اٹھارویں آئینی ترمیم ریاست کیوں ختم کرنا چاہتی ہے

اٹھارویں آئینی ترمیم پاکستان کے جرنیلوں کے جہادی مقاصد میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی ریاست شدید معاشی بحران کا شکار ہے امریکہ نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر رکھی ہے کیونکہ ریاست جہادی سرگرمیوں سےباز آنے کو تیار نہیں۔ عربوں نے کچھ قرضہ دیا ہے جو ہماری ضروریات سے بہت کم ہے۔ آئی ایم ایف بھی لیت و لعل سے کام لے رہا ہے اس کا کہنا ہے کہ ہمارےپیسوں سے چین کا قرضہ کیوں اتارتے ہو کچھ خود بھی پیدا کرلو۔

آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ چین کے ساتھ جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں شفافیت نہیں ، اس لیے انہیں اوپن کیا جائے ویسے ہی جیسے ورلڈ بینک، ایشین بینک یا آئی ایم ایف کے معاہدے ہوتے ہیں۔

جرنیلوں کا خیال تھا کہ عمران خان کے وزیر اعظم بنتے ہی بیرون ملک پاکستانی دھڑا دھڑ پیسے بھیجیں گے لیکن ان کے یہ اندازے بھی غلط ہوگئے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں کو علم ہو چکا ہے کہ پیسوں کا حساب کتاب تو ووڈی باجی کے پاس ہوتا ہے ویسے بھی ان کا کہنا ہے کہ اب آپ اقتدار میں آگئے ہیں تو ایک ہزار ارب روپے کی کرپشن اب رک جانی چاہیے اور اس سے اخراجات پورے کریں۔

ریاستی ادارےا پنی تمام تر دھاندلی کے باوجود دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں اس لیے وہ اٹھارویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ کے ذریعے تو ختم نہیں کر سکتے لہذا اس کے لیے اب سپریم کورٹ کا سہارا لیا جارہا ہے تاکہ اس ترمیم کو ختم کر کے صوبوں کے وسائل پر دوبارہ مرکز قابض ہوجائے اور جہاں چاہے خرچ کر سکے۔

اٹھارویں آئینی ترمیم پیپلز پارٹی اور اس کے صدر آصف علی زرداری کا کارنامہ ہےجنہوں نے اپنے دور اقتدار میں بنیادی قانون سازی کی تھی۔ جس میں این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم اور اٹھارویں ترمیم کے تحت صوبوں کو اس کے وسائل کا مالک بنانا تھا۔تاکہ ہر صوبہ اپنے وسائل اپنے عوام کی بھلائی پر خرچ کر سکے۔

قوموں کی زندگی میں کبھی کبھی ایسا سنہرا موقع آتا ہے جب آپ بنیادی قانون سازی کر لیتے ہیں اگر اس وقت اپوزیش رہنما نواز شریف تعاون کرتے تو آئین کی ۶۲، ۶۳ شقوں سمیت ضیاالحق کی قانون سازی ختم ہو سکتی تھی لیکن نواز شریف نہ مانے۔

نواز شریف نے اٹھارویں ترمیم پاس کرنے کے لیے شرط یہی رکھی تھی کہ ضیا الحق کی قانون سازی کو نہ چھیڑا جائے۔ اسی طرح ججوں کی تقرری پر بھی نواز شریف نے تعاون نہ کیا اور افتخارچوہدری کو مسلط کیے رکھا اور نہ ہی نیب کے ادارے کو ختم کرنے کی تجویز مانی۔

نواز شریف کی دلچسپی اتنی تھی کہ اس ترمیم کے ذریعے صدر اپنے اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر دے اور تیسری دفعہ وزیر اعظم کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے ۔ بہرحال اس کا ویژن ہی اتنا تھا جس کا خمیازہ وہ خود اور پوری قوم بھگت رہی ہے۔

لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ آج پنجابی اشرافیہ نواز شریف کو اینٹی ایسٹیبلشمنٹ اور زرداری کو ایسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔یہ بھی یاد رکھیں کہ آج سندھ ہی واحد صوبہ ہے جو ایسٹیبلشمنٹ کی مہم جوئیوں میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔

محمد شعیب عادل

Comments are closed.