دو قومیتوں کی لڑائی یا ریاست کی مجرمانہ غفلت

آصف جاوید

دنیا کی کسی بھی مہذّب ریاست میں قانون کی حکمرانی یعنی ریاست کی رِٹ، صرف دو اداروں سے قائم رہتی ہے، پولیس (یعنی قانون نافذکرنے والے ادارے )اور عدالتیں( نظامِ انصاف ) ۔ جس سماج میں یہ دو ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں اس سماج میں نہ تو جرائم پنپتے ہیں ،نہ ہی جرائم پیشہ گروہ (مافیاز ) جنم لیتے ہیں۔

کثیر الّسان اور کثیر القومیت معاشرے میں پولیس اور عدالتوں کا فعال اور غیر جانبدار ہونا نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اگر پولیس جانبدار اور عدالتیں سست رفتار ہوں ،تو نظامِ انصاف ناکارہ ہو جاتا ہے، نتیجے میں ریاست کی رِٹ کمزور ہوجاتی ہے، مافیاز سر اٹھا نے لگتے ہیں۔ سماج گروہوں میں بٹ جاتا ہے، ، نسل پرستی اور قومیت سر اٹھا لیتی ہے۔

آج سے چار روز قبل صوبہ سندھ کے شہر کراچی کی بھینس کالونی میں ایک لینڈ گریبر رحیم شاہ کے ہاتھوں ڈاکو قرار دے کر ارشاد رانجہانی کو اغوا کے بعد پوائنٹ بلینک رینج قتل (یعنی نشانہ سیدھ کر بالکل قریب سے گولیاں مارنا ) پر پولیس کی نااہلی، جرائم پیشہ افراد کے ساتھ دوستی اور نمک حلالی) مجرمانہ غفلت، نے حالات کو اس قدر بگاڑ دیا کہ ایک ون ٹو ون قتل کا معاملہ دو لسانی گروہوں کے درمیان محاذ آرائی میں تبدیل ہوتے ہوتے رہِ گیا۔

قاتل اور مقتول کراچی کے مضافات میں ایک بستی بھینس کالونی کے رہائش پذیر ہیں۔

قاتل رحیم شاہ کا تعلّق پشتون قبیلے سے ہے، اور مقتول ارشاد رانجھانی کا تعلّق سندھی قبیلے سے، قاتل پر الزام ہے کہ قاتل لینڈ گریبر اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوّث ہونے کے علاوہ یونین کونسل کا ناظم بھی ہے، مقتول پر الزام ہے کہ مقتول جرائم پیشہ اور ڈکیت گروپ سے تعلّق رکھتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو کے مطابق یہ ایک ون ٹو ون قتل تھا، جس میں قاتل رحیم شاہ کو ارشاد رانجھانی پر فائرنگ کرتے اور مقتول ارشاد رانجھانی کو زمین پر تڑپتے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

اس واقعے کے عینی شاہدین بھی موجود ہیں اور اس ہی علاقے سے تعلّق رکھتے ہیں جہاں قتل ہوا تھا۔ عینی شاہدین کے مطابق قاتل رحیم شاہ نے مقتول ارشاد رانجھانی کو اپنے چار مسلّح گارڈ کے ساتھ پہلے اغوا کیا، تشدّد کیا ، پھر پانچ گولیاں مار کر سڑک پر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا، قاتل نے سڑک پر مجمع لگا کر مقتول کو تڑ پنے کے لئے ڈال دیا ، مجمع مقتول کو تڑپتے دیکھتا رہا ، قاتل کھڑا تقریر کرتا رہا۔

مقتول کا بھائی قاتل کی منّت سماجت کرتا رہا کہ مجھے اپنے بھائی کو اسپتال لیجانے دو، مگر قاتل نے زخمی کو اسپتال لے جانے کی اجازت نہیں دی۔ مجمع خاموش تماشائی بنا رہا، پولیس تاخیر سے پہنچی، مگر پولیس تڑپتے ہوئے زخمی کو اسپتال پہنچانے کی بجائے قاتل کی باقاعدہ ہمنوا بن گئی۔ اور زخمی کو تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا، سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی وڈیو میں صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس زخمی پر کوئی توجّہ دینے کی بجائے قاتل کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے۔

پولیس کا جرم یہ ہے کہ پولیس نے پیشہ ورانہ اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا، اقرباء پروری کا مظاہرہ کیا، جرائم پیشہ گروہ سے نمک حلالی کا مظاہرہ کیا، نہ توقاتل کو گرفتار کرکے واقعہ کی چھان بین کی، نہ ہی مقتول کی جان بچانے کے لئے مقتول کو فوری طور پر اسپتال منتقل کیا۔

قتل کی لرزہ خیز وڈیو کے مناظر کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ہم 21ویں صدی کی کسی مہذّب ریاست میں نہیں رہ رہے، بلکہ قرونِ وسطیکے کسی قبائلی سماج میں رہِ رہے ہیں، جہاں کمزور انسانی گروہ ، طاقتور انسانی گروہ کے رحم و کرم پر ہیں۔

یہاں ریاست کی رِ ٹ پر سوال اٹھتے ہیں، پولیس کی مجرمانہ غفلت اور کردار پر سوال اٹھتے ہیں۔

پولیس کو فوری طور پر زخمی ارشاد رانجھانی کو اسپتال منتقل کرکے اس کی جان بچانے اور قاتل رحیم شاہ کو گرفتار کرکے واقعے کی تفتیش کرنی چاہئے تھی، واقعاتی شواہد ، آلہ قتل، ثبوت و گواہیاں جمع کرنی چاہئے تھیں، اور مقدمہ چالان کو عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہئے تھا۔

قاتل عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرتا ، اور یہ عدالت پر منحصر ہ ہوتا کہ کہ وہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، پولیس اس معاملے میں خاموش تماشائی بنی رہی۔ ریاست کی کمزوری سے قاتل شیر ہوگیا، اور اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کرنے کی بجائے نسل پرستی کا مظاہرہ کرتےہوئے ے اپنی قوم کے لوگوں کو ساتھ لے کر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا رہا، تاکہ اصل واقعہ دو قومیتوں کی لڑائی میں تبدیل ہوجائے۔

اگر قاتل رحیم شاہ نے مقتول ارشاد رانجہانی کو اپنے سیلف ڈیفنس مین قتل کیا ہے تو اس کو یہ بات عدالت میں ثابت کرنی چاہئے، بجائے اس کہ کہ یہ قاتل قوم پرستی کا کارڈ کھیل کر مظاہرے کرے، تقریریں کرے، اپنےآپ کو بچائے ۔

یہ ون ٹو ون قتل ہے، یہ دو قوموں کی لڑائی نہیں ہے، قتل کے عینی شاہدین موجود ہیں، ریاست کا کام یہ ہے کہ وہ قاتل کو گرفتار کرکے مقدمہ اور عینی شاہدوں کو عدالت میں پیش کرے ، قاتل عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرے، یہ عدالت پر منحصر ہے کہ وہ کیا فیصلہ دیتی ہے۔

بین السطور:- تازہ ترین اطلاعات کے مطابق حکومتِ سندھ کی مداخلت پر قاتل گرفتار کرلیا گیا ہے، ایف ائی آر درج ہوگئی ہے۔ مگر یہاں حکومتِ سندھ بھی مجرمانہ غفلت اور حالات کی خرابی کی ذمّہ دار ہے اس نے تین دِن بعد عوامی دباو پر مجبور ہوکر قاتل کی گرفتاری کے لئے قدم اٹھایا۔ اگر یہ کام خود کار طریقہ پر پہلے دن ہوجاتا تو ایک ون ٹو ون قتل کا واقعہ دو قومیتوں کے درمیان تنازعہ کی شکل اختیار نہ کرتا۔ شکر ہے کہ ابھی پشتونوں اور سندھیوں میں سمجھ دار اور سنجیدہ عناصر موجود ہیں جنہوں نے واقعہ کو لسّانی فساد کی شکل اختیار نہیں کرنے دی۔ ورنہ پولیس کی مجرمانہ غفلت اور ریاست کی نااہلی نے اس فساد کے برپا ہونے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔

Comments are closed.