’مٹی پاؤ‘، پاکستانیوں کا ’بیڈ فیتھ‘

 عاطف بلوچ

میں تو بہتری چاہتا ہوں لیکن یہ سماج اور حالات اس کی اجازت نہیں دیتے، اس صورتحال میں آخر میں کر کیا سکتا ہوں؟‘ یہ ہے وہ گھسا پِٹا احساس جسے مشہور فرانسیسی ادیب اور مفکر ژاں پال سارتر ’بیڈ فیتھ‘ قرار دیتے ہیں۔

ژاں پال سارتر کے نزدیک ’بیڈ فیتھ‘ کا شکار انسان نہ صرف انفرادی سطح پر ہوتے ہیں بلکہ پوری کی پوری قوم بھی ’بدنیتی‘ یا ’خود کو دھوکا دینے‘ کے احساس (بیڈ فیتھ) میں مبتلا ہو سکتی ہے۔ انسان ایک عرصے سے آخر مقدروں اور قسمتوں کو برا بھلا کہہ کر چین کی نیند بھی تو سوتا آ رہا ہے۔

بیڈ فیتھ کا اردو میں اصطلاحی ترجمہ ’دانستہ خود التباسی‘ کیا جا سکتا ہے۔ سارتر کے مطابق سماجی دباؤ، نامساعد اور نامناسب حالات کی وجہ سے لوگ مروجہ اور جھوٹی اقدار کو تسلیم کرتے ہیں اور یوں وہ اپنی شخصی آزادی پر سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔

کچھ دن قبل میرے ایک دوست نے شکایت کی کہ وہ پاکستان کے حالات میں تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن ان کے بس میں کچھ نہیں کہ وہ اس تناظر میں کوئی کردار ادا کر سکیں۔ ان کے مطابق وہ خود کو مقید محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اور ان کے کئی دوست اور دیگر جاننے والے بھی بضد ہیں کہ وہ تنہا کچھ نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لیے قوم کو جاگنا ہو گا۔ لیکن قوم تو تب ہی جاگتی ہے، جب اس کا ہر فرد اٹھ کھڑا ہو!۔

انہی دوستوں کے مطابق کوششوں کے باوجود وہ افسر شاہی اور اسٹیبلشمنٹ کے آگے مجبور ہیں جبکہ سماجی اقدار اور زمینی حالات ایسے ہیں کہ وہ معاشرتی بھلائی اور ابتر حالات کو سدھارنے کی کوششوں کو ترک کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ان کی اس احساس نے مجھے سارتر کی یاد تازہ کرا دی۔

دوسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد سارتر نے اپنے ’وجودی فلسفے‘ کے باعث نہ صرف فرانس بلکہ یورپ  بھر میں جینے کی ایک نئی اُمنگ پیدا کی۔ اس فرانسیسی فلسفی کا کہنا ہے کہ انسان بنیادی طور پر آزاد ہے اور وہ اپنی قسمت یا مقدر خود بناتا ہے۔ وہ عالمگیر ماہیت، جوہر یا قدر کے خلاف تھے۔ اسی لیے انہوں نے تمام مذاہب، قسمت، مقدر اور ایسی تمام اساطیری تراکیب کو بھی رد کیا، جو انسان کو جھوٹ کے پل فراہم کرتے ہیں۔

سارتر پر کی جانے والی تنقید ایک علیحدہ بحث ہے، لیکن یہاں ہم بات کر رہے ہیں کہ کیا انسان واقعی حالات کے آگے مجبور ہے؟ پاکستان میں ایک محاورہ عام ہے ’مٹی پاؤ‘ یعنی کسی مسئلے کی اصل وجوہات مٹی میں دفن کر کے یا بھول کر وقتی طور پر درپیش معاملات کو نمٹانے کی کوشش کی جائے۔ لیکن مٹی میں دبے ہوئے مسئلے جب بڑے ہو کر زمین سے نکلتے ہیں تو وہ کسی عفریت سے کم نہیں ہوتے۔

سوال یہ بھی ہے کہ کیا آزادی واقعی ایک بہت بڑا عذاب ہے؟ مختلف راستوں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کرنا ایک مشکل کام ہوتا ہے اور بالخصوص ایسا راستہ (اسے ہم عمل بھی کہہ سکتے ہیں) جو مروجہ اقدار کے خلاف ہو۔ اس میں خوف اور کرب کی کیفیت ہوتی ہے۔ کہیں یہی وجہ تو نہیں کہ انسان کرب سے بچنے کی خاطر وہی کچھ کرنے لگتا ہے، جو دیگر لوگ کر رہے ہوتے ہیں؟ یعنی  صرف حالات اور سماجی دباؤ پر لعن طعن۔

سارتر کے مطابق چونکہ انسان بنیادی طور پرآزاد پیدا ہوا ہے اور اسے اپنے تمام تر اعمال کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔ وہ جو بھی کرتا ہے، وہ اعمال اس کے عکاس ہوتے ہیں۔ سارتر کے نزدیک تقدیر کچھ بھی نہیں بلکہ انسان کا خاصہ وہ ہے، جو وہ خود اپنے انتخاب سے ترتیب دیتا ہے۔

سارتر کے مطابق انسان جو کہ اپنے ہر فیصلے اور عمل میں مکمل آزاد ہے، دنیاوی اور مروجہ اقدار یا دباؤ  کے باعث مجبور ہو جاتا ہے، جو ایک غلط رویہ ہے۔ اسی طرح قومیں بھی ’بیڈ فیتھ‘ کا شکار ہو سکتی ہیں۔

بحیثت مجموعی قومیں اپنے انحطاط کا ذمہ دار بیرونی طاقتوں اور سازشوں کو قرار دیتی ہیں اور ’خود التباسی‘ میں مبتلا ہو کر کرب سے وقتی طور پر چھٹکارہ حاصل کر لیتی ہیں۔ تاہم اس سے طویل المدتی مسائل جنم لے لیتے ہیں۔ انفرادی سطح پر خود سے جھوٹ بولنے سے طویل المدتی بنیادوں پر نفسیاتی مسائل کا جنم لینا بھی ایک عام سے بات ہے۔

DW.COM

One Comment