط سیاسی، لسانی اور ثقافتی جڑیں نہیں تھیں ۔ اسلئے شروع ہی سے پاکستان کی حکمران اشرافیہ کا جمہوریت سے گریز اور غیر جمہوری اور غیر سیاسی قوتوں پر دارومدار بڑھا۔ دوسرا مغربی قوتوں کیلئے اپنی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے بھی پاکستان کی جمہوری قوتوں جو واضح سامراج دشمن میلانات کی حامل تھی کو کمزور کرنے اور کچلنے میں دلچسپی تھی ۔

پشتون قوم پرست پاکستان کی جمہوری تحریکوں کا ہر اوّل دستہ رہی ہے۔ اسلئے اس نے ھمیشہ سے نہ صرف پاکستانی اسٹبلشمنٹ بلکہ سامراجی اسٹبلشمنٹ کے بھی مخالفت مول لی ہے ۔ سرد جنگ کے دوران واضع سامراج دشمن موقف ، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات اور ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کیلئے جہدوجہد کی وجہ سے  داخلی اور خارجی اسٹبلشمنٹ دونوں ان کو اپنا دشمن نمبر ون سمجھتی رہی ہے ۔ افغان جہاد کے دوران یہ سیاسی محاذ آرائی مزید بڑی ۔ اسلئے نہ صرف اندرونی اور بیرونی ایجنڈے کی تکمیل بلکہ پشتون قوم پرست سوچ اور سیاست کو کمزور اور آلودہ کرنے کیلئے پشتون بیلٹ میں انتہائی مہارت اور منصوبہ بندی سے مذھبی انتہاپسند اور عسکریت پسندی کو پروان چڑھایا گیا۔ 

اسٹبلشمنٹ نے جمہوری اور سیاسی قوتوں کو دبانے کیلئے مذ ہبی اور غداری کا کارڈ بے دریغ استعمال کیا ۔ سرد جنگ کے دوران پاکستان کی انتہاپسند مذھبی اور بنیاد پرست گروپوں کے علاوہ افغان مہاجرین کو بھی پشتون سیاسی جماعتوں کو ڈرانے دھمکانے اور دبانے سے گریز نہیں کیاگیا ۔ پشتون بیلٹ میں انتہاپسندی اور عسکریت پسندی کو متعارف کرایا گیا ۔ عسکریت نواز اور انتہا پسند مذہبی بیانیوں کے فروغ ،  مدارس کا جال پھیلانے اور عسکریت پسندوں کی بے روک ٹوک سرگرمیوں سے پشتون نوجوانوں کو ورغلانے اور ان کی برین واشنگ کی گئی۔ اور انہیں داخلی اور خاجی ایجنڈے کی تکمیل کیلئے جنگی مشین کا حصہ بنایا گیا۔ 

گزشتہ پندرہ سالوں میں ریاست نواز عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں نے پشتون بیلٹ خاص کر قبائلی علاقوں ، مالاکنڈ ڈویژن اور بعض جنوبی اضلاع کو تباہ اور برباد کیا ۔ لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ، معیشت تباہ ، زراعت تباہ ، غربت اور بے  روزگاری میں اضافہ  جبکہ ہزاروں شہری ہلاک اور ہزاروں افراد تاحال لاپتہ ہیں۔ شورش زدہ علاقوں میں آئے روز کا کرفیو، چیک پوسٹوں کی بھرمار اور عوام سے ناروا اور ھتک آمیز سلوک، ماورائے قانون گرفتاریاں اور قتل نے عوام کو حق اور انصاف کیلئے آواز اٹھانے پر مجبور کیا ہے ۔ 

پشتونوں میں غم وغصہ  انتہا کو پہنچا ہوا ہے ۔ ان کو شورش یا کنفلیکٹ کے عوامل اور وجوہات کا بخوبی علم ہوچکا ہے ۔ وہ پشتون بیلٹ میں رچائے گئے سٹریٹیجک ڈراموں کی ماھیت اور مقاصد کو سمجھ چکے ہیں۔ 

ان میں  اپنی تباہی اور بربادی دیکھنے کا حوصلہ نہیں رہا اور پشتون اب ظلم اور بے انصافی کو نہ تو مزید سہہ سکتے اور نہ اس پر خاموش ۔ منظور پشتین نے بے سہارا اور بے آواز  مظلوم پشتون عوام کو آواز دی ہے ۔ ان کو بولنے اور حق اور انصاف کیلئے آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا ہے ۔  اس آواز  کو اب کمزور یا دبایا نہیں جاسکتا ۔ 

پشتون تحفظ موومنٹ کا بیانیہ ہر باشعور پشتون کا بیانیہ ہے ۔ پی ٹی ایم قانون اور آئین کے اندر اپنا حق اور انصاف مانگتی ہے ۔  قانون کی بالادستی کا تقاضا ہے کہ قانون شکنی جو بھی کرے اس کو انصاف کے کہٹرے میں کھڑا کیا جائے ، ظلم اور زیادتی کرنے والوں سے پوچھ گچھ کی جائے اور قصور وار کو سزا ملنی چائیے ۔پشتونوں میں بیداری اور شعور کی سطع بہت بلند ہوچکی ہے ۔ اب بیداری رک نہیں سکتی بلکہ مزید بڑھے گی۔ اس بیداری کا راستہ روکنے والے ناکام اور رسوا ہونگے ۔ 

روایتی سیاستدان مختلف سیاسی مصلحتوں اور مسائل کی وجہ سے شورش زدہ علاقوں کے مسائل کو نہ تو مناسب توجہ دی اور نہ ہی صحیح طریقے سے ان مسائل کو اٹھایا ۔ پی ٹی ایم کے ظہور اور ابھرنے کی اور وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے سیاست میں نظریات کا عمل دخل کم ہوا اور نتیجتاً سیاست مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی ہے ۔ جس کی وجہ سے روایتی سیاستدانوں سے عوام میں ایک عمومی بیزراری اور مایوسی پائی جاتی ہے ۔ 

پشتون تحفظ موومنٹ کو دبانے اور کچلنے کی منصوبہ بندی کرنے والے ابھی تک خواب خرگوش میں پڑے ہیں ۔ ایک پرامن اور ملکی قانون اور آئین کے اندر اپنے حقوق اور انصاف کیلئے آواز کو دبانے کا مطلب پشتون نوجوانوں کو انتہاپسند اقدامات اٹھانے پر مجبور کرنے کے مترادف ھوگا ۔ ریاست کو پی ٹی ایم کو کچلنا یا سیاستدانوں کو اس کی مخالفت بہت مہنگا سودا ثابت ھوگا ۔ سازشی چاھتے ہیں کہ پی ٹی ایم کو سیاسی طور پر تنہا کیا جائے ، عوام کو متنفر کرنے کیلئے پی ٹی ایم کے بارے میں غلط افواہیں پھیلائی جا ئیں ، پی ٹی ایم میں انتشار اور پھوٹ ڈالنے کیلئے تحریک کے اندر داخلی اختلافات کو ہوا دی جائے اور اسے سیاسی طور پر تنہا اور کمزور کرنے کے بعد اس پر بہرپور وار کیا جائے ۔پی ٹی ایم کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی ایک چال ان کے اور قوم پرست جماعتوں کے بیچ غلط فہمیاں بڑھانا بھی ہے ۔  

اب نہ تو پی ٹی ایم پر وار کرنا آسان ہے اور نہ وار کے بعد کی صورتحال پر قابو پانا ۔ پی ٹی ایم کو روایتی طریقوں سے یا بزور دبانے سے حالات مزید خراب ہونگے ۔ پی ٹی ایم کے جائز مطالبات جس کو اکثر ملک کی سیاسی قیادت بھی جائز قرار دے چکی ہے اور اسلام آباد دھرنے کے وقت حکومت اور پی ٹی ایم کے درمیان کئے گئے معاہدے میں بھی اس کو تسلیم کیا گیا ہے پر بات کرنے کی ضرورت ہے ۔

پی ٹی ایم کو کچلنے کی منصوبہ بندی کی بجائے ان کے مطالبات کو تسلیم کرنے اور ان کے جاھیز شکایات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ مطالبات ماننے سے  گریز بذات خود اس بات کا اعتراف ھوگا کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ۔ اور طاقت کا استعمال مسائل کو حل کرنی کی بجائے مزید پیچیدہ اور گھمبیر بنا دے گی ۔ 

Comments are closed.