سندھ میں بھی جبری اغوا کے سلسلے میں تیزی

بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے بعد اب سندھ سے بھی لوگوں کے جبری اغوا کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے۔

وائس آف مسنگ پرسنز ان سندھ‘ کی اعلیٰ عہديدار سورتھ لوہار کے بھائی کو جب حراست ميں لينے کی کوشش کی گئی تو سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ بارہ جنوری کے روز ہونے والی اس پيش رفت کے بعد صوبہ سندھ کے مختلف شہروں ميں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔

اس واقعے کے بارے ميں ڈی ڈبليو سے بات کرتے ہوئے سورتھ لوہار نے بتايا کہ ان کے سترہ سالہ بھائی سنجر لوہار کو گرفتاری سے بچانے ميں اس واقعے کی ويڈيو نے اہم کردار ادا کيا۔ ان کے بقول جب سنجر کو حراست میں لینے کی کوشش کی جا رہی تھی تو انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کا سہارا لیا۔ سورتھ نے فوری طور پر  لائیو ويڈیو کی مدد سے اپنے بھائی کے لیے اپیل جاری کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص اور صوبے سندھ کے دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

وائس آف مسنگ پرسنز ان سندھ‘ کی کنوینر سورتھ لوہار کئی برسوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے ليے سرگرم ہيں۔ سورتھ نے ڈی ڈبلیو کو یہ بھی بتایا کہ ان کے والد کو سن 2017 میں سادہ لباس میں ملبوس کچھ افراد اپنے ساتھ لے گئے تھے اور وہ یہ مقدمہ آج  تک لڑ رہی ہیں۔

سورتھ نے الزام عائد کيا کہ رينجرز کے اہلکاروں کی جانب سے ان کے گھر کے پاس چھاپہ مارا گيا، جس ميں ان کے بھائی کو حراست ميں لينے کی کوشش کی گئی۔

مقامی ميڈيا پر نشر کردہ رپورٹوں کے مطابق سنجر کو لاپتہ افراد کی بازيابی کے ليے جاری ايک مہم سے متعلق پوچھ گچھ کے ليے حراست ميں لينے کی کوشش کی گئی تھی۔ سورتھ کا دعویٰ ہے کہ اس دوران ان کی بہن سسی کے ساتھ بھی برا سلوک کیا گيا جبکہ ان کے بھائی کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ صورت حال کی ويڈيو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے ان کے بھائی کو بچانے کے لیے احتجاج شروع کر دیا۔

اس چھاپے کے  حوالے سے رینجرز کا  موقف بھی سامنے آ گيا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ’یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان رینجرز (سندھ ) کی جانب سے سورتھ لوہار کے بھائی سنجر لوہار کوگرفتار کیا گیا ہے جو کہ حقائق کے منافی ہے۔‘ اس بارے ميں جاری کردہ پريس ريليز ميں لکھا گيا ہے کہ پاکستان رینجرز کی جانب سے بارہ جنوری کو سورتھ  لوہار کے گھر پر کوئی چھاپہ مار کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی سورتھ يا اور اُن کے اہل خانہ کو ہراساں کیا گیا۔

ڈی ڈبلیو کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں سورتھ نے اس بات کی تصدیق کی کہ پچھلے چند ايام ميں آٹھ سے نو لاپتہ افراد کو رہا کیا گیا۔ انہوں نے بتايا، ’’یہ لوگ ایسی حالت میں ہیں کہ خود سے بھی اجنبی ہیں۔ نہ بولتے ہیں نہ کسی بات کا جواب دیتے ہیں۔‘‘ سورتھ کہتی ہے کہ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر اپنے والد اور ديگر لاپتہ افراد کی بازيابی کے ليے آواز بلند کرتی رہیں گی۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ وہ اپنے ہی ملک میں خود کو ’غیر محفوظ‘ محسوس کرتی ہیں۔

DW

Comments are closed.