کرپشن چورن اور احتسابی کچھڑی بازار میں مندی کا رجحان

ارشد بٹ

نااہلی، ناتجربہ کاری اور اس پر رعونت، الزام تراشی، اقتصادی بے سمتی اور سیاسی وژن سے محرومی کپتانی اقتدار کا طرہ امتیاز ٹھہرا۔

کپتان کے حامی دو معروف کالم نگاروں اور ٹی وی تبصرہ کاروں کا کہنا ہے کہ کپتان کی ٹیم میں آدھے نکمے اور ناکارہ، آدھے سیاسی وارداتیے اور کرپٹ عناصر شامل ہیں۔ جن کی خوبی دن رات کپتان کی مدح سرائی کرنا، نااہلیوں کی پردہ پوشی کرنا، دروغ گوئی سے باچھیں کھلانا، اپوزیشن کو اشتعال دلانا اور سیاسی عدم استحکام کو ھوا دینا ہے۔ کپتان کی چاپلوسی اور جھوٹا پراپیگنڈا کرنے میں انکا ثانی ڈھونڈنا مشکل ہے۔

ساہیوال کا سانحہ ایک تازہ مثال ہے۔ جس کے بعد پنجاب اور وفاقی وزرا میں جھوٹ بولنے کا مقابلہ شروع ہوگیا۔ دروغ گوئی اور حقائق مسخ کرنے کی ناکام کوششیں، جسے میڈیا اور سوشل میڈیا ساتھ ساتھ بے نقاب کرتا رہا۔  اپوزیشن راہنماوں کو جیل ڈالنے کی گدڑ بھبھکیوں سے سیاسی تصادم کی فضا کو ہوا دینا بھی انکے فرائض مین شامل ہے۔ کپتان کو سلیکٹڈ وزیر اعظم کہنے پر اپوزیشن لیڈر کو جیل میں ڈالنے کی دھمکیاں ملک میں سیاسی محاذآرائی کی پرورش کرنے کے علاوہ کیا کریں گے۔

 دروغ گوئی، بے بنیاد پراپیگنڈا اور دھمکیوں کے سہارے سرکار کو کب تک چلایا جا سکتا ہے۔ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کسی کو این آر او نہیں ملے گا۔ بدعنوان اور ٹیکس چور عناصر کو جیل کی ہوا کھانی پڑے گی۔ لوٹی ہوئی دولت ملک میں واپس لاوں گا، سرماے کی بیرون ملک سمگلنگ روکوں گا، پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد بیرون ملک سے ڈالروں کی بارش شروع ہو جائے گی۔ پاکستان کو جنت نظیر ریاست مدینہ بنا دوں گا۔ ان بلند بانگ دعوں کی حقیقت یا جھوٹ ایک طرف۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ دن بدن ان نعروں کا اثر اور اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔

عوام کو روزگار کی فراہمی، مہنگائی پر کنٹرول اور عوامی خوشحالی کے لئے عملی اقدامات اٹھائے بغیر کھوکھلے نعروں سے عوام کو زیادہ دیر تک نہیں بہلایا جا سکتا۔ چھ ماہ کے اندر تحریک انصاف کے دو منی بجٹوں میں عوامی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ انکم ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کی بجائے ٹیکسوں کا بوجھ غریب عوام پر ڈال کر عوامی کو مہنگائی کے بوجھ تلے کچل دیا۔ پی ٹی آئی حکومت نے کم آمدنی والے سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین، دھاڑی دار غیر مستحکم آمدن والے مزدوروں، چھوٹے کاروبار اور دکانداروں، زرعی معیشت سے جڑے مزدورں اور چھوٹے کسانوں کی افراط زر کے مطابق آمدن میں اضافہ کرنے کے لئے کسی پالیسی کا اعلان نہیں کیا گیا۔  

نہ کرپشن ختم ہوئی، نہ ٹیکس چوروں پر گرفت، نہ کرپٹ عناصر اور ٹیکس چور جیل گئے سوائے دوچار سیاسی مخالفین کے۔ نہ لوٹی دولت وطن واپس لائی گئی اور نہ ہی لائے جانے کا امکان۔ نہ ملکی دولت کی بیرون ملک سمگلنگ کی روک تھام کے آثار۔ نہ بیرون ملک سے پاکستانیوں نے ڈالروں کی بارش کی۔

کرپٹ عناصر اور ملکی خزانہ لوٹنے والوں کو جیل ڈالنے کے کھوکھلے نعرے اور پاکستان کو ریاست مدنیہ بنانے کے بلند بانگ دعووں کی قلعی کھل چکی۔ حکومت کا ہنی مون دورانیہ ختم ھوا۔ اب اپوزیشن پر الزام تراشیوں سے گزارا نہیں ہو گا۔ نہ ہی گذشتہ حکومتوں پر لعن تعن کرنے اور انکی کرپشن کی داستانیں سنانے سے عوام کو مطمئن کیا جا سکتا ہے۔ اب پی ٹی آئی حکومت کو عوام اور ملک کے لئے کچھ کر کے دکھانا پڑے گا۔

اب حکومتی کارکردگی کی جوابدہی کا وقت شروع ہو چکا ہے۔ اب کرپشن چورن اور احتسابی کچھڑی بازار میں مندی کا رحجان غالب آتا جا رہا ہے۔ اگر عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے جانب عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو پی ٹی آئی حکومت کو معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام لے ڈوبے گا۔


Comments are closed.