پشتون تحفظ موومنٹ اور سازشی تھیوریاں

 ایمل خٹک

پشتون تحفظ موومنٹ کا ظہور ایک ایسا سماجی مظہر ہے جو سماجی علوم کے ماہرین اورریسرچرز کی تحقیق اور مطالعے کیلئے ایک بہترین موضوع بن سکتاہے ۔ پی ٹی ایم جیسی عوامی تحریکیں نہ تو کسی سازش کے نتیجے میں اور نہ کسی کے خلاف ابھرتی ہے۔ یہ تحریکیں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، ریاستی ظلم و جبر اور بے انصافیوں کےنتیجے میں ابھرتی ہے ۔ پشتون معاشرے کی ٹھوس موضوعی اور معروضی حالات نے پی ٹی ایم کو جنم دیاہے ۔ 

قبائلی علاقوں کی سٹرٹیجک اہمیت کو کیش کرتے ہوئےپاکستان کی حکمران اشرافیہ نے عالمی قوتوں کی خوشنودی اور فوجی ، اقتصادی اور حتی کہ فوجی آمروں نے سیاسی حمایت کے حصول کیلئے ملک کو فرنٹ لائن قرار دینے کابیانیہ پیش کیا ۔ اس طرح سرد جنگ کے عروج اور بعد میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران قبائلی علاقے عالمی تنازعات کےگرم نکتے بن گئے۔ اور داخلی اور عالمی قوتوں کی سازشوں کے گڑھ سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کےنتیجے میں علاقے میں جنگی معیشت وجود میں آگئی اور ہر سال اربوں ڈالراس معیشت میں آئے ۔  اس معیشت سے خواص نے فائدہ اٹھایاجبکہ عوام بدحالی ، نقل مکانی اور مفلسی اور شورشوں کی وجہ سے تباہ حال ھوئے۔ 

پہلےافغان جہاد اور پھر طالبان کی حمایت کیلئے قبائلی علاقوں میں ایک وسیع جہادی انفراسٹرکچر بنایا گیا ۔ افغان جہاد کے دوران پاکستان کے بنیاد پرست حلقوں جبکہ طالبان کے دور میں دیوبندی مکتبہ فکر کو آگے لایا گیا۔وہابیت اور سلفیت متعارف کی گئی ۔  طالبان کے دور میں پاکستانی طالبان کو منظم کیا گیا اور عملا” قبائلی علاقوں کی عملداری ان کے سپرد کی گئی ۔قبائلی علاقوں میں طالبان کی مکمل کنٹرول اور عملداری کیلئے سینکڑوں قبائلی عمائدین کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعےراستے سے ہٹایا گیا ۔ ریاست کے پروردہ طالبان کی عملداری اور پھرفوجی آپریشنوں کے دوران وسیع پیمانے پرتباہی پھیلی۔ قبائلی علاقوں کے ساتھ ملحقہ بندوبستی علاقے یعنی جنوبی اضلاع اورملاکنڈ ڈویژن بھی متاثر ہوا۔ 

شورش زدہ علاقوں کے مخصوص تناظر میں پشتون تحفظ موومنٹ جن ایشوز کو لے کر نکلی ہے اس کاتعلق بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ریاستی اداروں سے ہے ۔ پی ٹی ایم کی جہدوجہد کےنتیجے میں عوام میں ڈر اور خوف ختم ہورہاہے اور لوگ کھل کر نہ صرف روا رکھے جانےوالے ظلم اور زیادتیوں کی نشاندہی کر رہےہیں بلکہ اس کے خلاف آواز بھی اٹھارہے ہیں ۔ جوں جوں ظلم وستم اور زیادتیوں کی داستانیں سامنے آرہی ہےریاستی اداروں کی بدحواسی اور بوکھلاہٹ بڑھتی جارہی ہے اور پی ٹی ایم کے خلاف سازشیں زور پکڑتی جارہی ہے اور انتقامی کاروائیوں میں اضافہ ہورہاہے ۔ اور نت نئی سازشی تھیوریاں گڑھی جارہی ہیں ۔ 

پاکستان کی سیاسی تاریخ کی تناظر میں سازشی تھیوری گھڑنا کوئی انہونی بات نہیں ۔ ریاست کےعلاوہ دیگر مفادی حلقے بھی اس کام میں ماہر ہیں۔ ریاست دا نستہ طور پر سازشی تھیوریاں پیش کرتی ہے ۔ پاکستانی ریاست کا جمہوری اور سیاسی قوتوں کو زک پہنچانےاور انتقامی کاروائیوں کو جواز مہیا کرنےکا یہ ایک دیرینہ اور محبوب نسخہ ہے۔ جبکہ سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی حریفوں سے حساب برابر کرنے ان کو نیچا دکھانے اور عوام کو ان سے متنفر کرنے کیلئے یہ کارڈ استعمال کرتی ہے ۔

حقوق اور انصاف کیلئے سرگرم عمل پی ٹی ایم کےحوالے سے بھی کئی سازشی تھیوریاں  زیرگردش  ہے۔ ان سازشی تھیوریوں کی حقیقت یہ ہے کہ ان کو درست ثابت کرنے کیلئےابھی تک کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کی جاسکی۔

 ایک سازشی تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم بیرونی قوتوں کی ایجنٹ ہے ۔ اور اس کو باہر سےامداد اور حمایت مل رہی ہے ۔ پی ٹی ایم کےراہنماوں کی سادہ اور بے سرو مانی کی زندگی اورعوامی چندے سے کی جانے والی سرگرمیاں دیکھ کر اندازہ ھوجاتا ہے کہ وہ کس کے ایجنٹ ہیں ۔ یقیناً وہ اپنے عوام کیے ایجنٹ ہیں۔ ویسے پاکستان کا کونسا عوامی لیڈر ایساہے جس پر یہ الزام نہ لگا ھو۔ 

دوسری تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم کیسے اچانک ابھری اور پھیل گئی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں محلاتی سازشیں اور سازشی تھیوریز عام ہوں اور عوامی تحریکوں کی حرکیات اور جدلیات کا بھرپور مطالعہ نہ ہوتو تحریکوں کے اچانک ابھرنے اور چھانے کے پیچھے بھی لوگ سازش ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جس معاشرے میں مسائل اور مشکلات کی بھرمارہو ، ریاستی ظلم وستم عام ہو اور بےانصافی کا دور دورہ ہو اور حکمرانوں  یا طاقتور حلقوں کی  عوام کو دبانے اور خاموش کرانے کی کوششیں زور وشور سے جاری ہو وہاں عوامی تحریکیں اچانک ابھرتی ہیں اور چھا جاتی ہے ۔ یہی عمل پی ٹی ایم کے ساتھ بھی ہوا ۔   

تیسری تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم فوج یا ریاست کے خلاف ہے ۔ اور اکثر یہ جو دہشت گردی ہےاس کے پیچھے وردی ہے والے نعرے کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ سب سے پہلے تو یہ نعرہ پی ٹی ایم سے پہلے وجود میں آیا ہے ۔ البتہ پی ٹی ایم نے اسے مقبول عام بنایا ۔ پی ٹی ایم کے زیادہ تر قائدین اور سرگرم کارکنوں کا تعلق قبائلی علاقوں سےہے اور وہ ریاست کے پروردہ طالبان کی عملداری اور پھر فوجیآپریشنوں کے دوران ظلم اور زیادتیوں اوروسیع پیمانے پر پھیلی تباہی و بربادی کےبرائے راست متاثرین میں سے ہیں اور ہر قسم کی مشکلات ،  مصیبتیں اور صعوبتیں برداشت کی ہے ۔ پی ٹی ایم کےصفوں میں پشتون تعلیم یافتہ اور دانشورطبقہ بھی علاقے میں جاری سٹرٹیجک گیمزکا ادراک رکھتے ہیں اور جاری کنفلیکٹ کے عوامل اور محرکات کی سوجھ بوجھ رکھتےہیں ۔

اس میں شک نہیں کہ پی ٹی ایم قبائلی علاقوں اور بندو بستی علاقوں میں طالبان کی عملداری اور فوجی آپریشنوں کے دوران پھیلی تباہی اور بربادی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی  ذمہ دار ریاست اور ریاست کی ناعاقبت اندیش داخلہ اورخارجہ پالیسیوں کو سمجھتی ہے ۔ اور کھلےعام ان پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہے ۔ اوران کی لہجے کی تلخی اورجذباتیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ریاستی اداروں کی جانب سے کی جانےوالی سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کونزدیک سے دیکھا ہے سہہ ہےاور محسوس کیا ہے ۔

 پی ٹی ایم سے ریاست کی ناراضگی کی ایک وجہ یہبھی ہے کہ پی ٹی ایم پشتون بیلٹ میں تباہی اور بربادی کے ذمہ دار عاملین کا کھلے عام نام لیتی ہے اور ان کی زیادتیوں اور مظالم کی نشاندہی اور ان کو بے نقاب کر تی ہے۔ 

چوتھی سازشی تھیوری یہ ہے کہ شایداسٹبلشمنٹ نے  پی ٹی ایم کو کچھ مخصوص سیاسی قوتوں یا جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئےبنایا ہے ۔ سب سے پہلے تو اگر واقعی پی ٹی ایم اسٹبلشمنٹ کی ایجنٹ ہے تو پھرایسٹیبشلمنٹ کی پی ٹی ایم کے خلاف سازشیں زوروں پر کیوں ہیں اورا ن پر وار کرنے کےلیے ماحول کیوں بنایا جارہا ہے اور کریک ڈاون کی منصوبہ بندی کیوں ہو رہی ہے ۔ شروع دن سے ایسٹیبشلمنٹ نے پی ٹی ایم کے خلاف  انتقامی  کاروائیوں  کا  نہ  ختم  ہونے  والا  سلسلہ شروع کیوں کیا ہے اور دھڑا دھڑا بے بنیاد مقدمات کیوں قائم کررہی ہے۔ 

 منظورپشتین سمیت پی ٹی ایم نقل و حرکت پر پابندیاں لگ رہی ہیں سندھ اور بلوچستان میں داخلہ بندہو رہا ہے۔ ڈیفنس کا  زیر  کنٹرول  سوشل کےراھنماوں کی  میڈیا  پردن رات  کردار  کشی  کیوں ہورہی  ہے اور ان کے خلاف بھرپور ڈس انفارمیشن مہم  کیوں چلائی جارہی ہے ۔  اہم  ریاستی  افراد کے  پی ٹی ایم  کے  خلاف  بیانات  اور  کھلے  عام  یا  دبے  دبے  الفاظ  میں  سنگین نتائج کی دھمکیاں جو پی ٹی ایم کوگزشتہ دس ماہ کے دوراندی گئی ہے ایجنٹ تو چھوڑئیے ابھی تک کس اسٹبلشمنٹ مخالف راہنمایا جماعت کو ملی ہے  ۔  

 جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ  پی ٹی ایم کو اسٹبلشمنٹ نے کسی پارٹی کی مخالفت اور کمزور کرنے کیلئے بنایا ہےتو پھر  پیٹی ایم کی تنقید کا نشانہ ریاست اور ریاستیپالیسیاں کیوں ہے وہ تحریک یا جماعت کیوںنہیں جس کو کمزور کرنے کیلئے اس کو بنایاگیاہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ پی ٹی ایمکی قائدین اور ذمہ داران نے ہمیشہ قوم پرست سیاسی راہنماوں کا نام عزت اور احترام سے لیا ہے اور ان پر تنقید سے اجتناب کیا ہے ۔ پی ٹی ایم کیسرگرمیوں سے ابھی تک یہ تاثر نہیں ملا کہقوم پرست سیاسی جماعتیں تو ایک طرف دیگرسیاسی جماعتوں کی بھی کبھی مخالفت کی ھو۔  ھاں تحریک کے حامی یا ھمدرد بنکر ایجنسیوں کے پلانٹیٹڈ عناصر نے اگرتنقید کی ہے تو وہ الگ بات ہے ۔  

پانچویں سازشی تھیوری یہ ہے کہ پی ٹی ایم کے دو راہنماوں کو اسٹبلشمنٹ نے جتوایاہے ۔  وزیرستان  کے  عوام گواہ  ہیں کہ یہ   دونوں  امیدوار  اسٹبلشمنٹ  کے  چہیتے  یا  پسندیدہ  امیدوار  نہیں  تھے۔   اور  دونوں  نے  پی ٹی ایم  بننے  سے  پہلے  ہی  الیکشن  میں  حصہ  لینے  کا  عندیا  تھا  اور  تیاریاں شروع کی تھی۔دونوں کے خلاف بنیاد  مقدمات کی بھرمارہے اور پچھلے دنوں دونوں کو انتہائی غلطاور ناروا طریقے سے بیرون ملک جانے سے روکدیا گیا ۔اب  پارلیمان  جیسے  فورم  پر ان دونوں کی موجودگی ان کیلئے وبال جان بن رہی  ہے ۔  اس لئے  ان کے  خلاف  سنگین غداری کےمقدمات قائم کرنے کی افواہیں ہیں۔

Comments are closed.