انگلش لٹریچر میں خلقی شعور کاآغاز

پائند خان خروٹی

اگر کسی شخص کا علم اور عقل ٹھوس سائنسی حقائق اور دائمی انسانی اقدار پرمبنی ہو تو پھر اس کوورغلانا قدرے مشکل ہوجاتا ہے ۔ علم ودانش کے بنیادی اصولوں سے واقفیت کی بدولت اس کے دیکھنے کے زاویے اور پرکھنے کے پیمانے عام لوگوں سے مختلف ہوجاتے ہیں۔ وہ اپنے من میں پلنے والے پاکیزہ خیالات کو بیرونی آلودگی سے محفوظ رکھتا ہے ۔ وہ حقائق بیان کرتے وقت کسی زر دار اور زوردار کو خاطر میں نہیں لاتا ۔ وہ کسی بھی طرم خان کوتنقید سے بالا تر نہیں سمجھتا ۔

خلقی دانشورکسی کی خوشامد اور چاپلوسی کو علم ودانش کی ہی تذلیل گردانتا ہے وہ تاریخ نویسی سے لیکر حالات حاضرہ تک سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں رکھتا، وہ علم وفلسفے کو شرق و غرب میں تقسیم کرنے اور سائنس وٹیکنالوجی کو مومن یاکافر کے نام سے منسوب نے کی بجائے ہر قسم کے علم وہنر کو تمام بنی نوع انسان کی مشترک میراث سمجھتا ہے ۔ اس تاریخی تسلسل کوآگے بڑھاتے و قت وہ مشترک انسانی میراث میں اپنے کردار کا حصہ ڈال کر استحصال اور طبقات سے پاک ایک صحت مند انسانی معاشرے کے قیام کیلئے راہ ہموار کرتا چلاجاتا ہے ۔

اگرچہ تاریخ پرانی اور نئی نسل کے درمیان واقعات کے تسلسل سے انسانی ارتقاء کوسمجھنے اور جانچنے کا نام ہے لیکن ماضی سے جانکاری حاصل کرنے کیلئے ہمیں دونوں تاریخ اور مورخ کوتاریخی صداقت اور تنقید کے جدید اصولوں کی روشنی میں پڑھنا اور پرکھنا چاہیے کیونکہ علم وادب کی کسی بھی صنف پر بغیر تنقید ودلیل یقین رکھنا عدل وانصاف کے زمرے میں نہیںآتا ۔ اکثر اوقات مورخین ومحققین اپنے مذہبی ، قومی اور قبیلوی تعصب کے ساتھ ساتھ ذاتی غرض کو بھی مد نظررکھ کر پھر اپنے قلم وقدم کوحرکت میں لاتے ہیں ۔ مورخ تاریخی حالات وواقعات کو اپنی اصل حالات میں پیش کرنے کی بجائے اپنے Judgemental Approachسے ایک ہی حضرت آد م ؑ کی اولاد میں سے ایک کو ظل الہٰی اور دوسرے کوابلیسی قوت سے تعبیر کرتا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے دنیا میں مختلف ا قوام آج بھی کسی کو انسان کے مشترک ہیرو یا ولن قرار دینے کے متفقہ پیمانہ Yardstickسے محروم ہیں ۔انسانی معاشرے میں اونچ نیچ پیدا کرنے کے حوالے سے ہمارے مورخین کابھی بڑا کردار ہے ۔

ابن الوقت اور درباری مورخ ومحقق حرف وقلم کے تقدس کوپامال کرتے ہوئے کسی طاقتور یا سرمایہ دار کی فرمائش پر ایک ہی آدم زاد کیلئے دومتضاد یعنی بالا دست کیلئے Pure Bloodاور زیر دست کیلئے Black Dirtکے نام مختص کیے گئے ہیں جس کے نتیجے میں تاریخ اور مورخ دونوں کے بارے میں شکوک وشہبات پیدا ہونے لگے، درباری اور بورژوائی ذہنیت رکھنے والے اہل فکر ودانش کی ذات پر انگلیاں اٹھنے لگیں اور لوگوں کے ذہنوں میں مختلف سوالات ابھرنے لگے کہ تاریخ بالا دست طبقہ ، حکمرانوں ، معاشی غنڈوں ،سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور مذہبی پیشوائوں تک کیوں محدود ہوگئی ؟ 

مورخین اور محققین استحصالی عناصر کے کاسہ لیس اور مراعات یافتہ لوگوں کی صف میں کیوں کھڑے ہوگئے ؟ اہل علم ودانش عہد شکنی اور بت شکنی کی بجائے بت سازی پر کیوں اتر آئے؟ شاہ اور شاہ پرستوں کی بیخ کنی کرنے کی بجائے ان کیلئے بڑے بڑے القابات اور شجرہ نسب بنانے کی ذمہ داری کیوں اپنے ذمے لے لی ؟ بالا دست طبقے کی مخلوط محفلوں اور رنگین دعوتوں کی وجہ سے معاشرے کے اوپنین لیڈرز اور پالیسی میکرز کے منہ پر تالے کیوں پڑگئے؟

تحریک نشاۃ ثانیہ ،تجدید عیسائیت اور خاص کر صنعتی انقلاب برپا ہونے کی وجہ سے سماجی تاریخ نے براعظم یورپ میں شدت اختیار کیا ۔ تاریخ نویسی میں تاریخ ساز شعبوں کو شامل کرنے پر زور دیا گیا ۔ دھرتی کے نظر انداز طبقوں اور اقوام نے اپنے معاشی حقوق اور سیاسی آزادی کیلئے آوازیں بلند کیں جس کی وجہ سے رومی پاپائیت اور شہنشاہیت پر زمین تنگ ہونے لگی ۔ صنعتی انقلاب برپا ہونے کے بعد جب زیارکشوں ، ہنر مندوں اور فنکاروں نے ا پنے تد بیر سے اپنے تقدیر بدلنے کاارادہ کیا ۔ لوگوں کے فضائل اعمال کی بجائے مسائل اعمال پر توجہ دینے کامطالبہ سراٹھانے لگا ۔ اس شعوری جدوجہدو نے مزید انقلاب کیلئے راہ ہموار کی اور مظلوم طبقات واقوام کے دل ودماغ میںشہنشاہیت اور آمرانہ قوتوں کے خلاف نفرت پھیل گئی ۔

ا شتراکی مفکر اعظم کارل مارکس اور اینگلز کی تعلیمات نے سیاست اور معیشت کے علاوہ تاریخ نویسی کو بھی ٹھوس مادی بنیادیں فراہم کیں ۔ انہوں نے دنیا بھر کے اہل محنت میں تمام استحصالی عناصر کے خلاف ایک اجتماعتی احساس کو جگایا ۔ تحریک نشاۃ ثانیہ ، تجدید عیسائیت صنعتی انقلاب اور ترقی پسند اشترا کی تعلیمات کے گہرے اثرات زندگی کے تمام شعبوں کی طرح انگریزی علم وادب پر بھی پڑے ۔ 

انگریز ی ادب وتاریخ میں معاشرے کے نظرانداز گوشے تاریخ نویسی کالازمی حصہ بننے کی نشاندہی کی گئی ۔ جب ہم انگریز ی زبان کے علم وادب پر سماجی تاریخ نویسی کے حوالے سے نظرڈالتے ہیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سماجی تاریخ نویسی کیلئے پہلے بھی گاہے بگاہے کوششیں ہوئی تھیں مگر باقاعدہ طور پر پہلی بار سماجی تاریخ نویسی کاسہرا ایک روشن فکر انگریز صحافی اور مورخ بریٹن ہیمنڈ Breton Hammondاور اس کی شریک حیات بار براہیمنڈBarbara Hammondکے سرجاتا ہے ۔

میاں بیوی کی اس جوڑی نے پہلی بارمحنت کش طبقے کی تہذیبی خدمات اور تاریخ ساز کارناموں پر قلم اٹھایا ۔ ویسے تو دونوں میاں بیوی کی دیگر خدمات بھی ہیں مگر سماجی تاریخ نویسی نے ان کو انسانی تاریخ میں ایک امتیاز بخشا ۔ ان کی مشترکہ کوششوں سے تقریباً ایک عشرے کے اندر اندر سماجی تاریخ نویسی پر تین مختلف کتابیں پہلی کتاب 1911ء میںدیہاتی زیار کش The Village Labourer ، دوسری کتاب قصے کے زیارکش1917ء The Town Labourerاور تیسری کتاب1919 ء ہنر یافتہ زیارکشThe Skilled Labourerقلمبند کردی گئیں جس سے سماجی تاریخ نویسی کے نئے رجحانات متعارف کرانے میں مدد ملی ۔ 

خالد محمود شیخ نے اپنی کتاب146146انگریزی ادب کا مختصر تاریخ145 145 میں 20ویں صدی کے انگریزی ادب کے پہلے دور(1901-1940) کے بارے میں کہتا ہے کہ146146 بیسویں صدی کے اوائل میں ہی انگریزی ادب میں عہد وکٹوریا کے ادب اورطرز معاشرت سے شعوری انحراف ملتا ہے ہے ۔ نئی نسل نے اپنے بزرگوں کے خیالات وعقائد ، ادبی اور سیاسی نظریات پر نہ صرف شک اور بے اطمینانی کے ساتھ غور کرنا شروع کیا بلکہ بعض اوقات کُھلے طور پر ان کی تضحیک بھی کی ۔145145آگے جاکر موصوف کہتا ہے کہ146146 جدید انگریزی ادب میں کار ل مارکس اورسیگمنڈ فرائیڈکے اثرات سب سے زیادہ قوی اور دیرپاثابت ہوئے ۔موجودہ صدی کی دوسری دہائی کے آخر تک فکر وتحقیق کے میدان میں یہی لوگ رہنمائی کررہے تھے ۔145145

انسانی ترقی وارتقاء میں اہل علم وفن کی خدمات اور کارنامے مزید واضح ہونے لگے ۔اس ضمن میں انقلابی صحافی ،ناول نگار Rymond William Postgateر یمنڈ ولیم پوسٹگیٹ نے معاشرے کے نظرانداز شدہ گوشوں کوزیربحث لانے کی بھرپور کوشش کی ۔ا نہوں نے برٹش کمیونسٹ پارٹی1920 میںHerald اور Tribuneکے سیاسی اورصحافتی پلیٹ فارم سے گراں قدر خدمات سرانجام دیں ۔ انہوں نے 1932 Encylopedia Britancia کیلئے بطور ایڈیٹر بھی کام کیا لیکن معاشرے کی عظیم اکثریت کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں اس وقت کامیاب ہوئے جب وہ Douglas Howrdکے ساتھ مل کر1938 میں The Common People کے نام سے شاندار کتاب لکھی۔

انگریزی ادب وتاریخ کے حوالے سے سماجی تاریخ نویسی کوزیادہ موثر بنانے کے حوالے سے Arnold Joseph Toynbeeنے بارہ جلدوں پر مشتمل شاہکار کتاب A Study of History تصنیف کی ۔ اس طرح عوامی تاریخ نویسی کاتسلسل آگے بڑھنے لگا ۔ G.M.Trevelynنے1944 میں illustrated English Social History یعنی برطانیہ کی تشریح شدہ سماجی تاریخ نویسی پرمبنی کتاب لکھی ۔ سماجی تاریخ میں معاشرے کی نصف سے زیادہ آبادی کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے ۔ صنف مظلوم کی خدمت قربانی اکثر اوقات گمشدہ تاریخ کی نظر ہوجاتی ہے ۔ ویسے بھی طبقے معاشرے کی آدھی آبادی کی شراکت کے بغیر سیاست اور معیشت دونوں ادھوری ہوتی ہیں ۔ انگریزی علم وادب کی تاریخ میں پہلی بارDoris Marry Stenton نے اس نظرانداز اور محکوم طبقے کو ریکارڈ پر لاکر اپنے آپ کوسماجی تاریخ نویسی کے بانیوں کی صف میں لاکھڑا کیا ہے ۔

اپنے والدین کی اکلوتی بیٹی اور انگریز خاتون مورخ ڈورس اسٹین ٹن کو ایک ایسا شریک حیات نصیب ہوا جو علم وادب سے ذوق رکھتا تھا اور دونوں کے بندھن سے ان کی صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا ہوا ۔ اس طرح انہوں نے پہلی کتابEnglish Society in the Early Middle Age یعنی انگریزی معاشرے اور عہد وسطیٰ کے اوائل اور دوسری کتاب1957 میںThe English Woman in History نے تاریخ اور معاشرے میں عورتوں کی سماجی زندگی کی بھرپور ترجمانی کی ۔ واضح رہے کہ R .H Tawney کی کتاب 146146سماجی تاریخ اور لٹریچر 145145 انگریزی ادب میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔

ملک وقوم کی ترقی وخوشحالی میںدیہاتی زندگی کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔ R.V.Lenardنے انگلینڈ کی دیہی زندگی قلم بند کرنے کی ضرورت محسوس کی لہذا انہوں نے 1959 ء میں Rural England میں انگلینڈ کی دیہاتی زندگی کی خوب منظر کشی کی ۔

اس طرح سماجی سماجی تاریخ نویسی کاسلسلہ رُکا نہیں بلکہ وقتاً فوقتاً انگلستان کی رواں دواں زندگی میں مزید نظرانداز گوشے نمایاں ہوتے رہے ۔ اس سلسلے میں H.M. Pelling نے A History 1969 of British Trade Unionism لکھ کر برطانوی علمی ادبی تاریخ کوپہلی بار مزدوروں کی تحریکوں سے آشنا کردیا ۔ پیلننگ برطانیہ میں لیبر پارٹی کے مورخ کے حوالے سے پہنچانا جاتا ہے ۔
انگریزی ادب تاریخ میں اشترا کی تعلیمات کے پرچار کے حوالے سے
Edward Thompson ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ مارکسی دانشور ای پی تھامپس نے تاریخ کو مارکسی نقطہ نظر سے دیکھنے اور لکھنے کی ترغیب دی ۔ا نہوں نے1963 میں The Making of English Working Class یعنی برطانیہ کے زیارکش طبقے کی تعمیر لکھ کر مزدوروں کی خدمت اور قربانی کواجاگر کیا ۔ اس کاتاریخی مقالہHistory from Belowآج بھی بڑے شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔ وہ پرامن دنیا کے قیام کیلئے ہر قسم کے ایٹمی ہتھیار کاخاتمہ ضرور ی سمجھتا ہے ۔ 

سماجی تاریخ نویسی کے دائرہ کار میں دھیرے دھیرے وسعت آتی گئی ۔د نیا بھر کے مورخین ومحققین اس بات پر متفق ہیں کہ تاریخ سرمایہ دار اور جاگیردار کی ہربات کو عظمت سے پیش کرنا نہیں ہوتا ار نہ ہی شاہی نظام اور مذہبی پیشوائیت کے جبرواستحصال کیلئے خیر ونیکی کاجواز پیش کرنا تاریخ ہوتی ہے بلکہ تاریخ تمام انسانوں کی مشترک میراث ہے لہذا تاریخ کے تمام واقعات کاتسلسل اور ارتقاء کو اپنی اصل حالت میں تاریخی صداقت سے پیش کرنے کانام ہے ۔ البتہ مورخ تاریخ نویسی میں حکمرانوں کے انفرادی کردار ، کجروی ، مے نوشی ، رقص وسرور اور درباری رنگینی کوبطور عبرت بھی بیان کرسکتا ہے ۔

اگر تاریخ چند افراد اور خاندانوں کے گر دگھمایا جائے یا زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو تہذیبی خدمات اور تمدنی تخلیق کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر تاریخ کاوقار مجروح ہوجاتا ہے ۔ اپنے ربط وتعلق بڑھانے کیلئے تاریخی حقائق کو چھپانے اور طاقتور کاناجائز دفاع کرنے سے مورخ بذات خود متنازعہ ہوجاتا ہے ۔

اس ضمن میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے سرگرم رہنما اور انٹر نیشنل سوشلزم کے ایڈیٹر Chris Harman نے دنیا پر واضح کردیا کہ انسانی معاشرے کو سنوارنے میں سب سے اہم کردا ر اہل علم وفن کاہے ۔ 1999ء میں ان کی شاہکار کتابA People’s History of the World منظر عام پر آئی جس نے دنیا بھر کے محنت کش طبقے کے ساتھ ساتھ تمام علوم وفنون سے متعلقہ لوگوں کے دل جیت لیے ۔ مندرجہ بالا انگریزی کتابوں کو پڑھنے سے بھی زیادہ میری ذاتی دلچسپی اس میں یہ ہے کہ اپنے قارئین میں سماجی تاریخ لکھنے پڑھنے کا احساس اجاگر کیاجائے اور ذی فہم کوانسانی سماج کی عظیم اکثریت سے جوڑ دیاجائے ۔ اس مقصد کے حصول کو ہی میںاجتماعی کامیابی اور سرخروئی کاراز سمجھتا ہوں ۔

ذہن نشین رہے کہ جے جے رو سو کے General Willکی پاسداری کے بغیر طاقت اور سرمایہ وغیرہ پرمبنی ہر نظام ناانصافی اور استحصال پر قائم ہوتا ہے ۔ مٹھی بھر اقلیت اقتدار پر بالجبر قابض رہتی ہے ۔ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بورژوائی حکمران ، مفکرین اور مورخین پوری انسانیت کیلئے ایک جامع خلقی خدمتگار نظام نافذ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ۔ سرمایہ دارانہ نظام کے حواری رجعت پسند قوتوں کے زہریلے اثرات انسانوں میںدشمنی اورنفرت کے پہلو کو ابھارتا ہے اور لوگوں کو درباری فرمانبرداری کادرس دیتا ہے ۔

ایک کینسر زدہ سرمایہ دارانہ نظام کے تمام اسٹاک ہولڈرز کے ظلم واستحصال کی بنیاد Surplus Value ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں قابض بالا دست کاخاتمہ کیلئے پورے انسانی معاشرے کے نظام کو ازا سر نو تشکیل د ینا ضروری ہے ۔ سماجی تبدیلی کیلئے سماج کے تمام مظلوم طبقات کو علمی ، عقلی اور سائنسی بنیادوں پر ان کومطمئن کرنے کیلئے نہیں بلکہ ان کی ذہنی سطح بلند کرنے کیلئے ایک تنظیمی پلیٹ فارم فراہم کرنا بنیادی شرط ہے ۔

ا نسانی عقل اور سائنس کومعیار بنانے کے حوالے سے اگر ہم زیر دست طبقے کی ذہن سازی کرنے میںسرخرو ہوئے تو ہمیں معاشی اور سیاسی ناہمواریوں کو ہموار کرنے میںآسانی رہے گی ۔ فریڈم فائٹرز کی یاد محفوظ کرنے ، نظرانداز شعبوں کو خود مختار بنانے اور مظلوم طبقات کو تقویت دینے سے ہی عظیم سماجی تبدیلی اور سماجی تاوریخ کے تمام تقاضے پورے ہوجائیں گے ورنہ استحصالی عناصر کے جوتے ہمارے سروں پر لگتے رہیں گے ۔

کتابیات:
۔
1. Social History & Literature by R.H Tawney ,1950
2. Companion to literture in English 1994,by Wordsworth edition limited
3. A consice cambidge history of English iterature by Gorge Sampson
4. History from below by Edward Thompson

Comments are closed.