سالِ رفتہ اور پاکستانی صحافت کی حالتِ زار

منیر سامی

پاکستانی صحافت سالہا سال سے زیرِ عتاب رہی ہے۔ لیکن سالِ رفتہ اس ضمن میں ایک اہم سنگِ میل کی اہمیت رکھتا ہے۔ شاید آپ کو ہماری بات متضاد لگے، اس وجہہ سے کہ اگر آپ دیس میں میں یا پردیس میں بیٹھ کر پاکستانی ٹی و ی چینلوں کو دیکھنے کے شوقین ہیں تو آپ کو  سوچتے ہوں گے ،کہ  نقار خانہ میں ڈھول تو  بج رہے ہیں ، پھر کسی رائے نگار کو اس پر کیا اعتراض ؟لیکن کسی حق گو یا صاحبِ فراست طوطی کی آواز  آپ کو سنائی نہیں دیتی ہو گی۔ یہی تو تضاد ہے۔

ہو یہ رہا ہے کہ میڈیا کے مالکان ، صحافی، میڈیا کارکن، کیبل ٹی وی والے سب کے سب ایک نادید ہ دباو کا شکار ہیں۔ ان کو بقول شخصے انجان فون آتے ہیں جن میں ان کو کبھی نرمی سے کبھی درشتی سے ہدایت دی جاتی ہے کہ کیا خبر دی جائے، کیا نہ دی جائے۔ کیبل آپریٹروں کو حکم آتا ہے کہ فلاں چینل فوراً بند کردو، اس میں پاکستان کے کیبل میڈیا کو کنڑول کرنے والے ادارے کا کبھی دخل ہوتا ہے ، او ر کبھی نہیں۔ اگر کیبل والے چینل بند نہ کریں تو ان کو دھمکی دی جاتی ہے کہ اگر عمل نہ ہوا تو ٹرک آیئں گے اور سامان کے ساتھ بندے بھی اٹھا لیے جائیں گے۔

بندوں کا اٹھانا تو اب روز مرہ کا معمول ہے ۔ اس مصروفیت کے دور میں شاید آپ کو یاد ہوگا کہ انٹرنیٹ پر لکھنے والے عمل پرستوں ( بلاگرز) کو اٹھا کر ہفتوں مہینوں کے لیے غائب کر دیا گیا۔ پھر ان میں سے چند چپ چپاتے جبری ترکِ وطن کر گئے۔ کوئی کہیں پہنچاکوئی کہیں۔ اگر یقین نہ ہو ، تو  کینیڈا میں ان میں سے ایک سلمان حیدرؔ سے مل لیجیے۔ان اغوا کنندگان میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی۔ آپ نے زینت شہزادی کا نام بھی سنا ہوگا، جو گمشدگی کے دوسال بعد منظرِ عام پر آیئں۔ حال ہی میں ایک اور معروف صحافی گُل بخاری کو بھی اٹھایا گیا تھا، جنہیں چند گھنٹوں کے بعد چھوڑا گیا، دھمکیوں اور احتیاط کی ہدایتوں کے بعد۔ ان کی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ نامعلوم افراد اتنے نا معلوم بھی نہیں ہیں۔ اب یہ کون ہیں ، یہ معمہ آپ حل کرتے رہیئے۔

پاکستان میں صحافت کی آزادی کی دگرگوں صورتِ حال پر جب بھی بات کی جائے ، اسے یہ کہہ کر دبایا جاتا ہے کہ یہ بات کرنے والے ملک دشمن ہیں، یا بیرونی ایجنٹ ہیں۔ چاہے یہ بات کرنے والے پاکستان میں رہنے والے صحافی ہوں، جبریہ وطن بدر صحافی ہوں، یا صحافت کی بین الاقوامی تنظیمیں۔ جہاں تک خود پاکستان کی صحافت کی بڑی انجمنیں ہیں، وہ یا تو خاموش کر دی گئی ہیں، یا خود خاموش ہو گئی ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے وہ معروف صحافی بھی جو عموماً دیانت دار تبصرے کرتے تھے، اب اپنا بیانیہ تبدیل کرنے پر مجبور ہیں۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے آپ پاکستان کے کسی بھی بڑے اخبار کی ویب سائٹ پر جائیں تو اندازہ ہوگا کہ اب تقریباً سارے ہی جرائد حد سے بڑھ کر محتاط ہیں۔

سالِ رفتہ ہی میں صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقومی انجمن (سی پی جے) نے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے بارے میں بھی خصوصی سالانہ رپورٹ جاری کی تھی، جسے پاکستان میں یا تو دبادیا گیا، یا اسے مناسب جگہ نہیں دی گئی۔ پاکستان کی صورتِ حال کو سمجھنے کے لیے اس رپورٹ سے ایک اقتباس پیش ہے۔

’’پاکستان کی عسکری قوتیں پاکستان میں گہرا اثر رسوخ رکھتی ہیں، اور ان کی جڑیں معاشرہ میں گہری ہیں، جس میں پاکستان کی معیشت اور سیاست شامل ہیں۔ انہیں ایک منظم ادارہ جانا جاتا ہے، جو قوم کو یکجا رکھتا ہے اور تحفظ فراہم کرتا ہےـ‘‘۔ ’’ عسکری قوتوں نے نہایت خاموشی لیکن مکمل اثر کے ساتھ صحافت پر پابندیاں لگائی ہیں۔ جن میں بلوچستان تک رسائی، صحافیوں کی اپنے ہی اوپر عائد کردہ پابندیاں، براہِ راستہ اور بالواسطہ ڈرانا دھمکانا، جرائد کے مدیران سے شائع ہونے والے مواد کی شکایتیں، اور صحافیوں پر مبینہ تشدد بھی شامل ہیں۔ ۔۔۔ عسکری قوتیں، عسکری جاسوسی ادارے ، یا ان سے تعلق رکھنے والی انجمنیں گزشتہ دس سال میں کم از کم دس صحافیوں کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔ اسی طرح عسکری قوتیں منتخب حکومتوں سے الجھتی رہی ہیں ، بالخصوص جب  عسکری قوتوں کو شہری ادارو ں کے طابع کرنا چاہیں۔ ‘‘حوالہ:  ( https://tinyurl.com/y7g9ozyw )۔

گزشتہ سالوں میں فوج کے علاقاتِ عامہ کا ادارہ ایک متواضی وزارتِ اطلاعات کاکردار ادا کرتا رہا ہے۔ آج کل تو یوں لگتا ہے کہ خود عمران خان کے وزیرِ اطلاعات اب اسی ادارے کے ماتحت ہیں۔ اب سے چند ہفتہ پہلے اس ادارے کے سربراہ نے رائے دی کے پاکستان کے صحافیوں کو ملک کے اند ر اور باہر صرف پاکستان کے حق میں اور اس کی تعریف میں لکھنا چاہیے۔ ان کی اس بات کا بہت مضحکہ اڑا ، اور ممتاز صحافی محمد حنیف ؔنے اس پر ایک پر اثر طنزیہ کالم بھی لکھا۔

پاکستان میں صرف وہاں کا میڈیا ہی سنسر شپ کی زد میں نہیں۔ اب ملک سے باہر ان اداروں پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے جو ویب سائٹوں کے ذریعہ پاکستان میں قاریئن کے صرف محدود حلقوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ ان میں محمد شعیبؔ عادل کاجریدہ ’نیا زمانہ‘، اور ڈاکٹر طاہر اسلم گوراؔ کا ٹی وی چینل ٹیگ ٹی وی بھی شامل ہے۔ پاکستانی سنسر شپ اداروں کا رسوخ  بیرونِ ممالک کے پاکستانی میڈیا تک بھی ہے۔ امریکہ اور کینیڈا کے کئی میڈیا ادارے بھی لگتا ہے کہ یا تو براہِ راست ہدایت کے تحت یا خود احتیاطی کے طور پر ایسے مواد سے پرہیز کرتے ہیں جن سے عسکری قوتوں کی خفگی کا خدشہ ہو۔  سوشل میڈیا پر لکھنے والے بھی اب ان اداروں کی زد میں ہیں۔

اس کے باوجود بعض بین الاقومی جرائد اور ادارے جن میں اردو ٹائمز، پاکستان ٹائمز، نیا زمانہ ، اور ٹیگ ٹی وغیرہ شامل ہیں، حتیٰ الامکان غیر جانبداری کی کوشش کرتے ہیں، اور مختلف آرا اور خبروں کو دیانت داری سے نشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ غنیمت ہے کہ ہم صورت ابھی دو چار بیٹھے ہیں۔

Comments are closed.