کیا پاکستان کی سپریمؔ کورٹ کے جج بھی غدار اور وطن دشمن ہیں؟

منیر سامی

قیام ِ پاکستان سے اب تک ہمارے وطن کی ریت یہ رہی ہے کہ جو بھی پاکستان کے آئین کی حاکمیت کی بات کرے، انسانی حقوق طلب کرے، آزادئ اظہار کےبارے میں سوال اٹھائے، اور بالخصوص پاکستا ن کے عسکری طبقات کے سیاست میں عمل دخل کی مخالفت کرے، اسے غداری اور وطن دشمنی کا مرتکب قرار دے کر پھانسی پر چڑھایا جائے، ماورائے عدالت قتل کردیا جائے، یاترکِ وطن پر مجبور کیا جائے۔ لیکن پھر بھی کچھ ایسے بھی ہیں جو سرفروشی کی تمنا میں اپنے سر اپنے ہاتھوں پہ رکھتے ہوئے نگارِ وطن پر جاں نذر کرنے کو آگے بڑھتے رہتے ہیں۔

جہاں تک پاکستان میں غداری اور وطن دشمنی کے الزامات ہیں ، ان کی زد سے کوئی بھی سیاست داں یا سیاسی جماعت محفوظ نہیں ہے۔ اس میں نیشنل عوامی پارٹی، عوامی لیگ، پیپلز پارٹی، بلوچ سیاسی جماعتیں، حتیٰ کہ مسلم ،لیگ بھی شامل ہیں۔ اور کچھ ہی دن کی بات ہے کہ اس فہرست میں تحریکِ انصاف بھی شامل کردی جائے۔ اور وطن عزیز کی محضر ِ خونِ شہیداں اور بھی تنک رنگ ہوتی جائے گی۔ اور آئین شکنی کے مرتکب جنرل مشرف جیسے عسکری، اپنے ادارے کی حمایت اور پشت پناہی میں قانون اور عدالتوں کومنھ چڑاتے رہیں گے۔

ہم نے اپنے عنوان میں سپریم کورٹ کو اس لیئے شامل کیا ہے کہ حال ہی میں اس نے فیض آباد کے دھرنے اور اس میں ملوث تحریک لبیک پاکستان اور اس کے دریدہ دہن اور قانون شکن رہنما کی قانون شکنی کا از خود معاملہ اٹھاکر ایک بے نظیر فیصلہ سنایاتھا۔ آپ کو اردو میڈیا اور اردو اخبارات میں اس کی مفصل خبر اور اس پر تبصرے خال خال ہی ملیں گے۔ کیونکہ پاکستان میڈیا جس دباو میں ہے اور جس کا سپریم کورٹ کے میں بھی حوالہ ہے ، اس کو آپ تک پہنچانے سے خائف ہے۔

لیکن یہ فیصلہ ہمارے آئینی نظام کا ایک سنگِ میل ہے ، اس کو تحریر کرنے والوں میں جسٹس قاضی عیسیٰ ؔ، اور جسٹس مشیرؔ عالم شامل ہیں۔یہاں یہ بھی واضح کردیں کہ جسٹس عیسیٰ اس سے پہلے بھی مخالفتوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

یہ مقدمہ اس لیے اہم ہے کہ اس میں پاکستان میں آئین کی برتری، آزادئ اظہار ، اور انسانی حقوق کو اولین قرار دیا ہے۔ اور بالخصوص ہمارے عسکری اداروں کی سیاست میں دخل اندازی، بالواسطہ اور براہِ راست آزادئ اظہار پر قدغنوں کا حوالہ دیتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ اس میں ملوث عسکری افسروں کو سزائیں دی جائیں۔ یہی وہ معاملات ہیں جنہیں اٹھانے پر شہریوںکو وطن دشمن اور غدار قرار دیا جاتا رہاہے۔

یہ فیصلہ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر اس پتہ پر موجود ہے : http://www.supremecourt.gov.pk/web/page.asp?id=2971 .

اس فیصلے کے عسکری معاملات سے متعلق اہم معاملات یوں ہیں۔ (ترجمہ ہمارا ہے)۔

۔۔ مقدمہ میں اب سے پہلے کے ایئر مارشل اصغرؔ خان کیس کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت نے لکھا ہے کہ اُس فیصلہ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ، ’’پاکستان کے خفیہ اداروں، جس میں آئی ایس آئی، انٹیلی جنس بیورو، او ر ملٹری انٹیلی جنس کے افسران کی انفرادی اور اجتماعی غیر قانونی کاروایئوں کے خلاف ان کی حلف شکنی مطالبہ کرتی ہے کہ اگر وہ اس قانون شکنی کے مرتکب ہیں تو ان کے خلاف آئین اور قانون کے مطابق کاروائی کی جائےــ‘‘۔

اس کے فوراً بعد فیصلہ کہتا ہے کہ ، اصغر خان کے مقدمے کے فیصلے کے بعد عسکری اداروں کی سیاست اور میڈیا میں مداخلت بند ہوجانا لازم تھا۔ جب فیض آباد دھرنے میں ملوث افراد نے باوردی عہدے اداروں سے نقد رقم وصول کی ، تویہ بات طے ہوجاتی ہے کہ اس معاملہ میں عسکری ادارے ملوث تھے۔

افواجِ پاکستان کے اطلاعات کے ادارے، ‘آئی ایس پی آر‘ کے ڈائیریکٹر جنرل سیاسی تبصرے کرتے رہے ہیں ، عدالت نے ان کے اس بیان کا حوالہ دیا کہ، ’’تاریخ ثابت کرے گی کہ سنہ 2018 کے انتخابات شفاف تھے‘‘۔ افواج اور اس کے ذیلی اداروں کے افراد جو ، آئی ایس آئی،آئی بی، ایم آئی، اور ، آئی ایس پی آر، میں شامل ہیں ، پاکستان اور اس کے شہریوں کے خادم ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی بھی یہ تائثر قائم نہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی سیاسی جماعت، کسی سیاست دان، یا کسی طبقہ کی حمایت کر رہے ہیں۔

عدالت نے لکھا کہ ، اگر افوجِ پاکستان کا کوئی بھی فرد سیاست میں شامل ہوتا ہے یا میڈیا پر اثر انداز ہوتا ہے، تو وہ افوج کی دیانت داری اور پیشہ ورانہ منصب کو نقصان پہنچاتا ہے۔ افواج کی ذمہ داری آئین میں واضح طور پر درج ہے۔ ’’کہ وہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر پاکستان کا خارجی خطروں یا جنگ کے خطرات کے خلاف دفاع کریں گی، اور قانون کے مطابق شہری اداروں کی مد د کریں گی، جب انہیں اس مدد کی دعوت دی جائے۔ ہمیں کبھی بھی ان کے احترام اور قربانیوں کو ، چند لوگوں کی غیر قانونی کاروایئوں کی بنا پر زک نہیں پہنچانا چاہیئے جو ملک کے دفاع میں جان قربان کرتے ہیں۔ ‘‘

عدالت نے یہ حوالہ بھی دیا کہ، میڈیا بالخصوص ڈان اور جیو پر قدغنیں لگائی گیئں۔ اور ان کو چھاونیوں میں خصوصی طور پر نشانہ بنا گیا۔ اس کی تصدیق ’پیمرا ‘ نے بھی ۔ اس کے باوجود اس پر کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔

مختصر یہ کہ یہ فیصلہ ان حقیقتوں کا اعادہ کرتا ہے جن کے بارے میں بات، پاکستان اور اس کے شہریوں کے وفادار عمل پرست ، اور انسانی حقو ق کے بارے میں فکر مند افراد کرتے رہے ہیں۔ ایسا کرنے پر ان پر وطن دشمنی اور غداری کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیئے۔ ہمارے ہر وطن پرست اور درمند شہری کو یہ فیصلہ پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔

One Comment