گلگت بلتستان پر سپریم کورٹ کا ادھورا فیصلہ

علی احمد جان

سترہ جنوری 2019ء کو پاکستان کے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ  جسٹس ثاقب نثار نے گلگت بلتستان کے بارے میں مختلف درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے  نہ صرف ایک فیصلہ صادر فرمایا بلکہ اس فیصلے کا ذکرجاتے جاتے اسی روز  اپنے  کارہائے نمایاں میں بھی  کیا جو انھوں نے بطور منصف اعلیٰ انجام دئے تھے۔

 ناچیز نے ان ہی صفحات پر اس کیس کے آغاز ہی میں عرض کیا تھا کہ کوئی عدالت   کسی علاقے کو کسی ملک میں شامل نہیں کرسکتی اور نہ علیحدہ کرسکتی ہے  ہاں البتہ کسی ملک کے زیر انتظام علاقے میں بسنے والے لوگوں کو  زیادہ سے زیادہ شہری آزادی دینے اور  ان کو برابری کا درجہ دینے میں کوئی قانون اور آئین مانع نہیں ہوتا۔ ہم نے عرض بھی یہی کیا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی دنیا کے دیگر انسانوں کے برابر بنیادی انسانی اور شہری حقوق دینے کا یہ بہترین راستہ اورموقع  موجودہے ۔

عدالتی فیصلے میں سپریم کورٹ آف پاکستان  کا دائرہ اختیار گلگت بلتستان تک بڑھانے کا کہا گیا ہے جو ایک خوش آئند  بات ہے۔ گلگت بلتستان میں چونکہ کوئی آئینی عدالت موجود نہیں اور ججوں کی تقرریاں حکومت کی صوابدید ہے جس کی وجہ سے یہاں کے عدالتی نظام  پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔  سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو  یہاں تک بڑھانے سے   انصاف کے حصول کے لئے ایک اور اعلیٰ عدالت کا فورم دستیاب تو ہوگا مگر کتنے لوگ ایسے ہونگے جو سپریم کورٹ کے وکلا ء کی فیس ادا کرسکتے ہوں اور اپنے مقدمات لے کر سپریم کورٹ جاسکتے ہوں؟   گلگت بلتستان میں عدلیہ کا نظا م پر شفاف بنانے  کے لئے اس عدالتی فیصلے میں  ججوں کی تعیناتی سمیت احتساب کا بھی ایک نظام متعارف کروادیا گیا ہے مگر عدالتی نظام کو آئینی اور قانونی  تحفظ دئے بغیر اس کو لوگوں کے بنیادی حقوق کا نگہبان کیسے کہا جا سکتا ہے۔    

   ریاستی اور حکومتی معاملات  اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے چلانا آج کی دنیا میں ایک  ناقابل تردید حق  ہے جس کی ضمانت اقوام متحدہ کے عالمی منشور کے علاوہ ہر جمہوری ملک کا آئین  دیتا ہے جس میں پاکستان بھی شامل ہے۔  کسی بھی غیر منتخب اور غیر نمائندہ ادارے یا شخص کی حکومتی اور ریاستی معاملات میں مداخلت اور اختیار  جبر اور ستبداد کے زمرے میں آتا ہے۔  گلگت بلتستان  اور متنازعہ کشمیر کے دیگر علاقوں کے لئے اقوام متحدہ کی قرار داد میں بھی یہاں بسنے والے لوگوں کے جمہوری حق کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے  کہ یہاں مقامی حکومتیں قائم کرکے انتظام منتخب نمائندوں کے ذریعے چلا جائے۔  ہندوستان  اور پاکستان کے زیر انتظام  جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر میں جمہوری ادارے قائم کرکے اس قرار داد پر عمل درآمد کیا گیا مگر گلگت بلتستان میں ایسا ہونا اب بھی باقی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے میں اختیارات    کی مقامی سطح تک منتقلی کے لئے   اب تک اٹھائے گئے تمام اقدامات کا جائزہ لیا گیا  لیکن    اس میں کیسے مزید بہتری لائی جا سکتی ہے اس بارے میں   فیصلہ خاموش ہے۔   اس فیصلے میں لوگوں کی شہری آزادی کی اہمیت اور ان کے بنیادی انسانی حقوق  کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور ہندوستان دونوں   پر ذمہ داری عائد کی گئی ہے کہ وہ یہاں بسنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔  مگر  ان بنیادی حقوق  اور شہری آزادیوں کے حدود    کا تعین کئے بغیر حالات میں کسی قسم کی بہتری کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔

گلگت بلتستان میں اقتدار اعلیٰ کی تعریف اور اس کےتعین  کا سوال آج تک حل طلب ہے۔ سرکاری کاغذات اور دستاویزات میں آج بھی گلگت بلتستان میں ’’خالصہ سرکار‘‘ کا راج ہے۔  رنجیت سنگھ کی قائم کردہ خالصہ سرکار کا 1846ء میں انگریزوں کے ساتھ امرتسر میں ایک معاہدہ کے بعد وجود ہی ختم ہوا مگر اس کے بعد انگریزوں کی مدد سے قبضہ کئے گئے  گلگت بلتستان کے علاقوں  کو خالصہ سرکار کا حصہ بنا دیا گیا جو آج تک قائم ہے۔  آج بھی ریاستی زمین کو ’’ملکیت خالصہ‘‘ سرکارقرار دیا جاتا ہے   جس کا دنیا میں کہیں کوئی وجود ہی نہیں۔

 عام لوگ بھی خالصہ سرکار  کی اصطلاح  سے اس قدر مانوس ہو چکے ہیں کہ  یہ لفظ غیر ملکیتی اراضی  کے لئے مختص ہو  کر رہ گیا ہے۔ پٹوار خانے  کے مالیاتی نظام میں ملکیت کے کھاتے میں لکھا  اراضی کے مالک  کا نام بتانے سے معذور   لفظ ’’خالصہ سرکار‘‘ریاست  کے بجائے  زمین کی درجہ بندی کا تاثر  دیتا ہے  جس کی وجہ سے زمین پر   حق ملکیت کا ابہام 1880 ء سے آج تک موجود ہے  ۔  پاکستان میں  زمین سے متعلق مالیاتی نظام صوبائی دائرہ اختیار میں آتا  ہے جس میں ہر صوبے نے  اپنی  ضرورت اور حالات کے مطابق قانون سازی کی ہوئی ہے  مگر گلگت بلتستان میں خالصہ سرکار کے خاتمے کے پونے دو سو سال  بعد  آج بھی مالیاتی نظام  ا   سی  خالصہ سرکار کے   نام پر چل رہا ہے جو دنیا میں  حاکمیت اور اقتدار اعلیٰ کی انوکھی مثال  ہے۔   

ملک کے نامور وکلاء اور ماہرین آئین و قانون کی موجودگی میں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں جب یہ مقدمہ سنا جارہا تھا تو  توقع کی جارہی تھی کہ اقتدار اعلیٰ  کے تعین اور اس میں عوام کی حق نمائندگی جیسے    بنیادی سوالات پر غور کیا جائے گا ۔ مگر جب مقدمہ کے فیصلے میں ایک عام آدمی ایسی منطق کو سمجھنے سے قاصر ہے  جس میں اس علاقے کو پاکستان کے آئینی دائرہ کار سے باہر مگر اسی آئین کے  تحت حلف لینے والے صدر مملکت اور سپریم کورٹ کو  یہاں کے معاملات میں کلی اختیار دیا گیا  ہے۔

اس فیصلے کی مماثلت  1947 ء سے پہلے    کی نو آبادیاتی  نظام سے  نظر آتی  ہے جس میں برطانوی پارلیمنٹ اور بادشاہ کو   ہندوستان سے متعلق ہر فیصلے کا اختیار تو تھا مگر یہاں کے شہریوں کو برطانیہ کے شہری تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور نہ  ان کے برابر حقوق حاصل  تھے۔ برطانوی  پارلیمنٹ میں ہندوستان کے بارے میں   بحث اور قانون سازی کی آزادی تھی مگر یہاں صدراتی اختیار میں صرف وزیر اعظم کو ہی  مشورے  کا صوابدید ی اختیار ہے جو نوآبادیاتی طرز حکمرانی  کے ساتھ شخصی   آمریت     کی بھی  ایک مثال  ہے۔  

 گلگت بلتستان کے لئے ایک صدارتی حکم نامہ  مجریہ 2019 ء بھی سپریم کورٹ کے فیصلے  کا حصہ  ہے  جو عوامی رائے اور بحث کے بغیر ہی نافذ العمل قرار پایا ہے۔  یہ حکم نامہ بادی النظر میں انتہائی عجلت میں تیار کی گئی دستاویز ہے جس  پر سابقہ حکم نامہ مجریہ 2009 ء کی خامیوں اور کمی بیشی کی روشنی میں پائی جانے والی آراء کو در خور اعتنا ہی نہیں سمجھا گیا ہے۔ اس عدالتی  فیصلے کا حصہ ہونے کی وجہ سے سپریم کورٹ کی اجازت کے بغیر  اس   حکم نامہ میں  اب عدالتی اجازت کے بغیر  مزید ترمیم کی گنجائش بھی موجود نہیں۔  اس حکم نامہ  میں بہت ترامیم کی ضرورت ہے جو اب صرف حکومت کی طرف سے  عدالت میں درخواست کی صورت میں عدالت کی اجازت سے ہی ممکن ہے۔

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ سبک دوش ہونے والے چیف جسٹس کے سینے پر ایک اور کارنامہ کے تمغے کا اضافہ تو کرسکتا ہے مگر اس فیصلے سے گلگت بلتستان کے عوام کی محرومی  اور حق تلفی کا مداوا نہیں ہوسکتا۔  بطور بنیادی انسانی و شہری حقوق کے ضامن سپریم کورٹ کو چاہیئے کہ وہ  گلگت بلتستان کے لوگوں کو ہندوستان اور پاکستان کے برابر نہیں تو کم از کم ان ممالک کے زیر انتظام متنازع کشمیر کے دیگر علاقوں کے رہنے والوں کے برابر  شہری اور بنیادی حقوق دئے جانے  کے لئے اقدامات   اٹھا کر اپنےادھورے فیصلے کی تکمیل کرے ۔      

  ♦

Comments are closed.