جب امیرفیصلؔ نے ’’یہودی فلسطین‘‘کے قیام کی منظوری دی

طارق احمدمرزا

آج سے ٹھیک ایک سوسال پہلے کاسنہ ۱۹۱۹ء تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت کاحامل ہے۔اس سال پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ ہوا جو سنہ ۱۹۱۴ء میں شروع ہوئی تھی۔اس جنگ نے لکھوکہا انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد اس وقت کی دنیا کا سیاسی اور جغرافیائی نقشہ بدل کر رکھ دیا۔اسی سال لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں آیاجس نے بعدمیں موجودہ عالمی ادارہ اقوام متحدہ کو جنم دیا۔اسی برس سلطنت عثمانیہ نہ صرف یہ کہ اپنے اختتام کو پہنچی بلکہ ترکی بھی ہاتھ سے جاتارہا اور بالآخرکمال اتاترک کو جدید ترکی کے قیام کے لئے جنگ آزادی کا اعلان کرنا پڑا۔

سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کومغربی طاقتوں نے عرب دنیا کے لئے نیگ شگون قرار دیااور اس وقت کی ’’عرب بہار ‘ ‘ کا پہلا شگوفہ قراردیا۔اس سے چند ماہ قبل شریفِ مکہ اور اس کے مقامی فوجی دستے جو کبھی ترک خلیفہ کے نمک خوار ہواکرتے تھے،نئی استعماری قوتوں کی شہہ اور مدد سے عثمانی فوجوں کو علاقہ نجدوحجاز سے ماربھگانے کے کام آئے تھے جس کے صلہ میں ان طاقتوں نے ایک نئی مملکت حجازکے قیام کا اعلان کرکے شریفِ مکہ حسین بن علی الہاشمی کوبطورشاہِ حجازتخت پر بٹھادیا۔جودراصل محض ایک ’’عبوری انتظام‘‘کے طورپر تھا کیونکہ گوروں کو پتہ تھا کہ جو شخص اپنے خلیفہ سے غداری دکھا سکتا ہے اس نے ہماراوفادارکیسے رہناہے۔چنانچہ بعدمیں انہیں اسی علاقہ نجدوحجازپہ اپنی ایک وفادار حکومت چلانے کے لئے ایک ایسا خاندان میسرآگیا جس نے سعودی بادشاہت کی بنیادرکھی،جو کہ ایک الگ داستان ہے۔

سابق شریف مکہ کے ایک بیٹے فیصل بن حسین الہاشمی اپنے والد(جو اب شاہ حجازتھے)کے متوقع ولی عہد سمجھے جاتے تھے اور خاصی بااثرشخصیت تھے۔ تاریخ میں امیر فیصل کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ چونکہ پوراعرب اس وقت ایک بحرانی دورسے گزررہاتھا،آپ کی خواہش تھی کہ عالمی طاقتیں سارے کا ساراعرب ان کے حوالے کردیں اور وہ اپنے والد کے بعدعربوں کے متفقہ بادشاہ قرارپائیں۔لیکن مغربی طاقتوں کے تیوردیکھ کر کچھ لو اور کچھ دوکی پالیسی اپناتے ہوئے اپنے مطالبے کومحدودکرکے ان سے موجودہ شام اور عراق پر مشتمل علاقوں پرقبضہ حاصل کرنے کی درخواست کردی ۔لیکن جب شام الگ ملک قرارپایاتو آپ نے عراق میں اپنی بادشاہت کا اعلان کردیا۔

جس زمانے میں امیرفیصل اس ساری تگ ودو میں مصروف تھے،تو انہی دنوں آپ کی ملاقات عالمی صیہونی تنظیم کے بانی سربراہ ہائم ویزمین سے ہوئی ،جواس وقت اس جدوجہدمیں مصروف تھے کہ کسی طرح سے دنیا بھر کے یہودیوں کو واپس ان کے اس وطن میںلاکر آبادکردیا جائے جو فلسطین کے نام سے مشہورہے۔

ویزمین امیرفیصل کی شخصیت اور ان کے افکار و نظریات سے بیحد متأثربھی ہوئے اور محظوظ بھی۔واضح رہے کہ امیرفیصل اس دور کی’’ عرب بہار‘‘کو سدابہار اورامرکردینے کے لئے عرب قوم پرستی (پین عرب ازم) کی تحریک کے ایک پرجوش داعی کے طور پر ابھرے تھے۔ امیر فیصل سے ہائم ویزمین کی پہلی ملاقات اردن(سابق ٹرانس جارڈن) میں قائم اینگلوعرب ا ٓرمی کے مرکز میں ہوئی۔

ملاقات کے بعدہائم ویزمین نے لندن میں مقیم اپنی اہلیہ کے نام ۱۷ جون ۱۹۱۸ کو تحریر کردہ اپنے خط میں لکھاکہ:

۔’’مجھے پہلی مرتبہ ایک حقیقی عرب نیشنلسٹ سے ملنے کا اتفاق ہواہے ۔وہ ایک رہنماہے!۔بہت ہی ذہین وفطین،ایماندار اور کھراشخص۔ وجیہہ بھی اتناجیسے کوئی تصویرہو۔وہ فلسطین میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔اس کے برعکس وہ دمشق اور سارے کا ساراشمالی شام حاصل کرناچاہتا ہے‘‘۔

ملاقات کے دوران ہائم ویزمین پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ امیرفیصل فلسطینیوں کو عربوں میں شمارنہیں کرتے تھے۔لہٰذہ وہ جان گئے کہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے صیہونی خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے میں امیرفیصل ایک کلیدی کرداراداکرسکتے ہیں۔

دسمبر ۱۹۱۸ میں ان دونوں کی دوسری ملاقات لندن میں ہوئی۔اس عرصہ میں امیرفیصل کے فوجی دستے دمشق پر قابض ہوچکے تھے۔امیرفیصل چاہتے تھے کہ د مشق ان کی عظیم تر سلطنت کادارلحکومت بنے۔لیکن برطانیہ کی مخالفت کے باعث ایساممکن نہ ہوسکا۔ویزمین نے امیرفیصل سے ہمدردی کا ظہارکیا اورانہیں صیہونی لابی کی ہرممکن مدددلانے کی یقین دہانی کروائی۔اس کے صلے میں امیرفیصل نے ’’یہودی فلسطین ‘‘کے قیام کی ہامی بھرلی۔

(https://mosaicmagazine.com/)

تین جنوری سنہ ۱۹۱۹ء کودونوں قومی رہنماؤں نے ایک معاہدہ پر دستخط کیئے جس میں بالفورؔاعلامیہ کی توثیق کی گئی اورفلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کو جائزقراردیا گیا۔معاہدہ میں یہ شق بھی شامل تھی کہ اسلامی تاریخی عمارات ، مساجد وغیرہ کاانتظام وانصرام مقامی مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہی رہنے دیاجائے گا ۔

یہ معاہدہ نو شقوں پر مشتمل ہے جس پر فیصل ابن حسین کے بطور نمائندہ عرب مملکتِ حجازاورڈاکٹر ہائم ویزمین کے بطورنمائندہ صیہونی انجمن دستخط موجودہیں۔

اس دستاویز کی تمہید میں لکھاہے کہ یہ معاہدہ یہوداور عربوں کے مابین ازمنہ قدیم سے استوارتعلقات اورخونی رشتہ کو مدنظررکھتے ہوئے کیا جارہا ہے۔ ان تعلقات کوباہمی بھائی چارہ اور تعاون کی راہ سے جاری وساری رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ ایک فلسطینی اور ایک عرب مملکت کا قیام عمل میں لایاجائے ۔

واضح رہے کہ اس وقت یہودیوں کی نئی مملکت کا نام ’’اسرائیل‘‘ سامنے نہیں آیا تھا۔اس لئے معاہدہ میں اسے فلسطین سے ہی موسوم کیا گیا ہے۔

معاہدہ کے چنداہم نکات کا مختصرخلاصہ ذیل میں درج ہے۔

آرٹیکل نمبر۲:امن کانفرنس کے اختتام کے معاًبعد ایک کمشن تشکیل دیا جائے گا جو فلسطین اور عرب سٹیٹ کی ایسی حدودکا تعین کرے گا جو ہردو کے لئے قابل قبول ہونگی۔

آرٹیکل نمبر۳:فلسطینی آئین کو ایسی بنیادوں پر تیارکیا جائے گا جو برٹش گورنمنٹ کے ڈکلیریشن مجریہ ۲ نومبرسنہ ۱۹۱۷ء (المعروف اعلامیہ بالفور ؔ)کے تقاضوں کو پوراکرنے والااور اس پر عملدرآمد کو تحفظ دینے والاہوگا۔

آرٹیکل نمبر۴:حتی الوسع کوشش کی جائے گی کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو امیگریشن کرواکے فلسطین میں لاکر آبادکروایاجائے۔یہودی آبادکاروں پر لازمی ہوگاکہ وہ مقامی عرب کسانوں اور ہاریوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

آرٹیکل نمبر۷: صیہونی تنظیم مختلف علوم کے ماہرین کوفلسطین بھجوائے گی تاکہ وہ سروے کرنے کے بعدملک کی معاشی ترقی کے بارہ میں اپنی تجاویزاور سفارشات پیش کریں۔ ان ماہرین کی خدمات عرب سٹیٹ کوبھی فراہم کی جائیں گی تاکہ اس کی معاشی ترقی کے لئے بھی منصوبہ سازی کی جاسکے۔

آرٹیکل نمبرنو:ان دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے ہر قسم کے تنازعہ کے حل کے لئے برطانوی حکومت سے رجوع کیا جائے گا۔

۔(George Antonius, The Arab Awakening, 1938, pp. 437-439)۔

معاہدہ پہ دستخط کرنے والوں میں ایک یعنی ہائم ویزمین بعد میں اسرائیل کے نام سے قائم ہونے والے ملک کے پہلے صدرمقررہوئے جبکہ امیرفیصل ’’آزاد‘‘عراق کے پہلے بادشاہ بن گئے۔

مذکورہ بالا معاہدہ اور اس کے پس منظر کا تجزیہ کرنے سے ایک بنیادی بات یہ واضح ہوتی ہے کہ ترکوں کی عملداری ختم کرنے کے لئے برطانیہ نے عربوں میں قومیت اورنسل کاجذبہ اجاگرکیا۔ایساکرنا اس لئے ضروری تھا تاکہ قومی عصبیتوں اور جذبات کوبھڑکاکر مذہب کی بنیادپراتحاداور ایکتا کوختم کیا جاسکے۔اور وہ ختم ہوبھی گیا۔’’امت واحدہ‘‘ کانعرہ اور تصور بھی ختم ہوگیا۔

یہی وجہ ہے کہ امیرفیصل کے اس فعل پر انہیں بعض حلقوں اور افراد کی طرف سے شدید تنقید کا سامناکرنا پڑا۔ان میں ادریس سنوسی بھی شامل تھے جولیبیاکے سنوسی سلسلہ کے روحانی سربراہ تھے اور عثمانی خلیفہ کے وفاداربھی،بعد میں لیبیا کے پہلے اور واحدبادشاہ بھی بنے۔انہوں نے امیر فیصل کو جو پیغام بھیجا اسے علامہ اقبالؔ نے اپنے ایک شعرمیں کچھ یوں محفوظ کردیاکہ:۔

کیا خوب امیرفیصل کوسَنّوسی نے پیغام دیا۔۔۔!

تُونام ونسب کا حجازی ہے پردِل کا حجازی بن نہ سکا(بانگِ درا)

کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خفیہ معاہدہ تھا جس کی تفصیلات عرب عوام سے سنہ ۱۹۳۵ء تک اوجھل رکھی گئیں۔معاہدہ کے کئی ترمیم شدہ محرف نسخے بھی شائع کئے گئے تاکہ عوام کے جذبات زیادہ نہ بھڑکیں۔

بہرحال ،مذکورہ معاہدہ میں جن دومملکتوں کے قیام اور استحکام کی بات کی گئی، ان کی بنیادیں قومی اور نسلی بنیادوں پر قائم کی گئی تھیںیعنی یہوداور عرب ،نہ کہ یہودیت (جوڈاِزم ) اور اسلام۔بلکہ معاہدہ کی ایک شق میں یہ بات

خاص طورپر شامل کی گئی ہے کہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو کسی کے مذہب سے کوئی سروکارنہ ہوگا۔

شہزادہ فیصل بن حسین سے شہزادہ محمدبن سلمان تک

ہائم ویزمین اور امیرفیصل، جو اس وقت کے شاہ حجازخادم حرمین شریفین کے بیٹے اور ولی عہد تھے،نے جو معاہدہ ایک سوسال پہلے کیا تھااس کی بہت سی دفعات پرعملدرآمد کروانے پر آج کے خادم حرمین شریفین کے بیٹے اور ولی عہدشہزادہ محمدبن سلمان بھی مستعد نظرآتے ہیں۔بلکہ آج تو ان کی قیادت میں یہود اور عرب مل کرقومیت اور نسل کی بنیادپرایک عجمی ملک ایران کے خلاف متحدنظرآرہے ہیں۔

آج کسی کو اس بات سے بھی غر ض نہیں کہ شہزادہ محمد محض نام ونسب کاحجازی ہے یا دل کابھی۔شاید اس لئے کہ دل کاحجازی اب کوئی نہیں رہا۔حالانکہ آج کی سپر پاور نے اسی طرح سے قومی عصبیتوں کی بنیادپرایک نئے اتحادکو جنم دلوایا ہے جس طرح ایک سوبرس پہلے ہواتھا ۔

سچ ہی کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ہردورکے سیانے اپنی لیاقت کو اوربے وقوف اپنی جہالت کو دہراتے ہیں۔

رہے مقامی فلسطینی عرب تو ان کا کوئی حال نہیں۔حد ہی ہوگئی سنہ ۲۰۱۹ آگیا اور فلسطینی عرب نہ قومی طورپرمتحدہو سکے ہیں اور نہ مذہبی طورپر۔مٹھی بھر فلسطینی غزہ کی پٹی میں آباد ہیں اور وہ بقیہ عرب فلسطینی گروہوں کے ساتھ اتحادکرنے کوکفرسے بھی بدترسمجھتے ہیں۔اسی لئے شہزادہ محمد نے گزشتہ برس اپریل میں امریکہ میں جیوش کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطینیوں کو کھلم کھلاکہہ دیا کہ تم لوگوں کی خیر اب اسی میں ہے کہ امن قائم کرو ورنہ ’’شٹ اپ ‘‘ہوجاؤ۔

کہا جاتاہے کہ شہزادہ محمد کی اس شٹ اپ کال کو سن کر حاضرین میں سے کچھ عمررسیدہ یہودی مارے حیرت کے اپنی کرسیوں سے اچھل کرفرش پہ جاگرے۔

شہزادہ محمد کا کہنا تھا کہ چالیس برس ہونے کو آئے آج تک فلسطینی کسی بھی امن منصوبہ یاتجویز پر رضامندیا متفق نہیں ہوئے۔( ٹائمزآف اسرائیل۔۲۹ اپریل ۲۰۱۸۔ )

شہزادہ محمدنے اپنے اس خطاب میں یہ بھی کہا کہ فلسطین سعودی عرب کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔سوسال پہلے امیرفیصل نے بھی یہی کہا تھا کہ انہیں فلسطین میں کوئی دلچسپی نہیں۔

فلسطینیوں کی نئی نسل،جن میں مبینہ طورپر صدرمحمود عباس کا صاحبزادہ طارق عباس بھی شامل ہے،اس خیال کی حامل ہوتی جارہی ہے کہ ان کے لئے معاشی،سماجی اورنفسیاتی طورپریہی بہترہوگا کہ وہ گریٹراسرائیل کے شہری بن جائیں، اسی سرزمین میں رہیں گے اورامن سے بھی۔ان کے نزدیک جدید دورمیں اس خطہ میں دوملکی نظریہ ناقابل عمل بلکہ احمقانہ تصور بن چکا ہے۔

https://www.timesofisrael.com/abbass-son-said-to-tell-us-envoy-he-supports-one-state-formula/

٭

Comments are closed.